شکار کی اصطلاح میں ‘آدم خور’ اس شیر یا چیتے کو کہا جاتا ہے جو دوسرے جانوروں کو چھوڑ کر صرف آدمی کے گوشت پر گزارا کرتا ہے۔ یہ قیاس کرنا بھی صحیح نہیں کہ تمام شیر اور چیتے آدم خور ہوتے ہیں۔ فطری طور پر یہ درندے انسان سے خوف کھاتے ہیں اور اس وقت حملہ کرتے ہیں جب انہیں چھیڑا یا ستایا جائے، لیکن ایک مرتبہ آدمی کا خون مُنہ کو لگ جائے تو پھر زندگی کے آخری لمحے تک انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ بعض شیر بوڑھے ہوجانے پر آدم خور بن جاتے ہیں۔ کیونکہ چار پایہ جانوروں کو شکار کرنے کے لیے جس چُستی اور پُھرتی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ان میں باقی نہیں رہتی، اس کے علاوہ دو پایہ جانور (انسان) کا شکار کرنے میں زیادہ جدوجہد نہیں کرنی پڑتی۔ پہلے پہل ایسے درندے بستیوں کے قریب رہنے لگتے ہیں۔ اور آوارہ گایوں، بھینسوں، بکریوں اور کتوں کو اپنا کھاجا بناتے ہیں۔ اس کے بعد انسانوں کی باری آتی ہے۔
لیکن شیروں اور چیتوں کے علاوہ دنیا میں اور بھی ایسے حیوان ہیں جن کے پر ‘آدم خوری’ کا اطلاق کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر مگرمچھ کو لیجیے۔ اگرچہ آدم خور مگرمچھ کی دہشت اتنی زیادہ نہیں ہوتی، جتنی آدم خور کی ہوتی ہے تاہم وہ بیحد خطرناک ہوتا ہے اور کئی کئی سو افراد کو اپنا لقمۂ تر بنا لیتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ شیر مگرمچھ کی نسبت زیادہ وسیع علاقے پر حکومت کرتا ہے اور جہاں جی چاہے جا سکتا ہے، لیکن مگرمچھ اسی دریا یا ندی میں رہنے پر مجبور ہے، جہاں اس نے پہلے پہل انسانی شکار کیا ہو۔
اب میں ایک آدم خور مگرمچھ کی داستان آٌپ کو سناتا ہوں جس نے عرصہ دراز تک اپنی ہلاکت خیز سرگرمیوں سے دہشت پھیلا رکھی تھی۔ یہ مگرمچھ دریائے موسی کے ایک زیریں حصّے میں رہتا تھا۔ میں نے اس کے متعلق جب معلومات کیں تو پتہ چلا کہ وہ محض اتفاقیہ طور پر آدم خور بن گیا، ورنہ اس سے پہلے وہ بڑا امن پسند اور الگ تھلگ رہنے والا جانور تھا۔ قصّہ یہ ہوا کہ اس دریا میں کہیں سے ایک مادہ مگرمچھ بھی آ گئی۔ جس کے پیچھے پیچھے ایک اور نر مگرمچھ چلا آیا اور دریا میں اسی مقام پر اس نے رہائش اختیار کرلی جہاں پہلے سے یہ مگرمچھ رہتا تھا۔ ایک روز دونوں ‘رقیبوں’ کا آمنا سامنا ہو گیا۔ نہایت خونریز جنگ ہوئی۔ جس میں باہر آنے مگرمچھ ہلاک ہو گیا۔ میرے ملازم خاص ہاشم نے بتایا کہ دریائے موسی میں پہلے کئی مگرمچھ رہتے تھے، لیکن ہمارے اس خونخوار آدم خور مگرمچھ نے سب کو مار مار کر وہاں سے بھگا دیا۔ وہ دراصل دریا پر بلا شرکتِ غیر سے قابض رہنا چاہتا تھا اور ویسے بھی یہ مگرمچھ کی فطرت کی ہے کہ اپنی جنس کے جانور کو اپنے علاقے میں آتے نہیں دیکھ سکتا، خود کہیں اور چلا جاتا ہے یا اسے مار ڈالتا ہے۔ نر مگرمچھ تو ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوتے ہیں البتہ مادہ مگرمچھ اتنی تند خو اور جھگڑالو نہیں ہوتی، چنانچہ کئی کئی مادہ مگرمچھ ایک ہی جگہ آسانی سے رہتی ہیں۔ اور جھگڑا اس وقت ہوتا ہے جب ان کے درمیان کوئی نر مگرمچھ آ جائے۔
جس مگرمچھ کا میں ذکر کر رہا ہوں، کوئی معمولی مگرمچھ نہ تھا۔۔۔۔۔ نہایت ہی قوی بے رحم اور شریر جانور تھا۔ اس کی پوری لمبائی سولہ فٹ سے بھی نکلتی ہوئی تھی۔ دریا کی پُرسکون اور خاموش لہروں کے ساتھ ساتھ اس طرح تیرتا کہ ہلکی سی آواز بھی پیدا نہ ہوتی تھی اور بے خبری میں اپنے شکار کو جبڑوں میں دبوچ کر تہہ میں اتر جاتا تھا۔ اس کے جسم پر زخموں کے نشانات مجھے دکھائی نہیں دیے۔ اس کی خونخواری اور مزاج کی سختی سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ وہ کئی معرکے سر کر چکا ہے اور آسانی سے قابو میں آنے والا نہیں ہے۔
میں نے سب پہلے اس موذی کا ذکر ایک تانی (کسان) کی زبانی سنا جو اپنے مویشیوں کو ندی پر پانی پلا کر واپس آ رہا تھا ۔ دریائے موسی کی ایک معاون ندی ہے جس کا نام اس وقت بھول رہا ہوں، وہاں اردگرد کے دیہاتی کسان اپنی گایوں بھینسوں کو پانی پلانے لے جایا کرتے تھے۔ اس ندی میں کبھی کوئی مگرمچھ نہیں دیکھا گیا تھا، وجہ یہ تھی کہ یہاں مچھلیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ شروع شروع میں کسان یہ کیا کرتے تھے کہ مویشیوں کو ندی پر لے جانے سے پہلے پانی کو خوب غور سے دیکھ لیتے تھے کہ کہیں کوئی مگرمچھ چھپا ہوا تو نہیں ہے۔ مگر تھوڑے ہی عرصے میں ان کا خدشہ دور ہو گیا اور بے دھڑک مویشیوں کو وہاں لے جانے لگے۔ ایک روز کیا ہوا کہ ایک کسان اپنی خوبصورت اور موٹی تازی گائے کو پانی پلانے لایا۔ گائے بہت پیاسی تھی۔ دور ہی سے ندی کو دیکھ کر دوڑتی ہوتی آئی۔۔۔ اور پانی میں منہ ڈال دیا۔ کسان بھی پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ پانی میں ہلچل سی پیدا ہو گئی۔ لہریں اور بلبلے سے اٹھے اور پھر اس نے ایک بہت بڑا مگرمچھ دیکھا جو اپنا غار سا منہ کھولے گائے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ کسان نے مگرمچھ کو دیکھتے ہی دہشت زدہ ہو کر چیخ ماری اور گائے کو پیچھے ہٹانے کے لیے دوڑا مگر بے سود۔ مگرمچھ نے چشم زدن میں گائے کی گردن دبوچ لی اور اسے پانی میں گھسیٹنے لگا۔ گائے بھی ہٹی کٹی تھی۔ وہ پیچھے ہٹنے کے لیے پورا زور لگا رہی تھی۔ کسان نے گائے کی دم پکڑ لی اور مدد کے لیے چلّانے لگا مگر وہاں کون اس کی مدد کو آتا۔ گائے اسی اثنا میں لہولہان ہو چکی تھی اور جونہی اس کی قوت کم ہوئی، مگرمچھ ایک ہی جھٹکے میں اسے اپنے ساتھ پانی میں لے گیا اور بدنصیب کسان روتا پیٹتا اپنے گھر چلا آیا۔
دوسرے روز جب کئی لوگ وہاں پہنچے تو انہوں نے ندی کے پاس ایک درخت کی جڑوں کے پاس اسی گائے کی ہڈیاں اور بچا کھچا گوشت دیکھا اس حادثے کے بعد کسانوں نے اپنے مویشیوں کو ندی پر لے جانا بند کر دیا اور بہ امرِ مجبوری جاتے بھی تھے تو پہلے شور غل مچا کر اور پانی میں لاٹھیاں مار مار کر مگرمچھ کو وہاں سے بھگا دیا کرتے تھے۔ شروع شروع میں مگرمچھ خوفزدہ ہوکر ندی میں کسی اور طرف نکل جاتا تھا لیکن بعد میں جب وہ بھوکا مرنے لگا تو اس نے اپنی فطری مکّاری سے کام لینا چاہا۔ اب وہ روز روز کے شور و غل اور ہنگاموں کا عادی ہو گیا تھا۔ آخر ایک روز اس نے پھر وار کیا۔ چرواہے حسبِ معمول اپنے مویشیوں کو پانی پلانے ندی پر لائے۔ پہلے تو انہوں نے ندی میں لاٹھیاں ڈال ڈال کر اور خوب غل مچا کر اپنی جانب سے مگرمچھ کو بھگا دیا۔ لیکن مگرمچھ ندی کی تہہ میں دم سادھے پڑا رہا۔ گائیں بھینسیں پانی پینے لگیں۔ مگرمچھ نہایت آہستہ آہستہ پانی کی تہہ سے ابھرا اور سطح پر آ گیا۔ اس نے اپنا جسم پانی کے اندر ہی رکھا، صرف آنکھیں باہر نکال لیں۔ ذرا فاصلے پر ایک گائے علیحدہ کھڑی پانی پی رہی تھی۔ چالاک مگرمچھ نیچے ہی نیچے تیرتا ہوا اس کی طرف گیا اور پھر بجلی کی سُرعت سے گائے کی گردن اپنے بھاری اور مضبوط جبڑے میں دبوچ کر اسے پانی میں لے گیا۔ دوسری گایوں نے اسے دیکھا تو دہشت زدہ ہو کر وہاں سے بھاگیں اسی اثئا میں چرواہے بھی ہوشیار ہو گئے لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔ مگرمچھ ان کی پہنچ سے باہر تھا۔
سماٹرا کے ان کسانوں کو توہم پرستی نے گھیر رکھا تھا۔ یہ لوگ بھوت پریت اور بدروحوں پر اتنا یقین رکھتے ہیں کہ بیان سے باہر ہے۔ چنانچہ مگرمچھ نے جب دو تین وارداتیں کیں تو اس کے بارے میں خود ہی یہ فرض کر لیا گیا کہ کوئی شیطانی بلا ہے۔ یہ فرض کرکے ان لوگوں نے اپنے مویشی وہاں لے جانے بند کر دیے۔ انڈونیشیا کے لوگ فطری طور پر مگرمچھوں سے خائف رہتے ہیں البتہ بعض شکاری ایسے بھی ہیں جو مگرمچھوں کو زندہ پکڑنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ ان کو مقامی زبان میں ‘باجڑ’ کہا جاتا ہے۔ لوگ مگرمچھ کو ‘بوجا’ کہتے ہیں۔ اس موقعے پر میں ایک عجیب و غریب اور نہایت پراسرار رسم کا ذکر کرتا ہوں جو میں نے انڈونیشیا کے سوا دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں دیکھی۔ یہ رسم اس وقت ادا کی جاتی ہے جب مگرمچھ آدم خور ہو جاتا ہے کئی جانوں کو اپنا نوالہ بنا چکا ہوتا ہے۔
ایک خاص دن مرد، عورتیں اور بچے سینکڑوں کی تعداد میں اس دریا پر جاتے ہیں جہاں آدم خور رہتا ہے۔ ایک ‘حاجز’ کے پاس بانس کی تیلیوں اور کھپچیوں کی بنی ہوئی ٹوکری ہوتی ہے جس میں مرغیوں کے انڈے، چند خوشبودار پودے، سلگتا ہوا لوبان اور ایک سفید مرغا رکھ کر اسے دریا میں پھینک دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ لوگ اپنی خاص زبان میں کوئی دعا پڑھتے ہیں۔ دعا میں خدا سے التجا کی جاتی ہے کہ اس شیطانی بلا کو دور کردے جو انسانوں کو اپنا لقمہ بنا رہی ہے۔ دعا مانگنے کے چند روز بعد ایک مرتبہ پھر دریا کے کنارے سینکڑوں افراد کا مجمع لگتا ہے اور سب لوگ زور زور سے دعائیں مانگنے لگتے ہیں۔ یہ منظر نہایت ہی عجیب اور تاثر سے پُر ہوتا ہے اور پھر وہ آدم خور مگرمچھ آہستہ آہستہ دریا کی تہہ سے نکل کر کنارے کی طرف اس طرح آتا ہے جیسے کوئی نادیدہ قوت اسے پکڑ کر گھسیٹ لا رہی ہے۔ اس کے بعد جوش و خروش سے بھرا ہوا ہجوم مگرمچھ پر ٹوٹ پڑتا ہے اور اسے وہیں ہلاک کر دیتا ہے۔
اس قسم کے واقعات بہت سے لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ تاہم یہ بتایا نہیں جا سکتا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور وہ کونسا ‘جادو’ ہے جو ایک خونخوار اور مردم خور مگرمچھ کو اتنے آدمیوں کے سامنے بے بس کر دیتا ہے۔
اب میں اپنے قصے کی طرف لوٹتا ہوں۔ دریائے موسی میں رہنے والے مگرمچھ نے جن گایوں کو ہلاک کیا تھا، وہ خاصی قیمتی اور خوبصورت گائیں تھیں اور ان کے مالک بیچارے تھے بھی بڑے غریب۔ ان پر تو گویا آسمان ٹوٹ پڑا۔ اس زمانے میں ایک پورپین شکاری اس علاقے میں آیا ہوا تھا۔ کسانوں نے اس سے مگرمچھ کو مار دینے کی درخواست کی۔ شکاری صاحب نے مگرمچھ کے شکار کا وہی پرانا حربہ استعمال کرنا چاہا۔ اس نے مگرمچھ کے رہنے کی جگہ تلاش کی، پھر اس کے قریب ہی پھندا لگا کر ایک مردہ بندر کو باندھ دیا۔ ان کا خیال تھا کہ مگرمچھ جب بندر کو ہڑپ کرنے آئے گا تو پھندے میں پھنس جائے گا۔ اور پھر وہ اسے آسانی کے ساتھ گولی کا نشانہ بنا سکیں گے۔ مگرمچھ اتنا عیّار نکلا کہ اس نے اِدھر کا رخ بھی نہ کیا۔ بلکہ دور ہی دور پھرتا رہا۔ بعض اوقات وہ دریا کے کنارے پانی پیتے ہوئے بندروں کو بھی جھپٹ کر دبوچ لیتا۔ آخر کار شکاری صاحب نے کئی روز کے انتظار کے بعد ایک زندہ بندر کو پھندے کے قریب باندھ دیا۔ اور دریا کے کنارے ذرا فاصلے پر جھاڑیوں کے اندر ایک آدمی کو نگرانی کے لیے بٹھا دیا کہ جونہی مگرمچھ پھندے میں پھنس جائے وہ فوراً شکاری صاحب کو اس کی خبر دے۔ دوپہر کے وقت اس شخص نے دیکھا کہ دریا میں ایک بہت بڑا مگرمچھ تیرتا ہوا آہستہ آہستہ کنارے کی طرف آ رہا ہے۔ اس کی نظریں اس بندر کی طرف گڑی ہوئی ہیں جو پھندے کے قریب بندھا ہوا دہشت سے چیخ رہا ہے۔ مگرمچھ پانی میں رینگتا ہوا بندر کی طرف بڑھا۔ اس کا جبڑا یوں کھلا ہوا تھا جیسے بندر کو نگل لینے کے لیے بے تاب ہے، مگر فوراً ہی وہ رُکا اور تیزی سے پانی میں گھس گیا۔ شاید اس نے محسوس کر لیا تھا کہ اگر وہ ذرا دور اور آگے بڑھا تو جال میں پھنس جائے گا۔
لیکن رات کی تاریکی میں مگرمچھ بھوک سے بیتاب ہو کر پھر ادھر آیا اور بندر کو جبڑے میں دبا کر لے گیا، مگرمچھ اتنا قوی تھا کہ اس نے پھندے کو بھی توڑ دیا۔ بندر کی چیخیں سن کر نگرانی کرنے والے شخص دوڑا دوڑا گیا اور شکاری کو اطلاع دی۔ شکاری صاحب فوراً اپنی رائفل اور لالٹین کے ساتھ موقعۂ واردات پر آ دھمکے اور معائنہ کرنے سے احساس ہوا کہ مگرمچھ کو مارنا اتنا آسان کام نہیں۔ اب ان کے سامنے اس کے سِوا اور کوئی تدبیر نہ تھی کہ کشتی میں سوار ہو کر دریا کو چھان ماریں اور مگرمچھ جہاں بھی ملے اسے اپنی رائفل کا نشانہ بنا دیں۔ لیکن مگرمچھ تو شکاری صاحب سے بھی زیادہ باخبر اور چالاک ثابت ہوا۔ دو روز تک وہ اس کی تلاش میں دریا میں کئی کئی میل تک نکل گئے لیکن اس کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ شکاری بہت پریشان ہوا اور اب اسے یقین ہو چلا تھا کہ وہ مگرمچھ ضرور کوئی بدروح ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دریائے موسی میں اسے کئی اور مگرمچھ دکھائی دیے۔ مگر وہ سب کے سب چھوٹے تھے۔ اس لیے شکاری صاحب نے انہیں ہلاک کرنا مناسب نہ سمجھا۔ آخر وہ بیچارے مایوس ہو کر اور اس مگرمچھ کو ہلاک کرنے کی حسرت دل میں لیے کسی اور جانب چلے گئے۔
کہنے کو تو شکاری میں بھی ہوں، مگر نامعلوم مجھے کیوں ابتدا ہی سے ان مگرمچھوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں سوچتا تھا بھلا پانی کے اس جانور کا شکار کھیلنا کہاں کی بہادری ہے۔ میں تو شیروں، چیتوں، دریائی گھوڑوں، گینڈوں اور جنگلی بھینسوں کا عاشق ہوں اور انہی سے دو دو ہاتھ کرنے میں مزا آتا ہے۔ اس بناء پر میں نے اس مگرمچھ میں عادتاً کوئی دلچسپی نہیں لی۔
ایک روز شام کے وقت کمرے میں بیٹھا اپنی رائفل صاف کررہا تھا کہ ہاشم نے عجیب خبر سنائی۔ قصّہ یہ تھا کہ دریائے موسی سے کئی میل دور ایک گاؤں کی عورت کو مگرمچھ نے ہڑپ کرلیا۔ بدنصیب عورت سرِشام جنگل میں سے گزر کر نہ جانے کدھر جا رہی تھی، دریا قریب ہی تھا۔ اس نے سوچا ذرا منہ ہاتھ دھو لوں، لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ دریائے موسی کے کنارے مگرمچھ کی شکل میں موت اس کا انتظار کر رہی ہے۔ جونہی اس نے پیر پانی میں ڈالے، ظالم مگرمچھ جو پہلے ہی سے شکار کی تلاش میں بیٹھا تھا، فوراً بجلی کی مانند جھپٹا اور اسے پانی میں گھسیٹ لیا۔ رات گئے جب وہ عورت کے گھر نہ پہنچی تو گاؤں والوں کو تشویش ہوئی۔ اس کا خاوند دو تین آدمیوں کو ساتھ لے کر دریا کے کنارے کنارے جنگل میں کافی دور تک اسے تلاش کرتا پھرا۔ ایک جگہ انہیں تنکوں کی ٹوکری ملی جس میں بہت سی جڑی بوٹیاں اور پھول بھرے ہوئے تھے۔ خاوند نے اپنی بیوی کی ٹوکری فوراً پہچان لی، کیونکہ وہ جڑی بوٹیاں چننے ہی جنگل میں گئی تھی۔ آخر یہ لوگ رو پیٹ کر گھر واپس چلے گئے۔ تین روز بعد اسی شخص کو دریائے موسی کے کنارے اس عورت کے بھیگے ہوئے کپڑوں کی دھجیاں پڑی ملیں۔ مگرمچھ کا یہ پہلا انسانی شکار تھا۔
جس گاؤں کی وہ عورت تھی، وہاں اس مگرمچھ کے خلاف غم و غصہ کی زبردست لہر دوڑ گئی۔ یہ لوگ پیشہ کے لحاظ سے ماہی گیر تھے۔ پس انہوں نے دریا پر دھاوا بول دیا۔ بہت سے ماہی گیر نیزے اور کلہاڑیاں سنبھالے اپنی کشتیوں میں بیٹھے اور مگرمچھ کی تلاش میں پھرنے لگے۔ دریا کے کنارے پر دور دور تک انہوں نے جال لگائے۔ پانی میں بڑے بڑے کانٹے گوشت کے ٹکڑے لگا لگا کر پھینکے۔ مگر یہ ساری کوششیں بیکار گئیں۔ مگرمچھ ان کے قابو میں نہ آیا۔ اس نے کئی جال توڑ دیے اور کانٹے گھسیٹ گھسیٹ کر لے گیا۔ اس کی حرکتوں سے ظاہر ہو گیا تھا کہ بہت قوی اور نڈر ہو چکا ہے۔
دو ہفتے بعد اسی دریا پر مگرمچھ نے ایک بھینس کو ہلاک کر دیا۔ پھر گاؤں کے نمبردار کے پالتو کتے کو ہضم کر گیا۔ ماہی گیروں کے بجے دریا میں اکثر اپنی چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر مچھلیاں پکڑا کرتے تھے۔ اگرچہ ان بچوں کو دریا پر جانے سے روک دیا گیا تھا لیکن پھر بھی بعض شریر بچے چھپ چھپا کر چلے جاتے تھے۔ ایک روز دو بچے گھر واپس نہ آئے تو گاؤں میں ایک بار پھر سراسمیگی پھیل گئی۔ لوگ ان کی تلاش میں نکلے، گاؤں سے کئی دور دریا میں ان لڑکوں کی کشتی تیرتی پائی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عورتوں، بچوں اور اکیلے دکیلے آدمی نے دریا کے قریب سے گزرنا ہی چھوڑ دیا۔ لوگ پانی لینے یا مویشیوں کو پلانے جاتے تو گروہوں کی شکل میں مسلح ہوکر جاتے بعض لوگوں خیال تھا کہ جانوروں اور انسانوں کو ہلاک کرنے کا کام ایک مگرمچھ کا نہیں بلکہ کئی مگرمچھوں کا ہے۔ تاہم وہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں دے سکتے تھے۔ عموماً رائے یہی تھی کہ ان ہلاکت خیز سرگرمیوں میں ایک ہی مگرمچھ مصروف ہے جسے وہ قاتل مگرمچھ کہتے تھے۔
مشرقی اور مغربی مون سون ہواؤں کے زمانے میں ہم نے اس مگرمچھ کے بارے میں کوئی خبر نہیں سنی کہ وہ کہاں ہے اور اس نے کس کس کو ہلاک کیا ہے۔ ہاشم مجھ پر بار بار زور دیتا تھا کہ اس مگرمچھ کو تلاش کرنا چاہیے۔ اس کا خیال تھا کہ مگرمچھ نے شاید ‘شادی’ رچالی ہے اور وہ مادہ مگرمچھ کے ساتھ کسی اور طرف نکل گیا ہے۔ ایک ڈیڑھ ماہ بعد جب لوگ مگرمچھ کو تقریباً فراموش کر چکے تھے۔ یکایک ایک ماہی گیر نے یہ لرزہ خیز بات سنائی کہ اس نے ایک بہت بڑے مگرمچھ کو دریا کے کنارے ریت پر آرام کرتے دیکھا ہے۔ ماہی گیر اپنی کشتی میں بیٹھا دریا میں مچھلیاں پکڑنے جا رہا تھا۔
ہاشم نے جب یہ خبر سنی تو وہ مگرمچھ کو دیکھنے کے لیے بے قرار ہو گیا اور اس نے مجھے بھی ساتھ چلنے پر مجبور کر دیا۔ آخر ہم نے ایک کشتی اور مشّاق ملاحوں کا انتظام کیا۔ اور مگرمچھ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ دریا میں کئی گھنٹوں کے مسلسل سفر کے بعد ہم اس گاؤں کے قریب پہنچے جہاں ماہی گیر نے مگرمچھ کو کنارے پر آرام کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ ہماری ملاقات یہاں اس ماہی گیر سے ہوئی اور اس نے مگرمچھ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا واقعہ نہایت تفصیلی انداز میں سنایا۔
‘ارے صاحب، اتنا بڑا مگرمچھ میں نے اپنی پوری عمر میں کبھی نہیں دیکھا۔ میں مزے مزے میں اپنی کشتی چلا رہا تھا۔ یکایک بائیں جانب جو دیکھتا ہوں تو کنارے کے بالکل قریب ہی ریت پر وہ لیٹا ہوا تھا۔ بالکل بے حس و حرکت۔ اسے دیکھتے ہی میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ میں نے چپو تیزی سے چلانے شروع کیے اور پلٹ کر اس کی طرف دیکھا تو وہ آہٹ پا کر فوراً ہی غڑاپ سے پانی میں گُھس گیا۔‘
دوسرے روز دوپہر کے وقت ہم نے اس مقام کا معائنہ کیا جہاں مچھیرے نے مگرمچھ کو دیکھا تھا۔ دریا کی کچھ گیلی اور کچھ خشک ریت پر مگرمچھ کے پنجوں اور دُم کے نشانات واضح تھے اور یہ نشانات کنارے کے قریب قریب دور تک گیلی زمین میں چلے گئے تھے۔ ان نشانات کا تعاقب کرنے میں ہمیں بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ جس قدر آگے بڑھتے جاتے تھے زمین اسی قدر نرم اور دلدلی ہوتی جاتی تھی حتیٰ کہ ہمارے ٹخنوں ٹخنوں تک دلدل آتی تھی جمی ہوئی کائی اور سڑے ہوئے پودوں اور گھاس کی بدبو نے ہمارا دماغ اڑا کر رکھ دیا تھا۔ لیکن مگرمچھ کا ٹھکانہ ڈھونڈنے کی جستجو آگے بڑھنے پر مجبور کر رہی تھی۔ ہاشم رائفل تھامے آگے چل رہا تھا۔ ہم اب اپنے ملّاحوں اور کشتی کو ایک میل پیچھے چھوڑ آئے تھے یکایک ہاشم رکا اور منہ اٹھا کر فضا میں کچھ سونگھنے کی کوشش کرنے لگا۔ پھر وہ مڑا اور مجھ سے کہنے لگا۔
‘مالک کیا آپ کو سڑے ہوئے گوشت کی بدبو نہیں آ رہی؟’
اب میں نے منہ اٹھا کر ناک سے زور کا سانس کھینچا۔ بلاشبہ سڑے ہوئے گوشت کی ناگوار بدبو فضا میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مگرمچھ کا ٹھکانہ قریب ہی موجود ہے، کیونکہ وہ سڑا ہوا گوشت چھپا کر کسی گڑھے میں رکھتا ہے اور کئی کئی روز تک کھاتا رہتا ہے اب ہم اور احتیاط سے آگے بڑھنے لگے۔ سورج عین ہمارے سر پر چمک رہا تھا اور ہمیں اطمینان تھا کہ مگرمچھ اس وقت اپنے گھر میں آرام کر رہا ہوگا۔ گھر سے باہر وہ عموماً سورج طلوع یا غروب ہوتے وقت نکلتا ہے اور اسی وقت شکار مارتا ہے۔ باقی وقت وہ ریت پر لیٹ کر قیلولہ کرنے میں گزار دیتا ہے ۔ ویسے بھی دوپہر کے وقت مگرمچھ قویٰ مضمحل ہوتے ہیں اور وہ زیادہ پھرتی کا مظاہرہ کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
نہایت گہری دلدل اور کیچڑ میں سے گذرتے ہوئے، جہاں قدم قدم پر خود رو پودے اور جمی ہوئی گھاس ہمارا راستہ روکتی تھی، ہم نے آخرکار مگرمچھ کا گھر تلاش کر ہی لیا۔ یہ بیس فٹ چوڑا اور تیس فٹ لمبا ایک نشیبی گڑھا تھا جس میں خشک پودے جھاڑیاں، گھاس پھونس، کیچڑ اور مرے ہوئے جانوروں اور پرندوں کی ہڈیاں اور سڑا ہوا گوشت جمع تھا اور ایک ناقابلِ برداشت بدبو اس میں سے اٹھ رہی تھی جس نے اردگرد کی ساری فضا کو مسموم اور متعفّن بنا دیا تھا۔
ہم نے اپنی رائفلیں تان لیں، رومال کس کر ناک پر باندھے اور آگے بڑھے۔
اس گڑھے سے دریا کا کنارا آدھ فرلانگ کے فاصلے پر تھا جہاں بے شمار آبی پرندے بیٹھے اونگھ رہے تھے۔ ہم نے گڑھے کا جائزہ لیا تو اس گندگی کے انبار میں مگرمچھ نظر نہیں آیا۔ البتہ ہاشم نے ایک دلچسپ بات ضرور دریافت کی اور وہ یہ کہ وہاں مادہ مگرمچھ نے انڈے دے رکھے تھے اور ان انڈوں کے قریب ہی سڑی ہوئی مچھلیوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ اس کے معنی یہ تھے کہ ان انڈوں سے چند ہی روز میں بچے نکلنے والے تھے۔ کیونکہ مادہ مگرمچھ بچے نکلنے سے پہلے ان کی خوراک کا انتظام کر لیتی ہے۔ پیدائش کے وقت یہ بچے سولہ سولہ انچ لمبے ہوتے ہیں اور ان کی غذا یہی سڑی ہوئی مچھلیاں ہوتی ہیں۔
‘سمجھ میں نہیں آتا مادہ مگرمچھ کہاں چلی گئی؟’ ہاشم نے یوں پریشان ہو کر کہا جیسے مادہ مگرمچھ سے اس کی کوئی رشتہ داری تھی۔ اس کی اس بے چینی پر میں ہنس پڑا اور کہا، ‘آؤ اب واپس چلیں۔ کل صبح ہی آئیں گے۔ مگرمچھ کا ٹھکانہ تو ہم نے دیکھ ہی لیا ہے۔ اب وہ بچ کر کہیں نہیں جا سکتا۔’
جب ہم دریا کے قریب پہنچے تو کشتی کنارے پر موجود تھی لیکن دونوں ملّاح غائب تھے ہم نے اِدھر اُدھر دیکھا، آوازیں دیں مگر کوئی جواب نہ آیا۔ ہاشم کے چہرے پر غصے اور پریشانی کی گہری علامات نمودار ہوئیں وہ اپنی زبان میں بڑبڑایا جس کا ترجمہ یہ تھا:
‘نامعلوم یہ گدھے کے بچے کہاں چلے گئے۔ آئیے مالک، اب ہم خود ہی کشتی چلائیں گے۔ انہیں جہنم۔۔۔‘ فقرہ ابھی اس کے منہ ہی میں تھا کہ یکایک وہ دہشت زدہ ہوکر پیچھے ہٹا اور میرے اوپر آن پڑا اور حلق پھاڑ کر چلّایا۔
‘آواس۔۔۔۔۔ تو آن۔۔۔۔۔ آواس تو آن۔۔۔’ اس جملے کا مطلب یہ تھا:
‘سامنے دیکھیے جناب۔۔۔ سامنے دیکھیے۔۔۔’
میں نے گھبرا کر دائیں بائیں اور سامنے دیکھا، مگر کچھ بھی نظر نہ آیا۔ ہاشم کی گِھگھی بندھی ہوئی تھی اور وہ میری پشت پر کھڑا مسلسل چیخ رہا تھا ‘آواس۔۔۔ تو آن۔۔۔ آواس توآن۔’ ظالم نے اس قدر بدحواسی کا مظاہرہ کیا کہ میرے بھی ہاتھ پیر پھول گئے۔۔۔ میں نے جھلّا کر دوہتڑ اس کے سر پر مارا اور کہا۔
‘کیا بکتا ہے کم بخت، صحیح صحیح بتا۔’
اس سے پہلے کہ وہ کچھ بتائے، میں سمجھ گیا کہ معاملہ کیا ہے۔ بائیں ہاتھ پر اُگی ہوئی لمبی لمبی گھاس میں سے نکل کر ایک بڑا مگرمچھ تیزی سے رینگتا ہوا کنارے کی طرف جا رہا تھا۔ شاید وہ ہم سے خوفزدہ تھا اور غالباً اسے دیکھ کر ہی وہ دونوں ملاح فرار ہوئے تھے۔
‘مالک گولی چلائیے۔ یہ مادہ مگرمچھ ہے۔’ ہاشم چیخا۔
مادہ مگرمچھ اپنے چاروں پنجوں کے بل چل رہی تھی اور اس کا بڑا سا سنہری پیٹ زمین سے ایک ڈیڑھ فٹ اوپر اٹھا ہوا تھا۔ پھر اپنا جبڑا کھول کر اس نے زور سے ایک چیخ ماری جسے سن کر دریا کے کنارے اونگھتے ہوئے آبی پرندے اڑنے لگے اور جنگل میں بندروں کے چلّانے کی آوازیں آنے لگیں۔ میں نے اس کے گلے کا نشانہ لیا اور لبلبی دبا دی۔ نشانہ صحیح جگہ لگا۔۔۔ مادہ مگرمچھ نے فضا میں جست کی اور گر پڑی، اس کی دم تیزی سے گردش کر رہی تھی، جس کے باعث کیچڑ، ریت، گھاس پھونس اور خشک شاخیں ہوا میں اڑنے لگیں۔ میں نے دو فائر اور کیے اور مادہ مگرمچھ تین چار قلابازیاں کھانے کے بعد وہیں ٹھنڈی ہو گئی۔ اس کا رُخ ہماری طرف تھا اور ویران آنکھیں ہمیں گھور رہی تھیں ہماری جان میں جان آئی۔ ہم دونوں کیچڑ میں لت پت ہو چکے تھے۔ رومالوں سے ہم نے اپنے چہرے صاف کیے اور لاش کو قریب سے دیکھنے لگے۔
میری پہلی گولی حلق کی بجائے پیشانی میں لگی۔ دوسری گولی حلق میں پیوست تھی اور تیسری ریڑھ کی ہڈی کو توڑتی ہوئی نکل گئی تھی اور ہاشم کو اس بات افسوس تھا کہ اتنی قیمتی کھال خواہ مخواہ خراب ہو گئی۔ اب اس کی قیمت بہت کم وصول ہوگی۔
گاؤں پہنچ کر ہاشم نے ایک شخص کی یہ ڈیوٹی لگائی کہ وہ روزانہ مگرمچھ کے ٹھکانے کا معائنہ کیا کرے اور جونہی انڈوں میں سے بچے نکلیں، فوراً خبر دے۔ وہ دل ہی دل میں حساب لگا چکا تھا کہ مگرمچھ کے بچوں کی کھالوں سے اتنا روپیہ مل جائے گا۔ مگرمچھ کے بچوں کی کھالیں بھاری قیمت پر یورپین ملکوں میں بکتی ہیں۔ ان کی خرید و فروخت کا کاروبار زیادہ تر چینیوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ لوگ شکاریوں سے مگرمچھ کے نوزائیدہ بچے خرید کر لے جاتے ہیں اور انہیں اپنے گھروں کے اندر بنے ہوئے تالابوں میں پالتے ہیں۔ جب یہ بچے ایک ایک گز لمبے ہو جاتے ہیں تو انہیں ہلاک کرکے نہایت احتیاط سے کھالیں اتار لی جاتی ہیں۔
دو روز بعد ہمیں یہ خبر ملی کہ اسی گاؤں کی ایک بکری کو آدم خور مگرمچھ نے ہلاک کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مگرمچھ اپنے علاقے میں واپس آ گیا ہے۔ اسی روز ہم کیل کانٹے سے لیس ہوکر اس کے ٹھکانے کی طرف روانہ ہوئے لیکن وہاں مگرمچھ نہ تھا اور نہ ہمیں اس بکری کی ہڈیاں بوٹیاں ملیں۔ البتہ مگرمچھ کے پنجوں کے بڑے بڑے تازہ نشانات ضرور دیکھے گئے۔ مگرمچھ کی فطرت یہ ہے کہ وہ شکار کو پکڑ فوراً پانی کی تہہ میں لے جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد پانی کی سطح پر ابھرتا ہے اور پھر نیچے لے جاتا ہے یہاں تک کہ شکار کی روح نکل جاتی ہے، چھوٹے موٹے جانوروں کو تو فوراً ہی نِگل جاتا ہے لیکن بڑے جانوروں مثلاً گایوں، بھینسوں یا بارہ سنگھے کے معاملے میں ایسا نہیں کر سکتا۔ ان کو ہلاک کرنے کے بعد وہ لاش کسی گڑھے یا گھاس پھونس میں چھپا دیتا ہے اور جب گوشت خوب سڑ جاتا ہے، تب وہاں سے گھسیٹ کر کنارے پر لاتا ہے اور ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتا ہے۔ جتنا گوشت کھانا ہو کھا کر بقیہ ٹکڑے وہیں لے جا کر چھپا دیتا ہے۔ بعض اوقات وہ بڑے جانور یا آدمی کی لاش کو ٹکڑے کرنے کے لیے مضبوط درختوں کے تنوں سے ٹکراتا ہے تاکہ ہڈیاں چٹخ جائیں، چنانچہ میرا خیال یہی تھا کہ اگر وہ بکری کو لے گیا ہے تو اس نے ضرور اس کی لاش کسی نہ کسی جگہ ٹکرائی ہوگی۔ مگر مجھے ایسا کوئی سراغ نہیں مِلا۔
اس کے بعد ہم کئی مرتبہ کتّوں کو لے کر بھی مگرمچھ کی تلاش میں نکلے۔ البتّہ اس کے دھوکے میں کئی دوسرے بڑے مگرمچھوں کو ہم نے رائفلوں کا نشانہ بنایا۔ اسی طرح کئی ہفتے گزر گئے۔ آخر ایک روز ہم نے خبر سنی کہ آدم خور مگرمچھ نے ایک ماہی گیر پر حملہ کر کے اسے شدید زخمی کر دیا ہے۔ واقعہ یہ تھا کہ ماہی گیر دریا کے نزدیک اپنی کشتی کسی درخت سے باندھ کر گاؤں گیا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد جب وہ واپس آ کر کشتی کھول رہا تھا تو پیچھے سے مگرمچھ آیا اور ماہی گیر کی ٹانگ اپنے جبڑے میں دبا کر گھسیٹتا ہوا پانی میں لے گیا۔ ماہی گیر بہت نڈر اور بہادر آدمی تھا اور اپنی زندگی میں کئی مگرمچھوں سے جنگ کر چکا تھا۔ اس نے کوشش کر کے مگرمچھ کے منہ سے اپنی ٹانگ چھڑائی اور پانی کی سطح پر آیا۔ لیکن مگرمچھ نے اسے پھر پکڑ لیا۔ اسی دوران میں ماہی گیر نے اپنی کمر سے بندھا ہوا لمبا چاقو نکال لیا اور مگرمچھ پر تابڑ توڑ کئی وار کیے۔ ایک گہرا زخم مگرمچھ کے سر پر آیا۔ مگرمچھ نے زخموں سے بے تاب ہوکر فوراً ماہی گیر کو چھوڑ دیا اور خود خون کی تللیاں چھوڑتا ہوا پانی کے اندر چلا گیا۔ ماہی گیر بھی اگرچہ سخت زخمی ہو چکا تھا، مگر اس کے اوسان بحال تھے اور اپنی پوری قوت سے صرف کر کے وہ کنارے تک پہنچ گیا۔ دوسرے روز صبح کے وقت وہ اسی طرح گھسٹتا ہوا بالکل جاں کنی کی سی کیفیت میں گاؤں کے اندر آیا۔ اس کی ایک ٹانگ اور ایک بازو مگرمچھ نے چبا ڈالا تھا۔ میں نے خود ماہی گیر کے گھر جا کر اس کی حالت دیکھی اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد ہو چکا تھا اور وہ بے ہوش پڑا تھا۔ اس کی بیوی غم و اندوہ سے نڈھال ایک طرف بیٹھی تھی اور غالباً یہ میری شکاری زندگی میں پہلا موقع تھا کہ کسی مگرمچھ کے خلاف صحیح معنوں میں نفرت اور غصے کے جذبات میرے دل میں پیدا ہوئے۔ میں نے ایک ہفتے کی چھٹی کی درخواست اپنے چیف آفیسر کے پاس بھیج دی اور جواب کا انتظار کیے بغیر ہاشم کی معیّت میں آدم خور مگرمچھ سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے نِکل کھڑا ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ درخواست بھیجنے کے نو دن بعد میری چھٹی منظور ہونے کے احکامات آئے لیکن میں اس وقت مگرمچھ کو جہنم رسید کر بھی چکا تھا۔
پہلے ہی روز علی الصبح ہم مگرمچھ کی تلاش میں نکلے اور دریا کا اچھی طرح معائنہ کیا اور جان پر کھیل کر ان تمام خطرناک جگہوں اور گڑھوں میں بھی اترے جہاں مگرمچھ کے چھپ جانے کا امکان تھا۔ مگر خدا جانے وہ ظالم کہاں پوشیدہ ہو جاتا تھا۔ سارا دن ہم دیوانہ وار اسے ڈھونڈتے رہے اور جب سورج کی کرنیں درختوں کی چوٹیوں کو چوم چوم کر رخصت ہونے لگیں تو ہم تھکے ماندے گھروں کو لوٹے۔
دوسرے روز پھر اسی دھن میں نکلے اور دوپہر تک پھرتے رہے۔ دوپہر کے وقت اس علاقے میں سورج کی حِدّت و تپش ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ پس ہم ایک گھنے درخت کے سائے میں بیٹھ گئے پچاس ساٹھ گز کے فاصلے پر دریا بہہ رہا تھا اور اس کا پانی دھوپ میں چاندی کی ایک چمکدار لکیر کی مانند نظر آ رہا تھا۔ ابھی ہمیں بیٹھے یہاں آدھ گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ یکایک ہم نے دریا میں ایک ماہی گیر کشتی دیکھی جو تیزی سے کنارے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ہم حیرت سے اس کشتی کو دیکھ رہے تھے۔ اس میں صرف ایک شخص سوار تھا۔ جلدی جلدی کشتی کنارے پر لا کر وہ اس میں سے کودا اور گاؤں کی طرف بے تحاشہ بھاگنے لگا۔ ہاشم مجھ سے کہنے لگا۔
‘سرکار اس کا یوں بھاگنا خلافِ معمول ہے۔ اس نے ضرور مگرمچھ کو کہیں دیکھا ہے۔’
یہ بات میرے دل کو لگی۔۔۔ اور ہم نے پکار کر اسے اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ جب وہ ہمارے پاس آیا تو اس کا سانس پُھولا ہوا تھا۔ چہرہ تپے ہوئے تانبے کی مانند سرخ اور پیٹ دھونکنی کی طرح حرکت کر رہا تھا۔ جب اس کے حواس ذرا درست ہوئے تو اس نے بتایا کہ دریا کے عین درمیان میں یہاں سے کوئی دو سو گز کے فاصلے پر خشکی کے ایک بہت چھوٹے قطعے پر ایک بہت بڑا مگرمچھ لیٹا ہوا ہے۔ اس کے سر پر ایک بڑا سا زخم بھی ہے جس میں سے خون رس رہا ہے۔ اس کا منہ پانی کے اندر ہےاور دھڑ ریت پر اور وہ جبڑا کھولے زور زور سے سانس لے رہا ہے۔ ہمارے لیے یہ اطلاع نہ صرف عجیب بلکہ حیران کن بھی تھی۔ اب وقت ضائع کرنا فضول تھا۔۔۔ ہم دونوں دریا کی طرف چلے لیکن مشکل یہ درپیش تھی کہ مگرمچھ کو مارا کس طرح جائے۔ کشتی لے جانا حماقت تھی کیونکہ کشتی کی آہٹ پاتے ہی وہ دریا میں اتر کر غائب ہو جاتا اور کنارے پر کھڑے ہو کر دو سو گز کے فاصلے پر صحیح نشانہ لینا بھی دشوار کام تھا۔ ماہی گیر ہمیں اپنے ساتھ کنارے پر لے گیا اور ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ مگرمچھ اس جگہ موجود ہے۔ بلاشبہ دریا کے اندر بہت دور فاصلے پر خشکی کے ایک چھوٹے سے قطعے پر دھبّہ سا نظر آ رہا تھا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ کشتی چلا کر ذرا اور آگے لے جائی جائے۔ خوش قسمتی سے دریا کا بہاؤ بھی اسی جانب تھا ہماری کشتی خودبخود اسی رُخ پر آہستہ آہستہ بہنے لگی۔ خشکی کا قطعہ لمحہ بہ لمحہ ہمارے نزدیک آ رہا تھا۔ آخر ہم اس قدر نزدیک پہنچ گئے کہ قوی الجثّہ مگرمچھ ہمیں صاف دکھائی دینے لگا۔ وہ قطعی بے حِس و حرکت اپنا منہ پانی میں ڈالے پڑا تھا، مگرمچھ اب ہم سے صرف پچاس ساٹھ گز کے فاصلے پر تھا۔ کنارے پر اتر کر میں نے اپنی رائفل سے اس کا نشانہ لیا۔ یکایک مگرمچھ کے جسم میں حرکت ہوئی۔ اس نے اپنا جبڑا پانی نکالا۔ ہم فوراً کنارے پر لیٹ گئے اور جھاڑیوں میں اپنا جسم چھپا لیا ایک لمحے کے لیے مگرمچھ نے اپنا منہ اٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھا، اسے شاید خطرے کا احساس ہو چکا تھا اور ادھر ہمارے دِل دھڑک رہے تھے کہ اگر اس مرتبہ بھی یہ بچ کر نکل گیا تو نامعلوم کتنے دِن اور اسے تلاش کرنے میں لگیں گے۔ وہ نازک ترین لمحہ مجھے ساری عمر یاد رہے گا۔ جونہی مگرمچھ نے اپنا سر اوپر اٹھایا اور اس کا حلق دکھائی دینے لگا، میں نے لبلبی دبا دی۔ فائر کی آواز سے فضا تھّرا اٹھی اور مگرمچھ سر کے بل گرا، مگر فوراً ہی وہ لوٹ پوٹ کر سیدھا ہوا اور غڑاپ سے پانی میں کود گیا۔
‘وہ مارا۔’ ہاشم چلایا۔ ‘آئیے مالک۔ اب ہم اسے پالیں گے۔’ یہ کہتے ہی وہ کشتی کی طرف دوڑا۔ پسینے سے میرا جسم تربتر ہو چکا تھا اور سورج کی عمودی کرنیں میرے روئیں روئیں میں آگ لگا رہی تھیں، لیکن مگرمچھ کو ہلاک کرنے کے جنون میں مَیں سب کچھ فراموش کر چکا تھا۔ ہم دونوں کشتی میں سوار ہو کر اس کی طرف لپکے۔ اور پانچ منٹ میں خشکی کے اس قطعے پر پہنچ گئے۔ مگرمچھ کے کے جسم سے نکلا ہوا تازہ خون پھیلا ہوا دکھائی دیا اور دریا میں اس جگہ پانی بھی سرخ ہو چکا تھا جہاں زخمی تھا اور اب میری رائفل کی گولی کا نشانہ بننے کے بعد یقیناً وہ زیادہ دیر تک پانی میں چھپے رہنے کے قابل نہ تھا، اسے سانس لینے کے لیے لازماً باہر آنا پڑے گا۔ پانی کے بلبلے اور ہلکے گلابی رنگ کی ایک لکیر اس کے فرار ہونے کی صاف نشاندہی کرتی تھی۔ رائفل میرے ہاتھ میں تیار تھی، لیکن آفرین ہے اس موذی پر، ڈیڑھ فرلانگ تک وہ دریا کے اندر ہی اندر تیرتا رہا۔ ہم بھی ملک الموت کی طرح اس کے تعاقب میں تھے۔ آخر مجبور ہو کر وہ سطحِ آب پر آیا۔ جونہی اس کا جبڑا پانی کے اوپر اُبھرا، میری رائفل سے شعلہ نِکلا وہ پھر پانی کے اندر چلا گیا۔ دوسری گولی بھی یقیناً اپنا کام کر گئی تھی کیونکہ چند منٹ بعد ہماری کشتی اس جگہ سے گزری۔