خود نمائی کا جذبہ ہر انسان ہیں ہوتا ہے گفتگو ، لباس اور ظاہری وضع قطع سے ایک شخص دوسرے کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتاہے ہم کچھ اسی حوالے سے لوگوںکو مرعوب کرنے کے لیے کوئی نئی تدبیر سوچ رہے تھے کیونکہ ہماری جسمانی ساخت تو قطعاً ایسی نہیں جو لوگوںکو متاثر کر سکے اور نہ آواز اور انداز گفتگو ایسا ہے جو کسی کا دل موہ لے، رہی بات علمی استعدا کی تو فکر معاش نے ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو اس حد تک متاثر کیا ہے کہ اپنی معلومات اور علم کی بدولت کسی کو مرعوب کرنے میں اب کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیںہوتی ، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں ، کونسا ایسا کام کریں کہ ایک بار پھر لوگ ہم سے متاثر ہونے لگیں ، ویسے ایسا کبھی ہوا تو نہیں کہ ہم نے کسی کو متاثر یا مرعوب کیا ہو ، شاید اسی سوچ کے پیش نظر ایک جاپانی خاتون نے جو ہماری طرح مرض خودنمائی میں مبتلا تھیں پاکستان کی قومی زبان اردو سیکھنے کا فیصلہ کیا اور یہاں آنے کے بعد اردو کے بجائے پنجابی سے زیادہ متاثر ہوئیں ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ مجھے تو اردو سے زیادہ پنجابی زبان زیادہ اچھی لگی ، ایک مثال دیتے ہوئے بولی کہ ’’آپ کا کیا حال ہے ‘‘ کے مقابلے میں ’’تواڈا کی آل اے‘‘ زبان سے ادا کرنا زیادہ اچھا لگتا ہے ان کی اس بات پر غورکرنے کے بعد ہم نے جب ’’تواڈا کی آل اے‘‘ اپنی زبان سے ادا کیا تو بہت اچھا لگا مزید غوروفکر کے بعد فیصلہ کیا کہ کیو ں نا پنجابی زبان سیکھی جائے۔کیوں کہ اردو دانوں کے درمیان تو مستقبل قریب یا بعید میں بھی ہماری دال گلنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا،جس طرح کی اردو ہم بولتے اورلکھتے ہیں ،اردو زبان کی عافیت اسی میں ہے کہ’’ ہماری اردو ــ‘‘کا سایہ اس پر نہ ہی پڑے توبہترہے۔ خیر صاحب ساہیوال سے تعلق رکھنے والے اپنے ایک پڑوسی کی مدد سے پنجابی میں روز مرہ کے استعمال کے کچھ جملے سیکھے اور اپنی علمیت کا رعب جھاڑنے کے لیے ایک دکان پر پہنچے اور دکان دار سے ماچس کچھ اس اندازمیں طلب کی ’’ساڈے کول ماچس اے‘‘ (میرے پاس ماچس ہے) اتفاق سے وہ بھی پنجابی جانتا تھا اس نے جواب دیا ’’تے فر میں کی کراں؟ ‘‘(تو پھر میں کیا کروں؟) اس کے اس جواب پر ہمیں بڑا غصہ آیا کہ عجیب دکاندار ہے ہم اس سے ماچس مانگ رہے ہیں اور یہ کہہ رہا ہیں کہ میں کیا کروں ہم نے بھی تیز آواز میں اس سے دوبارہ کہا ’’ساڈے کول ما چس اے‘‘ اس نے ہم سے بھی سخت لہجے میں کہا ’’تے فر میں کی کراں‘‘ دکاندار کے دوسری بار اس طرح گرجنے پر ہم سہم سے گئے سوچا کہ یقیناًً کچھ گڑ بڑ ہے ورنہ ہم سے آج تک کسی دکاندار نے اس انداز میں بات نہیں کی اس کے باوجود ہم نے تین بار اسی انداز میں ماچس طلب کی کہ ’’ساڈے کول ماچس اے‘‘ اور قبل اس کے کہ وہ دکان سے با ہر نکل کر بھرے بازار میں ہماری پٹائی شروع کرتا
ہم نے یہ سوچتے ہوئے کہ شا ید اس کے پاس ماچس نہیں یا اسے پنجابی نہیں آتی وہاں سے فوراً رفوچکر ہونے میں عافیت جانی ، شام کو اپنے پڑوسی کو بتایا، پہلے تو وہ جی کھول کر ہنسے اور پھر بولے جناب ’’ساڈے‘‘ کا مطلب میرا ہوتا ہے ساڈے کول ماچس کا مطلب ہواکہ’’ میرے پاس ماچس ہے‘‘، لہذا دکاندار کا جواب اور غصہ دونوں درست تھے آپ نے اچھا کیا کہ معاملہ زیادہ گرم ہونے سے پہلے ہی وہاں سے فرار ہو گئے ان کی اس وضاحت کے بعد تو ہماری ہنسی بھی بے ساختہ چھوٹ گئی محلے کے جس لڑکے کو بھی یہ بات بتاتے وہ بھی خوب قہقہے لگاتا بس اس موقع پر ہم نے یہ طے کیا کہ ’’ساڈے کول ماچس اے‘‘ کے ذریعے تفریح کا مزید کچھ سامان کرنا چاہیے محلے کے چند شرارتی لڑکوں کوتیار کیا اور انہیں اس دکاندار کے پاس سے ماچس لانے کو کہادکان پر پہنچ کر انھوں نے وہی جملہ دہرایا’’ساڈے کول ماچس اے‘‘ تو اس کے بعد دکاندار کا وہی جواب ’’تے فر میں کی کراں‘‘ کچھ دیر یہ تکرار جاری رہی ، مگر لڑکے اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے اور ان کی ہنسی چھوٹ گئی اور اس سے پہلے کے دکاندار ان کے خلاف کچھ کرتا لڑکے بڑی پھرتی کے ساتھ وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے اس واقعے کے بعد ہم نے پنجابی زبان کو سنجیدگی کے ساتھ سیکھنے کا فیصلہ کیا اور چند ہی دن میں ہم اچھی خاصی پنجابی سیکھ گئے۔ طبیعت کے چلبلے پن نے ہمیں دوبارہ شرارت پر اکسایااس بار ہماری منزل مارکیٹ میں سبزی فروش کی دکان تھی مگر اس بار قسمت کی دیوی ہم پر مہربان تھی کیونکہ جس سبزی فروش سے ہماری واسطہ پڑا تھا اسے پنجابی نہیں آتی تھی لہذا خود کو ذہنی طور پر پوری طرح تیار کر کے دکان پر پہنچے اس نے ہم سے پوچھا کیا چاہیے؟ ہم نے کہا بتائوں (بینگن) اس نے جواب دیا جی ہاں جناب بتائیے کیا چا ہیے ہم نے اسی انداز میں دوبارہ کہا ’’بتائوں‘‘ اس بار اس نے کچھ جھنجھلاتے ہوئے انداز میں کہا کہ بھائی تمھیں جو بھی چاہیے بتادو، ہم نے تیسری بار اس سے یہی کہا کہ ’’بتائوں ‘‘ اور اس با ر اس نے جس غصے کے ساتھ ہم سے کہا ’’ابے بتا بھائی بتا‘‘ وہ انداز نا قابل بیان ہے ، اور ساتھ ہی ساتھ اس فرحت اور سرور کا بیان کرنا بھی نا ممکن ہے جو ہمیں اس موقع پر حاصل ہورہا تھا خیر صاحب جب ہم نے دیکھا کہ معا ملہ خاصا گرم ہوگیا ہے اور ہماری بے اختیا ر ہنسی بھی نکلنے کے لیے بے قرار ہے اپنی سائیکل اتنی تیزی سے آگے بڑھائی جیسے کوئی برق رفتار گھوڑا ، اور مارکیٹ کی حدود سے باہر نکلنے کے بعد ہم نے کچھ سکون کا سانس لیا ہی تھا کہ ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کیونکہ سامنے سبزی فروش اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ کسی فلم کے ولن کی طرح ہمیں گھور رہاتھا اور ہمیں اس بات کا یقین ہو چلا تھا کہ آج تو مارے گئے، الٹی چٹی پڑ گئی والامعاملہ ہونے جا رہا تھا ہم اس موقع پر یہ سوچ رہے تھے کہ کاش یہ کوئی فلمی منظر ہوتا اورہم کسی ہیرو کی طرح ان تمام افراد سے تن تنہا مقابلہ کرتے اور ایسی مار لگاتے کہ انھیں چھٹی کا دودھ یاد آجاتا ، مگر بقول
غالب
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
ابھی ہم انھی خیالات کا تانا بانا بن رہے تھے کہ سبزی فروش کا ہاتھ ہماری گردن تک پہنچ چکا تھا اور اسے ہماری نا تواں جسم کو اپنے کاندھے پر اٹھا کر دکان تک لے جانے میں کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، ہم نے ایک فلمی ہیروئن کی طرح بڑے ہاتھ پائوں مارے مگر اسے ہم پر ذرا رحم نا آیا اور نہ ہی قریب میں موجود کوئی ہیرو اپنے گھوڑے سے چھلانگ لگا کر سامنے آیا۔ اس سے پہلے کے ہم اس کی دکان پر پہنچتے اور وہ ہماری ضیافت شروع کرتا شاید ہم اس کے کاندھے پر ہی لٹکے لٹکے بے ہوش ہو گئے اور جب ہمیں ہوش آیاتو ہم پنے گھر میں تھے اور سامنے ہمارے گھر والے ہم پر خوب جی کھول کر ہنس رہے تھے کیونکہ سبزی والا ہمارے انہی ساہیوال والے پڑوسی کی مدد سے ہمیں گھر تک پہنچا گیا تھا جو کہ مار کیٹ سودا لینے گئے تھے اور وہاں ہماری یہ حالت دیکھی تو سبزی والے کے ساتھ ہمارے گھر تک آئے مگر سبزی والے نہ صرف یہ کہ ہمیں گھر تک پہنچایا بلکہ ہمارے پڑوسی اورگھر والوں کوہماری حرکت کے بارے میں بھی تفصیل سے بتایا، بس جناب اس کے بعد کیا تھا ہم تھے اورہمارے گھر والوں اور پڑوسی کے قہقہے۔