(اس گفتگومیں ’وہ‘ فرانسیسی خاتون ہیں)
میں: آپ فرانس میں کب سے مقیم ہیں؟ اور اس عرصے میں آپ نے کن تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ہے؟
وہ: کم و بیش سولہ سال ہوچکے ہیں اور میں پیرس کے مضافات میں رہائش پزیر ہوں۔ جہاں تک بات یہاں آنے والی تبدیلیوں کی ہے تو فرانس میں یہ عمل یورپ کے دیگر خطوں کے مقابلے میں قدرے سست ہے۔ اصل میں فرانسیسیوں کی سوچ بہت سطحی ہے، خاص طور پر مسلمانوں کے حوالے سے۔ ان سے مسلمان عورتوں کے سر پر حجاب بالکل بھی برداشت نہیں ہوتا۔ ہائی اسکول تک تو لڑکیوں کے لیے حجاب کرنے کی اجازت ہی نہیں ہے۔ دوران ملازمت اور عوامی مقامات پر بھی حجاب نہیں لگانے دیا جاتا، یہاں تک کہ کوئی مسلمان عورت حجاب لگا کر کسی ملازمت کے لیے انٹرویو دینے کی بھی اہل نہیں ہوتی، طوعاً وکرہاً انٹرویو ہوبھی جائے پر ملازمت تو کسی صورت نہیں دی جاتی۔ زیادہ تر مسلم خواتین کو ماسی کے علاوہ کسی دوسرے کام کے لیے ترجیح ہی نہیں دی جاتی۔ اس بات کو آپ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ اگرآپ مسلمان ہیں تو معاشرے میں تیسرے درجے کے شہری ہیں اور اگر آپ حجاب پہنتی ہیں اور آپ کے مرد ڈاڑھی رکھتے ہیں تو آپ کے ساتھ اتنا زیادہ امتیازی سلوک اختیار کیا جائے گا کہ آپ خود کو کسی بھی درجے میں شمار نہیں کرسکتے۔ یعنی اگر آپ مسلمان ہیں تو فرانس میں آپ تھرڈ کلاس ہیں اور حجاب اور ڈاڑھی کے پابند ہیں تو آپ کی کوئی کلاس نہیں۔ یہ فرانس میں لوگوں کا ایک عام رویہ ہے جو اب قانون کی شکل اختیار کرتا جار ہا ہے۔
میں: دکانوں اور بازاروں میں آپ کو کس طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
وہ: بات دراصل یہ ہے کہ فرانس کے لوگ بہت زیادہ حسن پرست واقع ہوئے ہیں، دوسرے لفظوں میں آپ اِسے بے ہودگی کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ دکانوں پر خریدو فروخت کے معاملے میں ان کے انداز میں یہ عنصر بہت نمایاں ہے۔ ایک بنی ٹھنی دوشیزہ کے ساتھ بڑی خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں لیکن اگر کوئی عام سے حلیے میں ہے اور اگر وہ کوئی مسلم خاتون ہے تو اسے معمولی سا بیکری والا بھی باسی ڈبل روٹی تھما دیتا ہے۔ یہ تو میرے اپنے ساتھ کئی بار ہوا ہے۔
میں: کیا اسکولوں میں آپ کے بچوں کو بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟
وہ: یہاں تعلیم کا نظام سب کے لیے یکساں ہے اور حکومت کی نگرانی بہت سخت ہے۔ پاکستان کی طرح کلاس سسٹم نہیں ہے، جہاں غریب کا بچہ امیر کے بچہ کی طرح کسی اچھے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ مگر اس خوبی کے ساتھ آج کا سب سے بڑا مسئلہ مسلمان بچوں کے ساتھ شروع کیا جانے والا امتیازی سلوک ہے۔ مسلمان بچوں کے لیے شناختی نمبر کا نظام چند دنوں میں شروع کیاجانے والا ہے۔ یعنی اسکول میں مسلمان بچوں کو قیدیوں کی طرح نمبرز الاٹ کرکے گلے میں کارڈز لٹکائے جائیں گے۔
میں: لیکن فرانس اور تمام ہی مغربی ممالک انسانوں کی آزادی کے سب سے بڑے علم بردار سمجھے جاتے ہیں!
وہ: یہ فرانس سمیت ان تمام قوموں کی سب سے بڑی منافقت ہے۔ اظہار ِ رائے کی آزادی اور شخصی احترام کے سارے دعوے ایک ڈھونگ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جس Liberty of Speech کو یہ اپنے لیے جائز سمجھتے ہیں، فرانس میں مسلمانوں کو یہ آزادی حاصل نہیں ہے۔ آپ خود ہی بتائیے یہ کیسا اظہارِ رائے ہے جس سے نہ صرف فرانس بلکہ دنیا کے اربوں مسلمانوں کو شدید اذیت اور کرب سے گزرنا پڑتا ہے۔ اللہ کے رسول ؐ کی ذات مبارک سے مسلمان کتنی عقیدت رکھتے ہیں، ان کے نزدیک مسلمانوں کے مذہبی جذبات کی ذرا برابر بھی اہمیت نہیں۔ یہ ہے مغرب کے منافق معاشرے کی نام نہاد آزادی ٔ اظہار اور شخصی احترام۔
میں: اب مسلمانوں کے حوالے سے جس نئے قانون کے نفاذ کے باتیں ہورہی ہیں، اس کے بارے میںکچھ بتائیے۔
وہ: اس حوالے سے مسلمان اور خاص طور پر پاکستان سے فرانس منتقل ہونے والے مسلمان زیادہ مسائل کا شکار ہوں گے۔ مساجد میں دیے جانے والے خطبوں پر تو پہلے ہی سے سخت چیک رکھا جارہا تھا، اب یہ معاملہ اور بھی سنگین ہوگیا ہے۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ اب اسلام کے خلاف ان کارروائیوں کو ایک سیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، جس کا جواز یہ دیا جارہا ہے کہ ہم فرانس کے لبرل تشخص کو بحال رکھنا چاہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح آج کے ہندوستان میں سیکولر ازم کے نام پر مسلمانوں کو مشقِ ستم بنا کر ہندو ازم کا پرچار پورے زور وشور سے جاری ہے۔ اس کی قریب کی مثال یہ ہے کہ فرانس میں گزشتہ انتخابات میں دکانوں پر رکھے حلال گوشت کو بھی بعض پارٹیوں نے سیاسی فائدے کے لیے ہدف تنقید بنایا۔ یعنی مسلمان تو وہ گوشت بھی نہیں کھاتے جو ہم فرانس والے بخوشی کھا لیتے ہیں۔ جبکہ فرانس میں بیش تر غیر مسلم بھی حلال گوشت کو اس کے صاف ستھرے ہونے کی وجہ سے ترجیح دیتے ہیں۔ یہ میرے اپنے مشاہدے میں بارہا آیا ہے۔ مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ فرانس میں ’’فرانسیسی اسلام‘‘ کی قانون سازی کی جاچکی ہے اور اس کے عملی نفاذ میں بہت زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
میں: آپ کا کیا خیال ہے یہ جو کچھ کیا جارہا ہے، کیا فرانس کی Moral Values کے تناظر میں درست ہے؟
وہ: Morality کا سوال نہ کریں جناب، اخلاقیات کا تو ساری دنیا میں جنازہ نکل چکا ہے۔ رہی بات فرانس کی تو فرانس اس معاملے میں بیش تر ممالک سے کئی ہاتھ آگے ہے۔ عورت کی عریاں تصویر کشی کرنے والا ان کا سب سے بڑا پینٹر ہوتا ہے، کوئی اداکارہ اس وقت تک اپنے فن کی ماہر نہیں ہوسکتی جب تک وہ بے لباسی کو اپنا لباس بنالے۔ اب آپ ہی فیصلہ کیجیے جس معاشرے کی اخلاقی قدروں کی بنیادیں عریانی اور فحاشی ہو وہاں حجاب جیسی پاکیزہ علامت اور اسلامی اقدار کیسے قابل قبول ہوسکتی ہے۔