میں: تم نے اپنی گزشتہ گفتگو میں کہا تھا کہ مغربی تہذیب ایک Crash Civilization ہے۔ میں اس دن سے اِسی شش وپنج میں مبتلا ہوں کہ آخر تمہیں مغربی تہذیب سے خدا واسطے کا بیر کیوں ہے، آج دنیا ترقی کی جس منزل پر کھڑی ہے وہ سب اسی تہذیب کی تو دَین ہے۔
وہ: اس کا جواب سوال کے اندر ہی ہے، چلو آج اسی پر گفتگو کرلیتے ہیں کہ ترقی اور اس کو ناپنے کا پیمانہ کیا ہے؟ کیا نت نئی سائنسی ایجادات کا فروغ ترقی ہے؟ مٹی کے گھڑے کے بجائے ریفریجریٹر کا ٹھنڈا پانی پینا ترقی ہے، گائوں کی نہر کو چھوڑ کر کسی ہوٹل کے سوئمنگ پول میں نہانا ترقی ہے؟ تھری پیس سوٹ پہن کر دن بھر ائرکنڈیشن کے ٹھنڈے ماحول میں گزاردینا ترقی ہے؟ یا عورت کو بہن، بیٹی، بیوی اور ماں کے درجے سے گرا کرفن کے نام پر بازارکی زینت اور بیہودگی کا سامان بنادینا ترقی ہے؟
میں: تم یہ کیسی باتیں کررہے ہو؟ دنیا میں ہمیشہ ایسا ہی ہوا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان نے زندگی کو آسان سے آسان بنایا ہے اور اس عمل کے دوران آنے والی تبدیلیاں اصل میں ترقی ہی تو ہے۔
وہ: یعنی جن جگہوں اور علاقوں میں یہ نئی تبدیلیاں نہیں آئی ہیں وہ ترقی کے میدان میں پیچھے ہیں اور جب تک وہ افراد، خطے اور اقوام دنیا میں ترقی کے ٹھیکیداروں کی وضع کردہ تعریف پر پورا نہیں اتریں گی یوں ہی راندۂ درگاہ رہیں گی۔
میں: ہاں بالکل ایسا ہی ہے جو قومیں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھتے ہوئے ترقی کی منازل طے کررہی ہیں، آسمان کی بلندیوں کو چھوتی عمارتیں بنارہی ہیں، سائنسی ایجادات کررہی ہیں وہ ترقی یافتہ ہیں اور جو ایسا کرنے سے قاصر ہیں وہ ترقی پزیر۔
وہ: میرے بھائی مادی اشیا کا فروغ اور بظاہر اس زندگی کو آسان سے آسان بنانے والی نئی نئی ایجادات کسی بھی دور میں انسان اور انسانیت کا مسئلہ نہیں رہیں۔ ذرا غور کرو کہ یہ ترقی تو اس زمین پر زندگی کے آغاز کے بعد سے محض گزشتہ ایک ڈیڑھ صدی پر محیط ہے۔ کیا اس سے پہلے انسان فاقوں مررہا تھا؟ موسم کے سرد وگرم سے بچنے کا اس کے پاس کوئی سامان نہیں تھا؟ معاشروں میں علم کی آبیاری نہیں ہورہی تھی؟ لوگ جانوروں کی سی زندگیاں گزار رہے تھے؟ اور جہاں تک بلندو بالا عمارتوں اور نت نئی ایجادات کا تعلق ہے تو دنیا ترقی کے اس موجودہ دور سے برسوں اور صدیوں پہلے وہ وہ کچھ دیکھ چکی ہے، جسے دیکھ کر آج کا انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے، اور ستم یہ ہے کہ جو کچھ وہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بنارہا ہے، وہ ماضی کی یادگاروں جیسا خوب صورت ہے نہ پائیدار۔
میں: یعنی تم کہنا چاہ رہے ہو کہ ہم سے پہلے کی اقوام اور دور زیادہ ترقی یافتہ تھا؟
وہ: میرے دوست ترقی یافتہ اور ترقی پزیر دراصل اصطلاحات ہیں، جن کے ذریعے استیصال کا ایسا جال بچھایا گیا ہے جو ہرگزرتے دن کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جارہا ہے اور ترقی کا جواز پیدا کرنے کے لیے استیصال کو گزشتہ ستر، اسّی سال کے دوران دنیا کے بیش تر خطوں میں برقرار رکھا گیا ہے۔ تمہاری معلومات میں ایک اور اضافہ کرتا چلوں کہ دنیا نے ترقی کا لفظ پہلی بار 50ء کے اوائل میں اس وقت کے امریکی صدر آئزن ہاور کی ایک تقریر میں سنا تھا۔
میں: کیا واقعی، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ بظاہر ترقی یافتہ ممالک ترقی کو ایک حربے کے طور پر استعمال کررہے ہیں؟ تاکہ چھوٹی اور کمزور اقوام اجتماعی احساسِ کمتری کے بوجھ تلے دب کر اُن ممالک کی برابری کرنے کے فریب میں مبتلا ہوکر مستقل ایک بے سمت اور بے نام جدوجہد کرتی رہیں۔
وہ: بالکل درست نتیجہ اخذ کیا ہے تم نے، اصل میں معاملہ سرمایہ دارانہ نظام کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے نت نئی ایجادات کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لوگوں کی زندگیوںمیں لازم وملزوم کیا جارہا ہے۔ موبائل فون اس کی تازہ ترین مثال ہے جس نے ہماری روزمرہ کی ضرورتوں کو اس نہج پر لا کھڑا کیا ہے کہ ہم اپنی جھوٹی شان دکھانے کے چکر میں مہنگے سے مہنگا موبائل فون بخوشی خرید لیتے ہیں، مگر سو دوسو روپے کی کتاب خریدنے کے لیے مجال ہے جو کبھی جیب اجازت دے۔ خیر چھوڑو یہ ہماری آج کی گفتگو کا موضوع نہیں، اس کو کسی اور نشست کے لیے اٹھا رکھو۔
میں: تم کیا چاہتے ہو کہ ہمیں ماضی کی طرف لوٹ جانا چاہیے؟ آج کی اس ترقی سے انکارکرکے سیدھی سادی زندگی گزارنا چاہیے؟
وہ: کاش ایسا ممکن ہوتا، انسان مشینوں سے پیار کرنے کے بجائے اپنے جیسے انسانوں کو اہمیت دیتا، ان کے ساتھ وقت گزارتا، ان کے جذبات کی قدرکرتا، لوگوں کے دکھ درد میں ان کے کام آتا، اپنے کام کوئی بٹن دبائے بغیر اپنے ہاتھوں سے کرتا اور سب سے بڑھ کر چہار جانب پھیلی اس کائنات اور اس کے فطری مناظر کو دیکھ کر خدا کی ذات وصفات کا ادراک کرنے کی کوشش کرتا۔ مگر افسو س کہ جس ترقی کے آسمان پر پہنچنے کی جستجو میں ہم نے خاک سے اپنا تعلق توڑا، اس کا اولین مقصد انسان کو خدا سے دور کرنا تھا۔ اورآج ترقی کی یہ نہ ختم ہونے والی دوڑ ہمیں ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنے خدا سے دور کرتی جارہی ہے۔