میں برآمدے میں کرسی پر بیٹھا ہوا نارنگیوں سے بھرے ہوئے درختوں کو دیکھنے میں محو تھا۔ فروری کا مہینہ تھا۔ لیکن مدھیہ پردیش میں موسم یکایک تبدیل ہو رہا تھا۔ گرمی کی آمد آمد تھی۔ کمرے میں سخت حبس تھا۔ یہاں عموماً حبس بارش کی آمد کا پیش خیمہ ہوتا ہے اور واقعی تھوڑی دیر بعد ہی آسمان پر سیاہ گھٹا چھا گئی اور بادل گرجنے لگے۔ مگر میں اس منظر سے بے پروا خدا جانے کیوں اس روز خوش رنگ نارنگیوں کو دیکھنے میں محو تھا۔ یکایک میرا مقامی ملازم گوٹو گھبرایا ہوا آیا۔ اور آتے ہی کہنے لگا: ‘صاحب میرا لڑکا جنگل میں گیا تھا۔ ابھی تک واپس نہیں آیا۔ میرا دل گھبرا رہا ہے کہیں اسے۔۔۔‘ اس فقرہ نامکمل چھوڑ دیا اور سسکیاں بھرنے لگا۔ میں نے جب اس سے پوچھا کہ لڑکا جنگل میں کب گیا تھا۔ تو اس نے بتایا کہ، وہ معمول کے مطابق پانچ بجے مویشیوں کے ساتھ واپس آ گیا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ میرے ساتھ آ کر لکڑیاں چیرو مگر اس نے ایک نہ سنی اور یہ کہہ کر جنگل میں بھاگ گیا کہ میں جنگلی پھل جمع کرنے جا رہا ہوں اور ابھی لوٹ آوں گا۔ میں حیران تھا کہ آخر اس میں ڈرنے یا گھبرانے کی کیا بات ہے۔ لڑکا ہوشیار ہے۔ اور جنگل کے چپّے چپّے سے واقف۔ وہ وہاں اکیلا روزانہ گھنٹوں گھومتا رہتا ہے۔ میں نے گوٹو سے کہا، ‘جاؤ اطمینان سے کام کرو۔ لڑکے کو کوئی خطرہ نہیں۔ وہ ذرا دور نکل گیا ہوگا۔‘ ‘مگر صاحب آپ سن نہیں رہے کہ جنگل کے تمام جانور خوفزدہ آوازوں میں چلّا رہے ہیں۔ پہلے بندر چیخ رہے تھے۔ پھر ایک چیتل اور ابھی ابھی میں نے سانبھر کی آواز سنی۔ ضرور کوئی بات ہے۔’
بلاشبہ جنگل میں جانوروں کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میں اس وقت نارنگیوں کے نظارے میں اتنا محو تھا کہ میں نے یہ آوازیں پہلے نہیں سنیں۔ سورج غروب ہونے میں اگرچہ آدھ گھنٹہ باقی تھا۔ مگر آسمان پر گھٹا کے باعث چاروں طرف تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔ اور کوئی دم میں بارش ہونے والی تھی۔ میں نے گوٹو سے کہا کہ وہ دو چار آدمیوں کے ساتھ جنگل میں جائے اور اپنے لڑکے کو تلاش کرے۔ اس کے جاتے ہی بارش شروع ہو گئی جو دو گھنٹے تک جاری رہی۔ بارش کے دوران ہی گوٹو دوبارہ شرابو میرے پاس آیا۔ اس کا چہرہ فق تھا۔ اور ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ اس نے بتایا کہ لڑکا کہیں نہیں ملا۔ جنگل سے ایک میل دور لڑکے دادا دادی رہتے تھے۔ اس خیال سے کہ شاید لڑکا وہاں چلا گیا ہو، گوٹو وہاں بھی گیا۔ مگر انہوں نے بتایا کہ لڑکا یہاں نہیں پہنچا۔ اب تو مجھے تشویش ہوئی۔ مگر اس وقت جنگل میں جا کر لڑکے کو تلاش کرنا ناممکن سی بات تھی۔ بارش اور گُھپ اندھیرے کے ہاتھوں ہم مجبور تھے۔ میں نے گوٹو کو تسلّی دی کہ بارش سے بچنے کے لیے لڑکا کسی موزوں مقام پر ٹھہر گیا ہوگا۔ اور صبح تک وہ ضرور واپس آ جائے گا۔ لیکن جب دوسرے روز دوپہر تک اس لڑکے کا کوئی سراغ نہ ملا تو میں نے اپنی بندوق سنبھالی اور گاؤں کے سات آٹھ جوانوں کو ساتھ لے کر جنگل میں جانے کا پروگرام بنایا۔ جانے سے پہلے میں نے گوٹو کے گھر والوں کو ایک جگہ جمع کیا اور گمشدہ لڑکے کے متعلق سب سے باری باری سوالات کیے۔ ایک چھوٹے بچے نے بتایا کہ:
‘سکّھو کل کہہ رہا تھا۔ کہ اس نے جنگل میں ایک نیا درخت دیکھا ہے جس پر تازہ پھل لگے ہوئے ہیں۔ میں تمہیں اس درخت کا پتہ ہرگز نہیں بتاؤں گا۔ ورنہ تم دوسرے لوگوں کو بتادو گے اور وہاں جا کر سب پھل توڑ لیں گے۔ میں چپکے سے وہاں جایا کروں گا۔ اور پھل لے کر آیا کروں گا۔ پھر ہم دونوں مل کر کھائیں گے۔’
ہمیں اس سے زیادہ اور کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ لیکن ایک وسیع و عریض جنگل میں جہاں ہزار ہا درخت موجود ہوں، ایک خاص پھل دار درخت کو تلاش کرنا آسان کام نہ تھا اس کے علاوہ بچّے کی روایت پر پورا اعتماد بھی تو نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بہرحال خدا کا نام لے کر ہم سب آدمی جنگل کی طرف چل دیے اور اتفاق کی بات کہ تھوڑی دیر کی تگ و دو کے بعد ہمیں گمشدہ لڑکے کا سراغ مل گیا۔ اس کا کرتہ ایک درخت کے نیچے پڑا ہوا پایا گیا جس پر جمے ہوئے خون کے بڑے بڑے دھبّے تھے۔ اب یہ امید بہت ہی کم تھی کہ لڑکا ہمیں زندہ سلامت ملے گا۔ گوٹو کی حالت تو وہ خون آلود کرتہ دیکھتے ہی غیر ہو گئی تھی اور وہیں اپنا سینہ پیٹنے لگا۔ میں نے اسے دو آدمیوں کے ساتھ گاؤں واپس بھیج دیا۔ سچ پوچھیے تو خود میرے حواس بھی گم تھے۔ میں بڑے عرصے سے اس جنگل کے قریب رہتا تھا اور کبھی بھی ڈر محسوس نہ کیا تھا۔ لیکن آج مجھے کسی خونخوار درندے کے تصوّر سے خوف آ رہا تھا۔ اور جب میں نے اپنے ساتھ آنے والے دیہاتیوں کے سامنے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ یہ ضرور کسی شیر یا چیتے کی حرکت ہے تو ان سب کے چہرے اتر گئے اور وہ خوفزدہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
لڑکے کے خون آلود کُرتے کا معائنہ کرنے کے بعد میں نے اردگرد کی زمین کو بغور دیکھا تو وہاں بھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ لڑکے کو درندے نے دُور تک گھسیٹا تھا۔ کیونکہ کہیں کہیں اس کے پیروں کے گھسٹنے سے زمین پر لمبی لمبی لکیریں کھنچ گئی تھیں۔ تھوڑی تھوڑی دور پر خون کے کے چھوٹے بڑے خشک دھبّوں کے نشانات یہ ظاہر کر رہے تھے کہ درندہ اپنے شکار کو کس طرف لے گیا ہے۔ ایسی نازک صورتِ حال میں بہت سے لوگوں کا آگے بڑھنا مناسب نہیں ہوتا ورنہ درندہ چوکنّا ہو جاتا ہے۔ بندوق میرے پاس تھی اس لیے میں نے سب کو رخصت کیا اور خود ان نشانات کے پیچھے پیچھے خاموشی سے آگے بڑھنے لگا۔ گزشتہ روز کی شدید بارش کے باوجود خون کے یہ نشانات موجود تھے۔ اس سے پتہ چلتا تھا کہ لڑکا صبح تک زندہ سلامت تھا اور بارش رکنے کے بعد کسی وقت درندے نے اس پر حملہ کیا ہے۔
ابھی میں کئی ستّر اسّی گز ہی دور گیا تھا کہ یکایک ایک جھاڑی کے نزدیک مجھے آہٹ سی سنائی دی۔ میں فوراً ٹھہر گیا اور اس طرف غور سے دیکھنے لگا۔ میں نے اس کی ہلکی سی جھلک دیکھی اور فوراً سمجھ گیا کہ وہ شیر نہیں چیتا ہے۔ یہ چیتا مجھے دیکھتے ہی غائب ہو گیا۔ میں کچھ دیر تک اس کے دوبارہ آنے کا انتظار کرتا رہا لیکن کوئی آہٹ تک نہ ہوئی اور میں آہستہ آہستہ جھاڑی کی طرف بڑھنے لگا۔ بدنصیب لڑکے کی ادھ کھائی ہوئی لاش جھاڑی میں پڑی تھی۔ ظالم چیتے نے اس کی ایک پوری ٹانگ اور کمر کا کچھ حصہ کھا لیا تھا۔
جنگل کا یہ حصہ جہاں میں کھڑا تھا، اتنا زیادہ گھنا تو نہ تھا۔ مگر کچھ فاصلے پر جھاڑیاں کثرت سے تھیں جو ایک قاتل کے لیے محفوظ کمین گاہ ثابت ہو سکتی تھیں۔ لڑکے کی لاش دیکھ کر میری آنکھوں آنسو آ گئے اور میں نے سوچا کہ اچھا ہوا جو گوٹو کو میں نے گاؤں واپس بھیج دیا۔ وہ اگر اپنے جوان لڑکے کو اس حالت میں دیکھتا تو شاید اس کی حرکتِ قلب بند ہو جاتی۔ میں نے لڑکے کی لاش گھاس پھونس سے اچھی طرح ڈھانپ دی تاکہ گِدھ اور کوّے اسے ہڑپ نہ کر سکیں۔ ویسے بھی یہ امر یقینی تھا کہ چیتے کو جب بھوک لگے گی تو وہ پھر اسے کھانے کے لیے یہاں آئے گا۔ اب میں ان کوارٹروں کی طرف پلٹا جو جنگل میں کام کرنے والے سرکاری ملازموں کے لیے حکومت نے عارضی طور پر بنوائے تھے۔ گوٹو یہیں اپنے بال بچوں سمیت رہتا تھا۔ میں اس شش و پنج میں تھا کہ بدنصیب لڑکے کی موت کی خبر کس طرح گوٹو کو سناؤں گا اور اس جہاں گل خبر سن کر اس پر کیا گزرے گی۔
میں نے گوٹو کو تمام تفصیلات سے باخبر کرنے کے لیے اس کی طرف ایک آدمی بھیج دیا۔ اور خود اس چیتے سے دو دو ہاتھ کرنے کی تدبیریں سوچنے لگا۔ دوپہر کے ساڑھے بارہ بجے تھے۔ اور ابھی دن کا بڑا حصہ باقی تھا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ آج ہی یہ کام ہو جانا چاہیے۔ میں نے اپنے ساتھ چار آدمی لیے اور جنگل میں دوبارہ اس مقام پر پہنچا جہاں سکھو کی لاش پڑی تھی۔ بدقسمتی سے یہ جگہ ایسی تھی کہ یہاں کوئی اونچا درخت نہ تھا بلکہ تین سو مربع گز کے علاقے میں صرف خار دار جھاڑیاں تھیں۔ ظاہر ہے کہ ان جھاڑیوں پر مچان باندھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ بس یہی ایک طریقہ تھا کہ میں یہیں کہیں جھاڑیوں میں چھپ جاؤں اور جب چیتا بھوک سے مجبور ہو کر لاش کا بقیہ حصہ کھانے آئے، اسے گولی کا نشانہ بنا دوں۔ اس پروگرام کے مطابق لڑکے کی لاش سے کوئی چالیس گز کے فاصلے پر میں نے اپنے بیٹھنے کے لیے جگہ چن لی اور آدمیوں کی مدد سے ان جھاڑیوں کو کانٹ چھانٹ کر اتنی گنجائش نکال لی کہ میں اطمینان سے وہاں چھپ سکوں۔ ہم نے کٹی ہوئی جھاڑیوں کا خس و خاشاک اس طرح کھڑا کر دیا کہ باہر سے کوئی مجھے نہ دیکھ سکے۔ لیکن میں اپنی جگہ سے باہر کا تمام منظر دیکھ سکوں۔ اب مجھے عین سامنے موجود جھاڑیوں میں لڑکے کی اَدھ کھائی ہوئی لاش صاف دکھائی دے رہی تھی۔ جس پر گھاس پھونس ہٹا دیا گیا تھا۔
اس کاروائی کے بعد میں نے آدمیوں کو رخصت اور خود اپنی کمین گاہ میں انسان کے سب سب خطرناک دشمن کا انتظار کرنے لگا۔ دو باتیں یقینی تھیں۔ اوّل چیتے نے اگر ہمیں جھاڑیوں کو کاٹتے چھانٹتے دیکھ لیا ہے تو وہ قیامت تک ادھر کا رخ نہیں کرے گا۔ دوسرے اگر اس نے ہمیں نہیں دیکھا تو پھر وہ ضرور آئے گا۔ جو شکاری چیتے کی فطرت کا گہرا مشاہدہ کر چکے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آدم خور شیر کے برعکس آدم خور چیتا زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ وہ انسان سے ڈرنے کے باوجود اس پر حملہ کرتا ہے۔ لیکن رات کی تاریکی میں، دن کے وقت سامنے آنے کی شاذ و نادر ہی جرأت کرتا ہے۔ اور وہ بھی اس وقت جب بھوک اس کی برداشت سے باہر ہو جائے۔ رات کے وقت جب وہ باہر نکلتا ہے تو اس کی پھرتی اور چستی اور لپک جھپٹ کر ایک آفت لیے آتی ہے۔ وہ اپنے شکار کو بند دروازوں سے بھی نکال کر لے جاتا ہے۔
تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ جنگل میں کچھ فاصلے پر جہاں درختوں کی کٹائی گزشتہ کئی ہفتوں سے ہو رہی تھی، مزدور حسبِ معمول اپنے کام پر آ گئے ہیں اور درختوں پر آرے اور کلہاڑیاں چلنے کی آوازیں آ رہی ہیں۔ میں نے سوچا یہ آوازیں چیتے کے لیے اب تک مانوس ہو چکی ہوں گی۔ اور وہ ان پر توجہ نہیں دے گا۔ کوئی ایک گھنٹے تک میں وہیں بیٹھا ہوا لاش کو تکتا رہا اور کان لگائے پوری توجہ کے ساتھ چیتے کی آہٹ سننے کی کوشش کرتا رہا مگر وہ نہ آیا۔ یہی ایک صورت باقی تھی۔ کہ میں اب یہاں سے چلا جاؤں اور سورج غروب ہونے سے تھوڑی دیر پیشتر یہاں آ جاؤں اور چیتے کی راہ دیکھوں۔ یہ سوچ کر میں نے خس و خاشاک ایک طرف ہٹایا اور باہر نکلا۔ جھاڑیوں کو پھر پہلے کی طرح درست کیا اور اپنے بنگلے کی طرف چلا گیا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ گوٹو کے گھر میں حشر برپا ہے۔ لڑکے کی ماں یہ خبر سن کر بے ہوش ہو گئی خود گوٹو کا بہت برا حال ہے۔ میں نے وہاں جا کر ان لوگوں کو دلاسا دیا اور یقین دلایا کہ چیتے کو ایک دو روز تک ضرور ہلاک کر دیا جائے گا اور حکومت سے تمہاری امداد کے لیے ایک معقول رقم دلا دی جائے گی۔ اس پر انہیں کچھ صبر آیا۔
سورج غروب ہونے میں صرف پندرہ منٹ باقی تھے کہ میں کیل کانٹے سے پوری طرح لیس ہو کر دوبارہ وہاں پہنچا۔ لڑکے کی موت کے بعد سے جنگل میں کام کرنے والے لکڑہارے بے حد خوفزدہ تھے اور ایک جگہ خود اپنی کمین گاہ میں چھپ گیا۔ جنگل میں آہستہ آہستہ تاریکی غلبہ پانے کو تھی۔ سکھو کی لاش بالکل اسی حالت میں پڑی تھی جس حالت میں اسے چھوڑ گیا تھا۔ کتنی عجیب بات تھی۔ ایک سنسان جنگل میں دو دشمن ایک انسان ایک حیوان بیک وقت اپنی اپنی جگہ چھپے ہوئے سورج غروب ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ جونہی سورج غروب ہوا، چیتا بھوک سے بیتاب ہو کر فوراً باہر نکلے گا۔ اس وقت بہت سے پرندے شور مچا رہے تھے۔ قسم قسم کے پرندے جنگلی طوطے، مینائیں، کوّے، چیلیں، چمگادڑیں، گدھ، کافی فاصلے پر میں نے چیتل ہرن کی آواز سنی اور میں چوکنّا ہو گیا۔ ہرن کی آواز اس بات کی یقینی علامت تھی کہ چیتا یا کوئی اور درندہ باہر نکل آیا ہے۔ میں سانس روکے بندوق کے گھوڑے پر انگلی رکھے، سامنے کی جھاڑیوں کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ پرندوں کے بولنے کی پر شور آوازیں یک لخت تھم گئی ہیں۔ اب ہر طرف ہیبت ناک سناٹا طاری تھا۔
دفعتہّ بائیں طرف کوئی چالیس پچاس گز کے فاصلے پر جنگلی طوطے ٹیں ٹیں کرتے ہوئے اپنے گھونسلوں سے نکلے اور فضا میں چکر کاٹنے لگے۔ طوطوں کی یہ بے چینی بے معنی نہ تھی۔ چیتا ضرور آس پاس ہی پھر رہا تھا۔ شاید وہ گرد و پیش کا جائزہ لے رہا تھا کہ کوئی ‘دشمن’ تو اس کی تاک میں نہیں ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جنگل میں دوسرا کوئی جانور چیتے کی طرح حساس، خبردار اور چوکنّا نہیں ہوتا۔ وہ پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے۔ کیا مجال جو ذرا سی آہٹ بھی پیدا ہو جائے۔
میں اب خشک پتوں پر کسی کے چلنے کی آواز سن رہا تھا۔ چیتا قریب آ گیا تھا۔ میں اُدھر بغور دیکھنے کے باوجود اس کی جھلک نہ دیکھ پایا۔ بڑی مصیبت یہ ہے کہ اس علاقے کے شیروں اور چیتوں کی کھال کا رنگ ایسا ہوتا ہے کہ اگر وہ جھاڑیوں میں چھپ جائیں تو پتہ نہیں چل سکتا کہ یہاں کوئی درندہ چھپا بیٹھا ہے۔ خدا معلوم وہاں کتنا وقت گزرا، مگر مجھے تو یہی محسوس ہوا جیسے کئی دن بیت گئے ہیں۔ میرا جسم اب پتھر کی مانند سن ہو چکا تھا۔ کیونکہ بے حس و حرکت ایک جگہ بیٹھے رہنے سے خون کا دوران سست پڑ جاتا ہے۔ آخرکار میں نے اسے دیکھ ہی لیا۔ خدا کی پناہ، کتنا قد آور اور قوی جانور تھا۔ اس کی آنکھوں میں غیر معمولی چمک تھی۔ وہ سکھو کی لاش کے قریب کھڑا تھا۔ اور اس کی دُم آہستہ آہستہ ہل رہی تھی۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ وہ اب بھی دائیں بائیں خطرہ محسوس کر رہا ہے پھر اس نے گردن گھما کر پیچھے دیکھا اور لاش کی طرف ایک قدم آگے بڑھایا۔ اسے منہ میں پکڑا اور جھاڑی میں لے گیا۔ اب چیتے کا جسم میری نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔ لیکن لمبی دم صاف دکھائی دے رہی تھی۔ ایک لمحے بعد ہی ہڈیاں چبانے کی آواز چپڑ چپڑ آواز سنائی دی۔ دو منٹ بعد وہ پھر جھاڑی سے باہر نکلا اور چاروں طرف خوب غور سے دیکھا۔ اب اس کا سر میرے سامنے تھا۔ میں نے فوراً بندوق سیدھی کی اور نشانہ لے کر فائر کرنے ہی والا تھا، کہ ایک انگڑائی لے کر چیتا مڑا اور پھر جھاڑی میں گھس گیا۔ اب پھر ہڈیاں چبانے اور گوشت بھنبھوڑنے کی جانی پہچانی آواز آنے لگی۔
سورج اگرچہ غروب ہو چکا تھا۔ لیکن پھر بھی جنگل میں اتنی روشنی تھی کہ کافی فاصلے تک کا منظر بخوبی دیکھا جا سکتا تھا۔ شاید چیتے کے اضطراب کی وجہ بھی یہی تھی کہ جنگل میں اسے کچھ روشنی نظر آ رہی تھی۔ ورنہ گہرے اندھیرے میں تو وہ دلیری اور جرأت کا جامہ پہن لیتا ہے اور خطرے کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے۔
کوئی دو منٹ بعد وہ پھر بے چین ہو کر جھاڑی میں سے نکلا مگر اب اس کا رخ کچھ یوں تھا۔ کہ میں صحیح نشانہ نہیں لے سکتا تھا۔ لیکن یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ میں نے اس میں ایک عجیب تغیّر محسوس کیا۔ وہ پہلے سے بہت چھوٹا نظر آتا تھا اور جب اس نے منہ پھیر کر جھاڑیوں میں قدم بڑھایا تو یہ دیکھ کر مجھے اپنے حواس پر شک ہونے لگا کہ ایک کی بجائے اس کی دو دُمیں ہیں۔ ایک دائیں جانب ہلتی تھی تو دوسری بائیں جانب میں نے خیال کیا ممکن ہے یہ محض فریبِ نظر ہو۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے رومال نکالا، آنکھیں صاف کیں اور دوبارہ غور سے دیکھا مگر اب ایک ہی دُم تھی۔ میں بھوت پریت کا قائل نہیں اور نہ ہی میرا دماغ اتنا کمزور ہے کہ چیتے کی ایک دم کے بجائے مجھے دو دُمیں نظر آتیں۔ بہر حال میں نے یہ محسوس ضرور کیا کہ میرے جسم کے رونگٹے خوف سے کھڑے ہو گئے ہیں۔ اور بندوق پر گرفت ڈھیلی پڑ گئی ہے۔
جنگل میں ایک ہیبت ناک سنّاٹا چھایا ہوا تھا اور لمحہ بہ لمحہ اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا۔ دفعتہً قریب سے کوئی اُلّو بھیانک آواز میں چیخنے لگا۔ اور جھاڑیوں سے چیتا بپھر کر باہر نکل کر میری طرف آیا۔ مجھ سے کوئی دس گز کے فاصلے پر آ کر رکا اور غور سے دیکھنے لگا۔ میں سمجھا کہ اس نے ضرور مجھے دیکھ لیا ہے۔ پھر اس نے گردن گھما کر اس طرف دیکھا جہاں سکھو کی لاش پڑی تھی اور جس میں سے وہ تھوڑی دیر پہلے گوشت کھا رہا تھا۔ میں نے بندوق کی نالی پر فٹ کی ہوئی ٹارچ کا بٹن دبایا۔ روشنی کی تیز لکیر چیتے کے جسم پر پڑی اور اس سے پیشتر کہ وہ جَست لگا کر کسی طرف کو غائب ہو جائے، میں نے لبلبی پر انگلی رکھ دی۔ فائر کے زبردست دھماکے سے سارا جنگل کانپ اٹھا۔ میں صرف اس قدر دیکھ سکا کہ چیتے کے منہ سے غرّاہٹ کی زور دار آواز بلند ہوئی، وہ فضا میں کئی فٹ اُونچا اُچھلا اور اگلے ہی لمحے میں نے خشک پتّوں پر اس کے دوڑنے کی آواز سنی۔ پھر دور تک اس کے غرّانے کی مسلسل آوازیں آتی رہیں۔ میں نے قیاس کیا کہ چیتا بائیں جانب بھاگا ہے کیونکہ اس کے دوڑنے اور غرّانے کی آوازیں اسی سمت سے آ رہی تھیں دو منٹ بعد پھر وہی پراسرار خاموشی طاری ہو گئی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر گولی چیتے کے لگی ہے تو وہ زیادہ دور نہیں جا سکے گا۔ اور اگر گولی نہیں لگی اور وہ صحیح سلامت ہے۔ تو دوبارہ شاید ادھر کا رُخ نہ کرے۔ اب سوال یہ تھا کہ میں اب اپنی کمین گاہ سے باہر نکلوں تو کیونکر؟ ممکن ہے کہ چیتا میرا تعاقب کرے۔ رات کی تاریکی میں وہ اپنے شکار کو جنگل کے آخری سرے تک پیچھا کرتا ہے اور اگر میں رات بھر یہیں بیٹھا رہتا ہوں تو یہ تکلیف دہ بات ہوگی۔ نیند تو سولی پر بھی آ جاتی ہے۔ فرض کر لیجیے کہ میری آنکھ لگ گئی اور میں چند منٹ کیلئے بے خبر ہو گیا تو چیتے کے لیے چپکے سے آ جانا کوئی مشکل بات نہیں ہے اور وہ مجھے یہاں چھپے ہوئے دیکھ ہی چکا ہے۔
میں اسی فکر میں تھا کہ دائیں جانب سے کوئی پچیس تیس گز کے فاصلے پر کسی جانور کے ہانپ ہانپ کر دوڑنے کی آواز آئی۔ میں نے یہ آواز فوراً پہچان لی۔ وہی چیتا ہی تھا۔ مگر۔۔۔ وہ چیتا جس پر میں نے فائر کیا تھا، جنگل میں بائیں جانب بھاگا تھا۔ اور اب اس کی آواز دائیں جانب سے آ رہی تھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے گولی نہیں لگی۔ میری پیشانی پسینے سے تر ہو گئی اور دل دھڑکنے لگا۔ میں نے بے سوچے سمجھے رائفل اٹھائی اور ہوا میں دو فائر کر دیے۔
ایک مرتبہ پھر فائر کے دھماکے سے جنگل گونج اٹھا۔ پرندے گھبرا کر اپنے گھونسلوں سے باہر آ گئے اور فضا میں چکر کاٹنے لگے۔ میں نے ٹارچ کی روشنی چاروں طرف پھینکی۔ خیال تھا کہ چیتا اگر قریب ہوگا تو ڈر کر بھاگ جائے گا۔ لیکن وہاں چیتے کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ البتہ سکھو کی لاش کا بچا کچھا حصّہ اور کینوس کا سیفد جوتا اب بھی سامنے کی جھاڑیوں میں پڑا تھا۔ میں نے سوچا اب جانا چاہیے۔ یہاں بیٹھے رہنا موت کو دعوت دینے کے مترداف تھا۔ میں نے جلدی جلدی اپنے آگے سے جھاڑیاں اَور گھاس پھونس کا انبار ہٹایا اور باہر نکل آیا۔ گھڑی دیکھی تو آٹھ بج رہے تھے۔
ٹارچ کی روشنی میں مَیں نے اس مقام کا معائنہ کیا جہاں مجھ سے دس گز کے فاصلے پر چیتا آن کر رُکا تھا۔ وہاں اس کے پنجوں کے گہرے نشانات موجود تھے۔ اور صاف پتہ چلتا تھا کہ اضطراب کے عالم میں وہ اپنے پنجوں سے زمین کریدتا رہا تھا اور پھر بائیں جانب اس کے پنجوں کے نشانات دور تک چلے گئے تھے۔ بارش کے باعث زمین نرم اور ابھی تک گیلی تھی۔ اس لیے چیتے کے پنجوں کے یہ نشانات نہایت گہرے ثبت ہو گئے تھے۔ اور بغور دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اگلے دائیں پنجے کا نشان دوسرے نشانوں کی نسبت کسی قدر ہلکا ہے۔ اب میں لڑکے کی لاش دیکھنے کے لیے آگے بڑھا۔ چیتے نے اس کی دوسری ٹانگ بھی کھالی تھی اور کھوپڑی گردن سے نوچ کر تقریباً علیحدہ کر دی تھی۔ میں نے ٹارچ کی روشنی میں اردگرد کی زمین کا جائزہ لیا تو حیران کن انکشاف ہوا۔ یہاں میں نے چیتے کے پنجوں کے جو نشانات دیکھے۔ وہ ان نشانات سے بالکل مختلف تھے جو میں اس سے پہلے دیکھ چکا تھا۔ فوراً ہی مجھے احساس ہوا کہ چیتا ایک نہیں بلکہ دو ہیں اور میں نے جس پر فائر کیا وہ ذرا چھوٹے قد کا تھا۔ اپنے تجسّس کی تسکین کے لیے میں ایک بار پھر اس مقام تک گیا جہاں میں نے پہلے چیتے کے نشانات دییکھے تھے۔ ٹارچ کی تیز روشنی میں جب جھک کر میں نے ان نشانات کو دیکھا اور پھر ان کے ساتھ ساتھ ذرا آگے بڑھا تو ایک جگہ تازہ خون کا بڑا سا دھبّہ دکھائی دیا۔ اس کے بعد آگے بھی خون کے چھوٹے بڑے دھبّے دکھائی دیے۔ اس کا مطلب تھا کہ اسے گولی ضرور لگی ہے۔ یہ دریافت میرے لیے خوش کن تھی۔ میں نے فوراً اپنے بنگلے کا راستہ لیا اور سوچا کہ علی الصبح اس چیتے کو تلاش کرنا کچھ مشکل نہ ہوگا کیونکہ وہ زخمی ہو چکا ہے اور زیادہ دور نہیں جا سکا ہوگا۔
جب میں اپنے بنگلے پر پہنچا تو اس قدر تھکا ہوا تھا کہ فوراً ہی بستر پر پڑ کر سو گیا اور صبح دیر تک سوتا رہا۔ میری آنکھ اس وقت کھلی جب میرا ملازم مجھے خود جگانے آیا۔ اس وقت گیارہ بچ چکے تھے۔ میں باہر برآمدے میں آیا تو دیکھا کہ آسمان پر کالی گھٹا چھائی ہوئی ہے۔ میں نے ملازم سے پوچھا آج گوٹو نہیں آیا تو اس نے جواب دیا کہ گوٹو کو بخار ہے، میں نے اس کی طرف جانے کا فیصلہ کیا۔ یکایک کوارٹروں میں سے چار پانچ مزدور بنگلے کی طرف آتے دکھائی دیے۔ ان کے چہرے خوف سے زرد اور وہ بری طرح ہانپ رہے تھے۔ یہ لوگ تلگو زبان بول رہے تھے۔ میں ان کی گفتگو سمجھنے سے قاصر تھا۔ میرے ملازم نے ان سے پوچھا کہ وہ کیوں آئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک مزدور آج جب کام پر نہ آیا تو ٹھیکیدار کو قدرے تشویش ہوئی۔ ایک شخص اس مزدور کے گھر گیا۔ جب وہ جھونپڑے میں داخل ہوا۔ تو اس کو مرا ہوا پایا۔ جھونپڑے کی ایک دیوار درمیان سے ٹوٹی ہوئی تھی اور نرم نرم گیلی زمین پر چیتے کے پنجوں کے نشانات موجود تھے۔ چیتے نے سوئے ہوئے مزدور پر حملہ کیا اور اس کے سینے بازوؤں اور پیٹ پر پنجے مارے۔ بدنصیب مزدور کی انتڑیاں جھونپڑی میں بکھری ہوئی تھیں۔ چیتے نے اسے ہلاک کرنے کے بعد جنگل میں گھسیٹ کر لے جانے کی کوشش کی مگر مزدور کی لاش بہت وزنی تھی۔ چیتا بمشکل اسے دروازے تک گھسیٹ سکا اور کسی نامعلوم سبب کے باعث وہیں چھوڑ کر بھاگ گیا۔
میں فوراً سمجھ گیا کہ یہ شرارت ضرور بڑے چیتے کی ہے۔ اس نے غیر متوقع طور پر یہ حرکت کی تھی۔ میں فوراً تیار ہو کر جائے حادثہ پر پہنچا تو وہاں ٹھیکیدار اور مزدوروں کا جمِ غفیر موجود تھا۔ اور سب کے سب متوحش اور خوفزدہ نظر آتے تھے۔ میں نے چیتے کے پنجوں کے نشانات دیکھے، بلاشبہ وہی موذی چیتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ‘قتل’ کی یہ واردات بالکل صبح کے وقت ہوئی ہے۔ چیتا اتنا قوی تھا کہ اس نے بانس کے موٹے سرکنڈوں کی دیوار تک گرا دی تھی۔ اور پھر مجھے وہ چیتا یاد آیا جس پر میں نے رات کو گولی چلائی تھی۔ مزدوروں کو تو میں نے دلاسا دے کر کام پر بھیجا اور اپنے ساتھ تین آدمی لے کر جنگل میں اس مقام پر روانہ ہوا جہاں سکھو کی لاش پڑی تھی۔
ابھی ہم راستے ہی میں تھے کہ بارش شروع ہو گئی۔ یہ جنگل ست پورہ کے ضلع میں واقع ہے جہاں قریب ہی دریائے نربدا گزرتا ہے۔ ان دنوں دریا خوب چڑھاؤ پر تھا اور خبریں آ رہی تھیں کہ اس میں زبردست سیلاب آنے والا ہے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ وہ دونوں چیتے کسی نہ کسی طرح نربدا کے بڑے عقبی جنگل سے بھاگ کر ست پورہ کے اس چھوٹے جنگل میں آ گئے تھے۔ جب ہم جنگل میں ذرا دور تک گئے تو سب سے پہلے ہماری مڈبھیڑ ایک چیتل سے ہوئی جو ایک فرلانگ کے فاصلے پر درخت کے نیچے کھڑا گردن موڑ موڑ کر کسی چیز کو دیکھ رہا تھا۔ خاصا موٹا تازہ ہرن تھا۔ میں نے ساتھیوں کو دبک جانے کا اشارہ کیا اور کندھے سے بندوق اتار کر نہایت احتیاط سے نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔ گولی کھاتے ہی چیتل وہیں گرا اور تڑپنے لگا۔ ہم سب بے تحاشہ اس کی طرف بھاگے۔ لیکن جونہی ہم قریب پہنچے چیتل لوٹ پوٹ کر اپنی جگہ سے اٹھا اور لنگڑاتا ہوا ایک جانب کو بھاگا۔ گولی دراصل اس کی پچھلی بائیں ٹانگ میں لگی تھی اور اس سے پہلے کہ میں رُک کر اسے دوبارہ نشانہ بناؤں وہ جھاڑیوں میں غائب ہو چکا تھا۔
زخمی ہرن کو چھوڑ دینا ایک شکاری کے لیے باعثِ فخر نہیں ہو سکتا۔ پس میں بھی ادھر بھاگا جدھر ہرن گیا تھا اور اس وقت ایسا جوش و خروش مجھ پر طاری تھا کہ میں آدم خور چیتے اور سکھو کی اَدھ کھائی ہوئی لاش یکسر فراموش کر چکا تھا۔ ہرن کی ٹانگ سے رِستا ہوا خون اس کا سراغ لگانے کے لیے کافی تھا۔ کوئی ایک فرلانگ تک میں اسے تلاش کرتا ہوا نکل گیا۔ اس جگہ جنگل کچھ زیادہ ہی گھنا ہو گیا تھا۔ اور دن کی روشنی کے باوجود ہلکا ہلکا اندھیرا سا چھایا ہوا تھا۔ ایک مقام پر مجھے کچھ شبہ سا ہوا کہ کوئی جانور ایک درخت کے پیچھے چھپا ہوا تھا اور مجھے دیکھتے ہی اچھل کر وہ جھاڑی میں چھپ گیا۔ میں نے سمجھا وہی زخمی ہرن ہوگا۔ پس بے دھڑک آگے بڑھا۔ اور جھاڑیوں کے قریب جا کر بغور دیکھنے لگا۔ اب صورتِ حال یہ تھی کہ میرے چاروں طرف دور دور تک گھنی جھاڑیاں پھیلی ہوئی تھیں اور میں جھک جھک کر ہر جھاڑی میں دیکھ رہا تھا۔ خدا معلوم وہ ہرن تھا کہ چھلاوہ۔ ایسا غائب ہوا کہ پتہ ہی نہ چلا۔ میں مایوس ہو کر واپس آنے ہی لگا تھا کہ یکایک ایک جھاڑی میں سرسراہٹ سی پیدا ہوئی۔ میں نے چونک کر دیکھا تو ایک بڑا سیاہ ناگ تیزی سے باہر نکل رہا تھا۔ سانپ نے اگرچہ مجھے نہیں دیکھا تھا۔ مگر میں دہشت زدہ ہو کر چند قدم پیچھے ہٹ گیا۔ میری پشت ایک جھاڑی سے ٹکرائی اور یہی وہ لمحہ تھا جب ایک بھیانک غرّاہٹ کے ساتھ وہ موذی چیتا جو جانے کب سے جھاڑی میں آرام کر رہا تھا، میری طرف تیر کی طرح آیا۔ بندوق چلانے کا موقع ہی نہ تھا۔ وہی بندوق جو میرے ہاتھ میں تھی۔ میں نے گھما کر پوری قوت سے اس کے سر پر دے ماری۔ چیتا اپنے ہی زور میں کئی گز دُور جاگِرا لیکن پھر بھی اس کا ایک پنجہ میری گردن پر گہرا زخم لگا چکا تھا۔ غرّاتا ہوا وہ پھر اٹھا اور دوبارہ جست لگانے کا ارادہ کیا۔ اتنی دیر میں مَیں اپنی بندوق سیدھی کر چکا تھا۔ میں نے لبلبی دبا دی اور یکے بعد دیگرے دو فائر کیے اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ ایک گولی بھیجے کے پار ہو گئی تھی۔ اور دوسری دل میں لگی تھی۔
فائروں کی آواز سن کر وہ مزدور، جو میرے ساتھ آئے تھے، دوڑتے ہوئے ادھر آئے اور جب انہوں نے چیتے کو مرا ہوا پایا تو خوشی سے اچھلنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد میرے اوسان بحال ہوئے تو میں نے چیتے کا معائنہ کیا۔ یہ وہی چھوٹا چیتا تھا۔ جس پر گزشتہ رات میں نے گولی چلائی تھی اور زخمی ہونے کے بعد فرار ہو گیا تھا۔ اور غالباً اسی موذی نے نوجوان سکھو کو ہلاک کیا تھا۔ چیتے کے پنجے سے جو مجھے زخم لگا ابتداء میں تو اس زخم کا پتہ ہی نہ چلا۔ لیکن جب خون زخم سے رس کر قمیض کو تر کرنے لگا تو محسوس ہوا کہ معاملہ نازک ہے۔ خون روکنے کی کوشش کی گئی مگر نہ رُکا۔ تھوڑی دیر بعد میں کمزوری سی محسوس کرنے لگا اور پھر غالباً بے ہوش ہو گیا۔ آنکھ کھلی تو میں نے اپنے آپ کو اپنے بستر پر پایا۔ میرے اردگرد تین چار آدمی کھڑے تھے۔ جن میں گوٹو بھی شامل تھا۔ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر کو بلانے کے لیے آدمی ست پورہ گیا ہوا ہے، مجھے اس وقت تیز بخار تھا۔ دن بھر یہی کیفیّت رہی اور میں غنودگی کے عالم میں ہذیان بکتا رہا۔ چھٹپٹے کے وقت ڈاکٹر صاحب تشریف لائے اور انہوں نے زخم دیکھ کر نہایت تشویش کا اظہار کیا۔ کہنے لگے اگر جلدی علاج نہ کیا گیا تو اندیشہ ہے کہ زہر سارے جسم میں پھیل جائے گا۔ آپ کو ناگپور کے ہسپتال میں فوراً چلے جانا چاہیے۔ وہ رات میں نے نہایت ہی تکلیف میں گزاری۔ گردن کا زخم سوہانِ روح بن گیا تھا۔ ڈاکٹر نے اگرچہ زخم دھوکر پٹی باندھ دی تھی اور خون بہنا بند ہو گیا تھا، لیکن زخم میں کھجلی اس قدر شدت سے ہوئی تھی کہ جی چاہتا کہ گردن الگ کر دوں۔ انجکشن سے تھوڑی دیر فائدہ رہا لیکن پھر وہی کھجلی شروع ہو گئی۔ ساری رات تڑپتا رہا۔ صبح کے وقت کچھ غنودگی سی طاری ہوئی کہ میرا ملازم ایک وحشت ناک خبر لے کر آیا۔ خبر یہ تھی کہ رات چیتے نے پھر ایک مزدور کو ہلاک کر دیا اور اسے گھسیٹ کر وہیں لے گیا۔ جہاں سکھو کی لاش پڑی تھی۔ اور یہ کہ سارے مزدوروں نے کام کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اور اپنے اپنے جھونپڑیوں میں جا کر بیٹھ گئے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ٹھیکیدار رونی صورت بنائے میرے پاس آیا۔ وہ سخت پریشان تھا۔ کہ کیا کرے۔ اس کے ٹھیکے کی مدّت پوری ہو رہی تھی اور کام ابھی باقی تھا اسے ڈر تھا۔ کہ اگر کام نہ ہوا تو اس کا زرِ ضمانت ضبط ہو جائے گا۔ میری حالت دیکھ کر اسے کچھ کہنے کا حوصلہ نہ ہوا اور نہ میں جانتا تھا کہ وہ میرے پاس کس لیے آیا ہے۔ بہرحال میں نے اس سے وعدہ کیا کہ اگر ناگپور سے زندہ واپس آ گیا اور یہ چیتا بھی یہاں رہا تو اس سے دو دو ہاتھ ضرور کروں گا۔
ناگپور ہسپتال میں میں ایک مہینے تک رہا۔ زخم تو اچھا ہو گیا لیکن اینٹھن اتنی تھی کہ میں آسانی سے گردن تک نہ موڑ سکتا تھا۔ اس دوران میں اس چیتے کی ہلاکت خیزی اور ظلم و ستم کی خبریں مسلسل میرے پاس پہنچتی رہیں۔ وہ اس عرصے میں تیس انسانوں کو لقمہ بنا چکا تھا۔ اور اس کی جرأت یہاں تک بڑھ گئی تھی۔ کہ دن دھاڑے بستی میں گھس آتا اور کچّے مکانوں کے اندر سے عورتوں یا بچوں کو اٹھا کر لے جاتا تھا۔ پچاس مربع میل کے اس وسیع و عریض علاقے میں جہاں آس پاس بہت سے گاؤں تھے۔ اس ایک چیتے نے اتنی زبردست دہشت پھیلا رکھی تھی کہ لوگ جہاں جاتے ٹولیوں کی حفاظت میں جاتے اور سر شام ہی سے اپنے گھروں کے دروازے مضبوطی سے بند کر لیتے۔ بعد میں مَیں نے سنا کہ لوگوں کے واویلے پر حکومت نے ایک پیشہ ور شکاری اس چیتے کو مارنے پر مقرر کیا۔ مگر دوسرے ہی دن اس کی لاش ایک گڑھے میں پائی گئی۔ چیتے نے اس بدنصیب کے چیتھڑے تک اڑا دیے تھے۔
پہلے تو میں نے خیال کیا کہ شاید یہ سب لوگوں کی مبالغہ آرائی ہے۔ مگر جب ہسپتال سے رخصت ہو کر میں اسی علاقے میں پہنچا تو چیتے کی حکمرانی کا قائل ہونا پڑا۔ ہر طرف ایک سناٹا اور ویرانی تھی۔ بہت سے مزدور تو وہاں سے کام کاج چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ گاؤں کے لوگوں میں سے بھی بہت کم تھے جو اپنی خاص مجبوریوں کے باعث سکونت تبدیل کرنے پر قادر نہ تھے۔ ورنہ وہاں بھی یہی حال تھا۔ یہاں سے اٹھارہ میل دور ایک گاؤں موہن پورہ ہے۔ جہاں میرے آنے سے دو روز قبل چیتے نے ایک بوڑھی عورت کو ہلاک کیا تھا۔ وہ ایک ندی پر اپنی گائے کو پانی پلانے جا رہی تھی کہ راہ میں خونخوار چیتے سے سامنا ہو گیا۔ چیتے نے گائے کو تو کچھ نہ کہا۔ ایک ہی دوہتڑ میں بڑھیا کو ہلاک کیا اور لاش منہ میں دبا کر گھسیٹتا ہوا دور جنگل میں لے گیا۔ تھوڑا بہت گوشت کھایا اور بقیہ حصہ وہیں چھوڑ کر کسی جھاڑی میں گھس کر سو گیا۔ جب بڑھیا اور گائے دیر تک گھر نہ پہنچی تو اس کے رشتہ داروں کو تشویش ہوئی۔ وہ تلاش کرنے گئے تو گائے انہیں مل گئی اور قریب ہی تازہ خون کے دھبّے اور چیتے کے پنجوں کے نشانات پائے گئے۔ ان لوگوں کی آمد کی خبر چیتے کو بھی ہوئی۔ وہ نہایت دیدہ دلیری سے جھاڑیوں میں سے نکلا۔ ایک نگاہِ غلط انداز ان بدنصیبوں پر ڈالی جو پتھر کے بت بنے اسے دیکھ رہے تھے اور اطمینان سے ایک طرف کو چلا گیا۔
میں سیدھا موہن پورے پہنچا۔ وہاں کے لوگوں نے جب یہ سنا کہ میں چیتے کو مارنے آیا ہوں تو وہ اس طرح میرے ہاتھ پیر چومنے لگے جیسے میں کوئی آسمانی دیوتا تھا۔ اس روز بھی لوگوں نے چیتے کو بستی کے گرد و نواح میں گھومتے ہوئے دیکھا تھا۔ پس میں نے فیصلہ کیا کہ آج ہی اس درندے سے مڈھ بھیڑ ہو جائے تو اچھا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ چیتے کو اگر آج شکار نہ ملا تو وہ ضرور بستی کے اندر آئے گا۔ چنانچہ سر شام ہی بستی کا ہر شخص اپنے گھر میں گھس گیا۔ کھڑکیاں اور دروازے نہایت احتیاط سے بند کیے گئے۔ میرے پاس تھری ناٹ تھری کی رائفل تھی۔ کیونکہ معمولی بندوق سے کام چلتا دکھائی نہ دیتا تھا۔ سورج غروب ہوتے ہوتے پوری بستی پر ایک ہُو کا عالم طاری ہو گیا۔ قبرستان کی مانند ایک ہیبت ناک سناٹا جس میں کوئی آواز تک کسی طرف سے نہ آتی تھی۔ رائفل کی نال پر لمبی طاقتور ٹارچ میں نے پہلے ہی فِٹ کر لی تھی تاکہ ضرورت پڑنے پر کام آئے۔ اس کے بعد میں نے بستی کی تنگ گلیوں میں گشت شروع کر دی۔ بستی کیا تھی جنگل کے سرے پر ڈیڑھ سو کچّے مکانوں کا ایک محلہ سا تھا۔ کہیں کہیں بانس کی کھپریلیں اور جھونپڑے بھی بنے ہوئے تھے۔ جن میں بستی کے ‘کمین’ لوگ رہتے تھے۔ یہ جھونپڑی بستی کے سب سے آخر میں تھے اور جنگل کے بالکل ابتدائی سرے پر۔ گویا جنگل سے گزرنے والا کوئی بھی شخص بستی میں آنا چاہتا تو اسے پہلے ان جھونپڑوں کو عبور کرنا پڑتا تھا۔ میں نے جھونپڑوں میں جھانک کر دیکھا، سب کے سب خالی پڑے ہوئے تھے۔ غالباً ان کے مکین چیتے کے ڈر سے کہیں اور بھاگ گئے ہوں گے۔
دفعتہً میری نگاہ ایک جھونپڑے کی شمالی دیوار کے ساتھ زمین پر پڑی تو وہاں چیتے کے پنجوں کے نشان دکھائی دیے۔ بارش کے باعث یہاں ہر طرف گہری کیچڑ اور دلدل پھیلی ہوئی تھی۔ جس میں چیتے کے پنجوں کے یہ نشانات نہایت واضح اور گہرے تھے اور ان سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے اس جگہ سے گزرا ہے اور اب بھی آس پاس کہیں چھپا ہوا میری حرکات دیکھ رہا ہوگا۔
یہ خیال مجھے بدحواس کر دینے کے لیے کافی تھا۔ چیتے کی مکاری سے کچھ بعید نہ تھا کہ وہ اچانک مجھ حملہ کر دیتا۔ مجھے خوب اندازہ تھا کہ جو درندہ اب تک تیس بتّیس انسانوں کو ہلاک کر چکا ہے وہ کس قدر نڈر اور عیّار ہو چکا ہوگا۔ میں فوراً وہاں سے پلٹا اور گاؤں کے اندرونی حصے کی طرف آ گیا۔ مجھے یقین تھا کہ چیتا ضرور میرا تعاقب کرے گا۔ اور وہ صرف گہرا اندھیرا ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔ میں اب ایسی جگہ تلاش کرنا چاہتا تھا جو ہر طرف سے محفوظ ہو اور جہاں چیتا آسانی سے نہ آ سکے۔ اور میں اس کی نقل و حرکت سے خبردار رہ سکوں۔ بانس کے جھونپڑوں اور کھلی کھپریلوں پر تو اعتماد نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کیونکہ میں دیکھ چکا تھا کہ طاقتور چیتے نے کس طرح درمیان میں سے دیوار توڑ کر مزدور ہلاک کر دیا تھا۔ مجھے تو ایسی جگہ درکار تھی۔ جو جنگل کے قریب ہو اور چیتا ادھر سے لازمی طور پر گزرے۔ آخر ایک کچّا مکان ایسا مل ہی گیا جس کی سپاٹ چھت زمین سے کوئی بارہ فٹ اونچی تھی۔ اور یہاں سے ٹارچ کی روشنی میں جنگل سارا منظر نظر آ سکتا تھا۔
اب بستی پر اندھیرے نے اتنا غلبہ کر لیا تھا کہ آس پاس کی چیزیں صاف دکھائی نہ دیتی تھیں۔ میں نے ایک مرتبہ ٹارچ روشن کر کے گرد و پیش کا اچھی طرح جائزہ لے لیا کہ چیتا کسی طرف سے دبے پاؤں تو نہیں آ سکتا اور جب اطمینان ہو گیا تو میں نے وہیں چھت پر ڈیرے ڈال دیے۔ پہلے ہی میں کیل کانٹے سے لیس ہو کر آیا تھا۔ تھرماس بوتل میں گرم گرم قہوہ، سگار ڈبّہ نیند کو دور رکھنے والی گولیاں اور میری وفادار رائفل یہ سب چیزیں میرے پاس تھیں۔
جنگل میں ہر طرف سناٹا تھا۔ کسی چرند پرند کی آواز سننے میں نہ آتی تھی۔ البتہ بے شمار جگنو جنگل میں پتنگوں کی طرح اڑ رہے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے جنگل میں بہت سی پھلجھڑیاں چھوٹ رہی ہیں۔ میں نے گھڑی دیکھی، ساڑھے سات بجے تھے۔ لیکن ماحول ایسا تھا۔ جیسے آدھی رات کے بعد کا وقت ہو۔ بستی کے اندر سے البتہ کبھی کبھی آوارہ کتّے کے بھونکنے کی آواز یا چھوٹے بچوں کے چلّانے اور رونے کی آوازیں بھی آ جاتی تھیں۔ جن سے میرے دل کی کچھ ڈھارس سی بندھ جاتی۔
چیتے کو اپنی طرف بلانے کے لیے ضروری تھا کہ میں کوئی ایسی حرکت کروں جس سے اسے میری موجودگی کا علم ہو جائے۔ پس میں نے اُونچی آواز میں ایک گانا شروع کر دیا تھا تو یہ پاگل پن، مگر اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ نڈر ضرور اس آواز پر آئے گا۔ آدھے گھنٹے تک میں اسی طرح گاتا رہا۔ لیکن چیتے کا دُور دُور تک پتہ نہ تھا۔ البتہ میری آواز سن کر بستی کے پیچھے چھپے ہوئے آوارہ کتّے بے دھڑک باہر نکل آئے اور انہوں نے آپس میں بھونکنے کا مقابلہ شروع کر دیا۔
میں نے اتنی دیر میں قہوے کی ایک پیالی پی اور سگار سلگا کر تازہ دم ہو گیا۔ کتے بدستور بھونک رہے تھے۔ لیکن تھکے تھکے سے میں نے گھڑی دیکھی۔ ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنی دیر اور اس طرح انتظار کرنا پڑے گا۔ میں نے سوچا ایسا نہ ہو کہ میں یہاں بیٹھا رہوں اور چیتا کسی اور طرف نکل جائے۔ اس کی توجہ ادھر ہی مبذول نہ ہوکہ میں یہاں بیٹھا رہوں اور چیتا کسی اور طرف نکل جائے۔ اس کی توجہ ادھر ہی مبذول رہنی چاہیے۔ میں چھت سے اترا، رائفل سنبھالی اور ٹارچ روشن کر کے ایک مرتبہ پھر بستی کی سنسان گلیوں میں چوکیدار کی طرح گشت کرنے لگا۔ مجھے دیکھتے ہی بھونکنے والے کتّے ڈر کر ادھر ادھر بھاگ گئے۔ چند منٹ تک تو وہ بھونکتے رہے۔ اور پھر چپ ہو گئے۔ ٹہلتے ٹہلتے میں اب پھر جنگل کے قریب آ گیا اور اس جھونپڑے کے پاس پہنچ گیا۔ جہاں سر شام چیتے کے پنجوں کے نشانات دیکھے تھے۔ ٹارچ کی روشنی میں مجھے دور جنگل میں جنگلی گیدڑ دوڑتے ہوئے دکھائی دیے جو ایک لمحے میں نظر سے اوجھل ہو گئے اور پھر ہُو ہُو کر چیخنے لگے۔
اب میں پھر اپنے اڈّے پر آ گیا۔ یعنی اس کچّے مکان کی بارہ فٹ بلند چھت پر رات کافی گزر چکی تھی۔ اور آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں۔ جنگل کی جانب سے سرد ہوا کے جھونکے آتے تھے اور مجھے تھپکیاں دے کر نکل جاتے۔ میں نے سوچا کہ اگر نیند نے مجھے غافل کر دیا تو چیتا مجھے مار ڈالے گا۔ میں نے شیشی سے دو گولیاں نکال کر کھائیں۔ قہوے کے دو کپ پیے اور نیند سے نجات پانے کا پورا سامان کر لیا۔ وقت کچھوے کی چال چل رہا تھا۔ میں اکتا کر بار بار گھڑی دیکھتا اور اونگھنے لگتا۔ بہت سا وقت پھر گزر گیا۔
اتنا یاد ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے میں سو گیا تھا۔ کیونکہ چھت کے عین نیچے کسی کتّے کے بھونکنے کی پرشور آواز سے میری آنکھ کھلی تھی۔ اس کے بعد میں نے سنا کہ کتّا بھونکتا ہوا تیزی سے ایک طرف کو بھاگا۔ میں نے فوراً نیچے جھانکا تو وہاں کچھ نہ تھا۔ چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا اور آسمان ابر آلود ہوا لمحہ بہ لمحہ تیز ہو رہی تھی اور جنگل میں بانس کے درختوں کے درمیان سے گزرتی تو شائیں شائیں کی گونج پیدا ہوتی تھی۔ آسمان کی مغربی جانب بجلی کڑکنے لگی۔ بجلی چمکتی تو اس کی روشنی میں گرد و نواح کا سارا علاقہ یکدم چمک اٹھتا اور میں دور دور تک آسانی سے دیکھ سکتا تھا۔
اتنے میں پھر جنگل سے اُلّو کے بولنے اور گیدڑوں کے چیخنے کی آوازیں آنے لگیں۔ اس کے ساتھی ہی کتّوں نے دوبارہ بھونکنا شروع کر دیا۔ میں سمجھ گیا کہ چیتا اب شکار کی تلاش میں نکل آیا ہے اور غالباً قریب ہی ہے۔ دفعتہً کتّے چپ ہو گئے اور ایک بھیانک خاموشی ہر طرف چھا گئی۔ بجلی چمکی تو میں نے دیکھا کہ دو فرلانگ کے فاصلے پر کوئی سیاہ چیز جھاڑیوں میں سے نکلی اور ایک طرف کو غائب ہو گئی۔ میں نے فوراً اپنے پرانے دشمن کو پہچان لیا۔ میں نے گھڑی دیکھی۔ دو بج رہے تھے چیتے کو دیکھ کر نیند غائب ہو گئی تھی۔ اور میرے اعصاب پوری طرح بیدار اور چست ہو گئے تھے۔ چیتے کے صبر و استقلال کی داد نہ دینا ظلم ہوگا۔ اگرچہ اس نے سرِشام ہی دیکھ لیا تھا۔ لیکن پورے سات گھنٹے انتظار کرنے کے بعد وہ اپنی کمین گاہ سے باہر نکلا تھا۔ مجھے اب یہ اندیشہ تھا کہ اس اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر وہ جست لگا کر چھت پر چڑھ آیا تو میری خیر نہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ کافی طاقتور اور پھرتیلا ہے۔ اور ایسے چیتے کے لیے بارہ یا پندرہ فٹ تک جست لگا لینا کوئی مشکل کام نہ ہوگا۔
بجلی ایک مرتبہ پھر چمکی اور میں نے سامنے دیکھا تو چیتا مجھ سے صرف بیس پچیس گز کے فاصلے پر تھا۔ میں نے رائفل کی نال پر فِٹ کی ہوئی ٹارچ روشن کی تو چیتا وہاں سے غائب تھا۔ غالباً وہ کسی جھونپڑے کی آڑ میں ہو گیا تھا۔ اب میں نے پہلی مرتبہ اس کے غرّانے کی آواز سنی۔ اسے احساس ہو گیا تھا کہ جسے وہ ‘شکار’ سمجھ رہا ہے وہ شکار نہیں، شکاری ہے۔ بستی کے آوارہ کتّے جو خاموش تھے۔ یک لخت بھونکنے لگے اور چیتے کی غرّاہٹیں بھی بلند ہو گئیں پھر میں نے خشک پتوں پر اس کے دوڑنے کی آواز بھی سنی اور ایک بار پھر سناٹا چھا گیا۔
اب مشرق کی طرح سے صبحِ کاذَب کے ہلکے ہلکے آثار نمودار ہو رہے تھے۔ میں کافی دیر تک وہیں بیٹھا رہا کہ شاید چیتا دوبارہ آئے مگر وہ نہ آیا۔ آسمان پر گھٹا تلی کھڑی تھی اور تھوڑی ہی دیر میں بارش شروع ہو گئی۔ میں مجبوراً وہاں سے اترا اور گاؤں کے نمبردار کے مکان کی طرف بھاگا۔ اس کا مکان بھی دو ڈھائی فرلانگ دور تھا۔ جونہی میں چھت سے نیچے اُترا۔ مکان کی شمالی دیوار کے ساتھ دبکا ہوا ایک کتا بُری طرح بھونکا اور ایک طرف کو بھاگا۔ میں ٹارچ کی روشنی میں اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ سامنے جھاڑیوں میں سے چیتا غرّاتا ہوا نکلا اور چھلانگیں مارتا ہوا میری طرف آیا۔ اس وقت اس حیوان میں بجلیاں بھری ہوئی تھیں۔ میں نے بدحواسی میں نشانہ لیے بغیر فائر جھونک دیا۔ چیتے نے قلابازی کھائی اور واپس جھاڑیوں کی طرف بھاگا۔ اس کے حلق سے اب غرّانے اور چیخنے کی بھیانک آوازیں نکل رہی تھیں جن سے سارا جنگل لرز رہا تھا۔ ہوش و حواس میرے بھی جواب دے گئے تھے۔ میں چھت پر چڑھ گیا۔ موسلادھار بارش میں وہیں بیٹھا رہا۔ میں نے ٹارچ روشن کر لی۔ چیتا سامنے جھاڑیوں میں چھپا ہوا بار بار غرّا رہا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ زخمی ہو گیا ہے۔ بارش میں بھیگنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں سردی سے تھرتھر کانپنے لگا۔ بڑی مصیبت میں جان تھی۔ میں نے سوچا اگر اس طرح بارش میں بھیگتا رہا تو صبح تک میری لاش بھی اکڑ چکی ہوگی۔ پس رائفل اٹھائی اور سامنے جھاڑیوں میں فائروں کی بارش کر دی۔ دس بارہ فائر کیے۔ چیتا غرّایا لیکن پھر یکدم چپ ہو گیا۔ پندرہ منٹ انتظار کے بعد نیچے اترا۔ رائفل میرے ہاتھ میں تیار تھی۔ ٹارچ کی تیز روشنی میں مَیں نے جھاڑیوں کو خوب دیکھا، مگر وہاں تازہ خون کے بڑے بڑے دھبّوں کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ اور خون کے یہ دھبّے بھی آہستہ آہستہ بارش کے پانی سے صاف ہوتے جا رہے تھے۔
دوسرے روز میں دن چڑھے تک سوتا رہا اور جب بیدار ہوا تو میرے جسم کا بند بند تھکن سے درد کر رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا۔ کہ چیتا بڑا سخت جان نکلا۔ اگر وہ بچ گیا تو پہلے سے بھی زیادہ غضبناک ہو گیا ہوگا۔ اتنے میں بنگلے کے باہر ڈھول کے ساتھ ساتھ بہت سے آدمیوں کا شور و غل سنائی دیا۔ میں باہر نکلا تو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ دس بارہ آدمی آگے آگے اچھلتے کُودتے اور ڈھول بجاتے چلے جا رہے تھے۔ اور پیچھے ایک دو موٹے بانسوں پر پانچ آدمیوں نے چیتے کی لاش اٹھا رکھی تھی۔ معلوم ہوا کہ چیتے کی لاش صبح کے وقت جنگل میں ندی کے کنارے پڑی ہوئی پائی گئی۔ اس کے پیٹ میں دو گولیاں اور کندھے پر ایک گولی لگی تھی۔
اور اس طرح ست پورہ کا وہ آدم خور چیتا جسن نے بتّیس جانوں کو ہلاک کیا تھا، اپنے انجام کو پہنچ گیا۔