میں: کل اچانک ایک خیال ایک سوال بن کر میرے سامنے آ کھڑا ہوا، کہ آخر انسان کا بنیادی مسئلہ کیا ہے۔ خیال رہے کہ میں انسان کے مقصدِ وجود کی بات نہیںکررہا۔
وہ: یعنی تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ انسان اس دنیا میں چاہتا کیا ہے اور ہزاروں لاکھوں صدیاں گزرنے کے بعد بھی آج تک خود اپنا ادراک نہیں کرسکا ہے۔
میں: ویسے میں اس موضوع پر کوئی فلسفیانہ بحث نہیں کرنا چاہتا مجھے جو چیز پریشان کررہی ہے وہ انسان کا ایک عمومی رویہ ہے کہ انسان خوب سے خوب تر کی تلاش میں ایک ناختم ہونے والی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔
وہ: میرے خیال سے یہ خوب سے خوب تر کی دوڑ نہیں بلکہ اس دنیا کی زندگی کو آرام وسکون سے گزارنے کی خواہش ہے جسے انسان اپنا مطلوب ومقصود بناکر مسلسل تگ ودو میں لگا ہوا ہے۔
میں: یعنی تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ انسان کا بنیادی مسئلہ زندگی کاعیش و آرام ہے، جس کے لیے وہ مسلسل کوشاں رہتا ہے؟ اس حوالے سے مجھے آپؐ کی وہ حدیثِ قدسی یاد آرہی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہم نے آرام کو جنت میں رکھ دیا ہے۔ لوگ اسے دنیا میں تلاش کرتے ہیں، نہیں پاسکیں گے‘‘۔
وہ: بے شک۔۔۔ اسی فرمان عالی شان کے تناظر میں مجھے ایک حالیہ تحقیق یاد آگئی جس میں ایک امریکی سائنس دان ڈاکٹر ایلس سلور نے اپنی کتاب ’’humans are not from earth‘‘۔ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انسان اس زمین کا باشندہ نہیں ہے، بلکہ اسے ایک اور جہان سے لاکر یہاں آباد کیا گیا ہے۔ جہاں وہ انتہائی عیش وآرام کی زندگی گزار رہا تھا۔ اسے ایک نہ ایک دن اپنی اسی منزل پر واپس جانا ہے تب جاکر اس کی زندگی میں سکون آئے گا اور شاید وہاں اسے وہ ساری محنت اور جدوجہد نہ کرنی پڑے جس کے بغیر اس کے لیے اس سیارے یعنی زمین پر اپنے روز وشب کا آرام وسکون حاصل کرنا محال ہے۔ اسی لیے اس دنیا میں آرام وسکون حاصل کرنے کی خواہش اس کے دل میںہمیشہ سے زندہ ہے ۔ وہ آرام دہ بستر پر سونا چاہتا ہے، پرآسائش گھر میں رہنا چاہتا ہے، ایک سے بڑھ کر ایک مزیدار چیزیں کھانا چاہتا ہے۔
میں: چلو اچھی بات ہے کہ سائنس زندگی کے ان حقائق کو وقت کے ساتھ ساتھ تسلیم کرتی جارہی ہے جنہیں ماننے سے وہ اکثر انکاری رہی ہے۔ اگر یہ ڈاکٹر سلور مسلمان ہوتے تو ان کو اس حقیقت تک پہنچنے اور اس پر ایمان لانے میں ذرا دیر نہ لگتی کہ انسان کو جس جنت سے نکال کر زمین پر خلیفہ بناکر بھیجا گیا تھا وہ ہی انسان کا ازلی مقام ہے جہاں وہ بڑے نازو نعم سے جی رہا تھا۔ وہ ساری سہولتیں جو اسے بغیر کسی محنت ومشقت کے مل رہی تھیں وہ اس زمین پر آنے کے بعد اس کی اپنی کوشش سے مشروط کردی گئیں۔
وہ: ویسے بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اچھے سے اچھا کھانے، بہترین لباس پہننے اور انتہائی آرام دہ گھر میں رہنے پر کوئی ممانعت نہیں ہے۔ بس وہ تو صرف اتنا چاہتا ہے کہ جو خود کھائو اپنے ملازم کو کھلائو، پیٹ بھر کھانا کھانے سے پہلے پڑوسی کی خبر بھی لے لو کہ کہیں وہ اور اس کے بچے تو بھوکے نہیں سوگئے۔ اگر تمہارے لباس سے کسرِ نفسی کے بجائے غرور وتکبر جھلکنے لگے تو اس کا مطلب ہے لباسی کا مقصد تن ڈھانپنا نہیں تسکین ِ انا ہے۔ اور رہی بات اچھے مکان اور پرآسائش مکان میں رہنے کی تو مجھے نبی آخرالزماںؐ کی زندگی کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہو تو سنائوں۔
میں: ضرور ضرور، اللہ کے رسولؐ کی زندگی کا تو ہرہر پہلو ہمارے لیے مشعل ِ راہ ہے۔۔۔
وہ: یہ آپؐ کی مدنی زندگی کا واقعہ ہے کہ آپؐ مدینے میں ایک گلی سے گزر رہے تھے تو دیکھا کہ ایک اپنے مکان کی چھت پر ایک اورمنزل تعمیر کروا رہا تھا، آپؐ نے یہ منظر دیکھا تو کہا کہ اے شخص تجھے کیا اس دنیا میں ہمیشہ کے لیے رہنا ہے، تو اس شخص نے کام رکوا کر نوتعمیر شدہ منزل گرادی اور اپنے رب کے حضور توبہ کی۔
میں: آج کی گفتگو سے میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ اس دنیا میں آرام کے حصول کی سعی وکوشش انسان کی فطری ضرورت ہے، لیکن مسئلہ حد سے تجاوز کرنے کا ہے۔ اور انسان حد سے اس وقت گزرتا ہے جب اس کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے اور اسے معاشرے میں اپنی شان وشوکت اور مرتبہ دکھانے کی دھن سوار ہوجاتی ہے۔ بندگی کے بجائے انانیت سر اٹھانے لگتی ہے، پھر انسان اسی دوڑ میں بھاگتے بھاگتے ایک ایسے گڑھے میں جاگرتا ہے جہاں سے واپسی کا راستہ بند ہوجاتا ہے۔
وہ: آج کی گفتگو کا اختتام مرحوم اعجاز رحمانی کے اس شعر پہ کرتے ہیں
ہے یہی بس ایک طریقہ دنیا میں خوش رہنے کا
دست تمنا کھینچے زیادہ، دامن دل پھیلائے کم