میں اور میری بیوی ہلڈا جب جزیرہ نومو سے لوٹے تو ملازم نے کپتان چی کی طرف سے میرے نام آیا ہوا رقعہ دکھلایا، جس میں درج تھا کہ میں اس سے فوراً ملوں۔ بے چارہ ایک بھاری مصیبت میں مبتلا ہو گیا تھا۔ وہ کینیا کے محکمہ سیر و شکار کا انچارج تھا اور آئے دن کسی نہ کسی جان لیوا چکّر میں پھنس جاتا تھا۔ میں اس کے پاس گیا تو اس نے بتایا کہ مپسن فال کے علاقے میں جنگلی بھینسوں کے گروہ نے آفت مچا رکھی ہے جنگلی بھینسے نہ صرف تیّار فصلیں تباہ کر رہے ہیں بلکہ انسانی جانوں سے بھی کھیل رہے ہیں۔ میں نے وعدہ کیا کہ اس سلسلے میں جو کچھ مجھ سے ہو سکے گا، کروں گا۔
جنگلی بھینسا افریقہ کے خطرناک ترین جانوروں میں شمار ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ جانور سبزی خور ہے لیکن اس کی کل عادات و خصائل گوشت خور درندوں سے مشابہ ہیں۔ نہایت ہی نڈر، سخت اور مکّار ہوتا ہے۔ گینڈے کی طرح قوی چیتے کی طرح پھرتیلا، لومڑی کی طرح عیّار اور ہاتھی کی طرح مست۔۔۔۔۔ یہ اس کی چند خصوصیات ہیں۔ اپنے حریف کا جنگل کے آخری سرے تک تعاقب کرتا ہے جب تک خود نہ مر جائے یا اسے نہ مار ڈالے پیچھے ہٹنا اپنی ہتک سمجھتا ہے اس کے حملے کا انداز بھی بڑا ہی لرزہ خیز ہوتا ہے اور بعض اوقات گینڈے اور شیر تک اس کا سامنا کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔ اس کی گردن اور سینگوں میں خدا نے بے پناہ قوّت دے رکھی ہے۔ اس کے لمبے نوکیلے سینگوں کی زد میں آ کر بچنا خاصا مشکل کام ہے۔ اناڑی اور ناتجربہ کار شکاری اس سے خوف کھاتے اور ہمیشہ بچ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے بڑی مصیبت اس کی موٹی کھال اور شہ زوری ہے۔ آپ رائفل کی صرف ایک گولی سے گینڈے یا ہاتھی کا کام تمام کر سکتے ہیں۔ لیکن جنگلی بھینسے کے لیے یہ بیکار ہے۔ جب تک اس کا جسم گولیوں سے چھلنی نہ کر دیا جائے اس وقت تک وہ مرنے کا نام نہیں لیتا۔ اس کے علاوہ اس جانور کی ایک بڑی خوبی اس کی ذہانت اور اعلیٰ قوّتِ سماعت ہے۔ جب وہ اپنے حریف کا تعاقب کرتا ہے تو اس کے قدموں کے نشانات سونگھتا جاتا ہے جب اس کا سراغ پا لیتا ہے تو فوراً ہی حملہ نہیں کرتا بلکہ جھاڑیوں میں چھپ کر مناسب موقعے کا انتظار کرتا ہے۔ جونہی اسے محسوس ہو کہ حریف بے خبر ہے فوراً اپنی کمین گاہ سے نکلتا اور آندھی کی طرح دشمن پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ اس کے حملے کا انداز اتنا جارحانہ ہوتا ہے کہ اکثر تجربہ کار شکاری بھی بدحواس ہو جاتے ہیں۔ اس کی فطرت یہ ہے کہ بعض اوقات بغیر کسی سبب اشتعال میں آ جاتا ہے اور شکاریوں کے تعاقب میں نکل کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس اعتبار سے اگر یہ کہا جائے کہ جنگلی بھینسا افریقہ کے تمام جانوروں میں سب سے خطرناک جانور ہے تو اسے مبالغہ نہ سمجھیے۔
اعشاریہ 500 کی بھاری رائفل اور شکاری کتّوں کا لشکر لے کر میں وقت مقررہ پر تھامپسن فال کے علاقے میں پہنچ گیا۔ اس علاقے کے لوگ جنگلی بھینسوں کی ہلاکت خیز سرگرمیوں سے بہت پریشان تھے۔ جس گاؤں کے قریب میں نے اپنا کیمپ لگایا وہاں سے جنگلی بھینسوں کی سرحد زیادہ دور نہ تھی۔ اسی روز بہت سے مقامی باشندے میرے پاس آئے۔ وہ خوش تھے کہ اب اس مصیبت سے نجات مل جائے گی۔ کہنے کو تو یہ لوگ ماسائی قبیلے ہی کی ایک شاخ تھے اور لڑنے مرنے میں طاق۔ شیروں اور چیتوں کو نیزوں سے مار ڈالنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ مگر جنگلی بھینسے کے سامنے ان کی کوئی پیش نہ جاتی تھی۔ ان لوگوں کو زبانی جب مجھے چند واقعات معلوم ہوئے تو حیرت کے ساتھ ساتھ ڈر بھی لگنے لگا۔ مثلاً ایک شخص کی ایڑی ٹخنے کے نیچے سے غائب تھی۔ میں نے جب اس حادثے کا سبب دریافت کیا تو اس کا چہرہ متغیّر ہو گیا۔ کہنے لگا کہ یہ ستم ایک جنگلی بھینسے نے ڈھایا ہے۔ قصّہ یہ تھا کہ ایک روز یہ شخص اپنے کسی کام سے جنگل میں چلا جا رہا تھا کہ یکایک اس کے عقب میں جھاڑیوں کے اندر کسی جانور کے غرّانے کی آواز پیدا ہوئی۔ وہ فوراً رُک گیا اور مڑ کر دیکھنے لگا۔ چشم زدن میں ایک قوی ہیکل جنگلی بھینسا ڈکراتا ہوا اور اپنے کھروں سے مٹی اکھیڑتا ہوا پوری قوّت سے اس شخص کی جانب آیا۔ یہ بے چارہ بدحواس ہو کر اندھا دھند بھاگنے لگا لیکن چند ہی چھلانگوں میں بھینسا اس کے قریب پہنچ چکا تھا۔ مجبوراً یہ شخص ایک درخت کی نچلی شاخ پکڑ کر لٹک گیا اور درخت کے تنے پر پیر رکھ کر اوپر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ جنگلی بھینسا اپنے ہی زور میں درخت سے آگے نکل گیا۔ لیکن چند ثانیے بعد واپس آیا اور درخٹ کے گرد فوں فوں کرتا ہوا اور کھر زمین پر مارتا ہوا چکر کاٹنے لگا۔ یہ شخص خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اس نے اپنی ٹانگیں سکیڑ لیں اور دونوں بازوؤں سے شاخ مضبوطی سے پکڑ کر لٹکنے لگا۔ بدقسمتی سے درخت کے تنے تک اس کا پیر اچھی طرح نہیں پہنچ رہا تھا۔ اسی اثنا میں اس نے اپنا دایاں پیر سہارے کے لیے درخت کے تنے تک پہنچانا چاہا۔ جنگلی بھینسے نے لپک کر اس کی ایڑی اپنے بڑے منہ میں دبالی اور پیچھے ہٹا۔ ایڑی لہولہان ہو گئی۔ بھینسے نے جب اپنے منہ میں خون کا ذائقہ محسوس کیا اور بو اس کے نتھنوں میں پہنچی تو اس نے پیر چھوڑ دیا اور اچھلتا کودتا ایک جانب چلا گیا۔ اس عرصے میں یہ بدنصیب درد کی شدت سے بیہوش ہو چکا تھا۔ ہوش آنے کے بعد جس جان کنی کی کیفیت سے گزر کر یہ بستی تک پہنچا، اسے سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
اسی طرح ایک روز دوپہر کے وقت میرے پاس کیمپ میں ایک شخص آیا جس نے پیش کش کی کہ اسے رہبر کی حیثیت سے ملازم رکھ لیا جائے۔ بات چیت کے دوران میں نے دیکھا کہ اس کی رانوں اور گھٹنوں پر زخموں کے لمبے اور گہرے نشان تھے۔ جب میں نے ان زخموں کا سبب پوچھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ‘صاحب اگر مونگو (خدا) کی نظرِ کرم میرے حال پر نہ ہوتی تو میں اب تک زندہ نہ ہوتا۔’ اس کے بعد اس نے ان الفاظ میں اپنی غم ناک کہانی سنائی۔
‘میں اس روز اپنی پالتو شہد کی مکھیاں دیکھنے جنگل میں جا رہا تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ شہد کی مکھیاں پالنے اور شہد بیچنے کا دھندا کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے جنگل میں اونچے اونچے درختوں پر لکڑی کے چھوٹے ڈبے سے بنا کر لٹکا دیتے ہیں۔ مکھیاں خودبخود ان گھروں میں رہنے لگتی ہیں۔ بعض اوقات سانپ اور دوسرے چھوٹے پرندے بھی ان پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ بہرحال میں یہ سوچتا ہوا چلا جا رہا تھا کہ شہد اب تک تیار ہو چکا ہوگا کہ یکایک لمبی گھاس میں سے گزرتے ہوئے میرا پیر سوئے ہوئے ایک جنگلی بھینسے کی دُم پر پڑ گیا۔ اس سے پہلے کہ میں سنبھلتا، غیظ و غضب سے بھرے ہوئے بھینسے نے اچھل کر اپنے سینگوں پر مجھے اٹھایا اور فضا میں پھینک دیا۔ میں پیٹھ کے بل دور جا گرا۔ لمبی گھاس میں گرنے سے چوٹ تو نہیں آئی مگر اُٹھتے اُٹھتے بھینسا میرے سر پر آ چکا تھا۔ اس نے اپنے سینگ میرے سینے میں گھونپنے کے لیے گردن جھکائی۔ میں نے جلدی سے کروٹ لی اور کچھ نہ سوجھا تو دائیں ہاتھ سے اس کا سینگ پکڑ لیا اور بائیں ہاتھ سے ایک کان۔ اس حرکت سے بھینسا اور مشتعل ہو گیا۔ وہ منہ کھول کر بھیانک آواز میں چیخا اور گردن کو زور زور سے جھٹکے دیئے لیکن میں نے اس کا کان، چھوڑا نہ سینگ، بلکہ جتنے قوّت تھی صرف کر دی۔ بھینسا اب مجھے لے کر دوڑتا ہوا جنگل میں جا رہا تھا۔ یکایک وہ گھنی خادار جھاڑیوں میں گھس گیا۔ کانٹے میرے جسم میں پیوست ہو رہے تھے۔ لیکن میں نے اب بھی بھینسے کا سینگ نہ چھوڑا۔ جھاڑیوں سے نکل کر اس نے ایک زور دار جھٹکے سے مجھے پرے پھینک دیا۔ میرا جسم زخموں سے لہولہان ہو چکا تھا۔ زمین پر گرا تو اٹھنے کی سکت ہی نہ رہی مگر اس عالم میں بھی کچھ کچھ ہوش مجھے ضرور تھا۔ میں چاروں شانے چت پڑا پھٹی پھٹی آنکھوں سے بھینسے کو دیکھ رہا تھا۔ جس کا غیظ و غضب عروج پر تھا۔ وہ دیوانہ وار میرے ارد گرد گھوم رہا تھا۔ دفعتہً وہ رکا، پھر گردن جھکا کر آہستہ آہستہ قریب آیا اور اپنا ایک سینگ میرے پیٹ میں گھونپ دیا۔ میرے منہ سے ایک چیخ نکلی اور پھر مجھے قطعاً ہوش نہ رہا۔
‘آنکھ کھلی تو شام ہو چکی تھی۔ پہلے پہل مجھے معلوم نہ ہوا کہ کہاں پڑا ہوں۔ آنکھوں کے آگے بار بار اندھیرا چھا جاتا۔ میں نے ہاتھ پیر ہلانے کی کوشش کی مگر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے جسم کے یہ حصے مردہ ہو چکے ہوں۔ بہت دیر بعد میرا ذہن کام کرنے کے قابل ہوا۔ میں نے دیکھا کہ جگنل میں بہنے والی ندی قریب ہی ہے۔ میرا ایک بازو ٹوٹ چکا تھا۔ پیٹ کے اوپر بڑا سا گھاؤ تھا جس پر خون جما ہوا تھا۔ رانوں اور سینے پر بھی زخموں کے گہرے نشان تھے۔ جابجا کانٹے بھی چبھے ہوئے تھے۔ ارادے کی پوری قوت کے ساتھ ندی کی طرف رینگنے لگا۔ آپ یقین نہیں کریں گے لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں اس ندی کے قریب کیچڑ میں پورے دو ہفتے تک پڑا رہا۔ مجھے زندہ بچنے کی کوئی امید نہ تھی۔ مجھ پر نیم غنودگی کی کیفیّت طاری رہی۔ میرا جسم بے حس ہو گیا تھا۔ بائیں بازو سے چلّو بھر پانی بھر کر بمشکل پانی حلق میں ڈالتا اور پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے گھاس پھونس چباتا رہا۔ رات کے وقت جنگل کے اکثر جانور اس ندی پر پانی پیتے آتے تھے۔ میں اسے بھی خدا کا خاص کرم سمجھتا ہوں کہ کسی نے مجھے نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی، شاید اس لیے کہ ابھی زندگی کے کچھ دن باقی تھے۔ گینڈے بھی وہاں آتے اور ہاتھی بھی۔۔۔۔ کئی مرتبہ لگڑ بگّھے آئے لیکن مجھے دور ہی سے دیکھ کر واپس چلے گئے۔ دلچسپ بات یہ کہ ندی میں بڑے بڑے کئی مگرمچھ بھی تھے وہ مجھے مردہ سمجھ کر پانی کی سطح سے باہر آتے اور رینگتے ہوئے میرے بہت قریب پہنچ جاتے۔ لیکن جونہی میں آنکھیں کھولتا وہ غڑاپ غڑاپ پانی میں کود جاتے۔
ادھر گاؤں والوں نے میری گمشدگی پر یہ سمجھ لیا تھا کہ میں کسی درندے کا لقمہ بن چکا ہوں اس لیے کسی نے بھی مجھے ڈھونڈنے کی زحمت گوارا نہ کی، تاہم مجھے یہ امید تھی کہ اس عرصے میں اگر میں زندہ رہا تو شہد حاصل کرنے والے ضرور ادھر آ نکلیں گے۔ آخر ایک روز وہ آئے اور مجھے اٹھا کر لے گئے۔ میرا جسم زخموں سے سڑ چکا تھا۔ انہوں نے بعض جڑی بوٹیوں سے میرا علاج کیا۔ میں اب اچھا ہو گیا ہوں لیکن زندگی کی تمام مسرتوں سے محروم ہوں۔’
اس شخص کی دردناک داستان سن کر میں دم بخود تھا۔ میں نے اس سے پوچھا۔ اس تجربے کے بعد بھی تم کیوں میرے ساتھ شکار پر جانے کے لیے مُصر ہو؟’ اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی اور وہ ڈرامائی انداز میں بولا، ‘بوانا (جناب) میں اس جنگلی بھینسے کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ مجھے اس کی شکل اور سینگ اچھی طرح یاد ہیں۔ میرے سینے میں انتقام کی آگ سلگ رہی ہے۔ میں جب تک اس کا خون نہ پی لوں گا یہ آگ نہ بجھے گی۔ اس لیے آپ کے پاس آیا ہوں۔’
میں جس جنگل کے بھینسوں سے دو دو ہاتھ کرنے آیا تھا اس کا نام مارمینٹ فارسٹ تھا۔ ایسا گھنا اور تاریک جنگل افریقہ میں کہیں کہیں ملتا ہے۔ یہاں دن کو بھی رات کا منظر نظر آتا ہے۔ یہاں شکار کرنا کار داد ہے۔ اب پہلی بار نازک صورتِ حال اپنی صحیح شکل میں میرے سامنے آئی۔ اس جگہ جنگلی بھینسا واقعی ایک خطرناک جانور ثابت ہو سکتا تھا۔ تاہم مجھے اطمینان تھا کہ میرے پاس تجربہ کا اور نڈر کتّوں کا گروہ موجود تھا۔ تاہم مجھے اطمینان تھا کہ میرے پاس تجربہ کار اور نڈر کتّوں کا گروہ موجود تھا۔ جنکا لیڈر ‘بف’ نامی ایک السیشن کتا تھا۔ مجھے امید تھی کہ یہ کتے جنگلی بھینسے کو پاتال سے بھی اٹھا لائیں گے۔
جنگلی بھینسوں کے شکار پر آئے ہوئے مجھے کئی ماہ گزر چکے تھے۔ اس دوران میں جیسا کہ مجھے خدشہ تھا کہ کوئی ناخوش گوار حادثہ پیش نہیں آیا۔ البتّہ میرے کئی شکاری کتے موت کے منہ میں جا چکے تھے۔ میں نے اس عرصے میں جتنے بھینسے شکار کیے ان کی تعداد سترہ تک پہنچتی تھی۔ ابھی مجھے چند دن اور یہاں ٹھہرنا تھا۔ مقامی باشندے جو ‘گیم سکاؤٹ’ کی حیثیت سے میرے پاس ملازم تھے، مجھے خوب مدد دے رہے تھے اور سچ تو یہ ہے، میں نے اپنی شکاری زندگی انہی لوگوں کی مدد کے سہارے گزاری۔ میں نے ساڑھے تین سو کے قریب جنگلی بھینسے ہلاک کیے۔
ایک روز جب کہ حسبِ معمول اپنے نائب شکاریوں اور کتّوں کے گروہ کو لے کر جنگل میں جانے والا تھا، ایک مقامی باشندہ میرے پاس آیا۔ اس کا نام تھا ایبا۔ اس کی خواہش تھی کہ میں اسے بھی ملازمت میں لے لوں۔ معلوم ہوا کہ وہ اس علاقے کے مشہور جنگجو اور بہادر قبیلے ترکانا سے تعلق رکھتا ہے۔ ترکانا قبیلے کے لوگوں کی بہادری اور جیالے پن کی داستانیں میں بہت سن چکا تھا۔ یہ لوگ وحشی ہیں اور اکثر ننگ دھڑنگ رہتے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا ہتھیار ایک گول چاقو ہے جسے یہ دائیں کلائی میں چوڑی کی طرح پہنتے ہیں۔ اس چاقو کا پھل ریزر بلیڈ کی طرح تیز ہوتا ہے۔ اپنے حریف کی گردن کلائی کے ایک ہی جھٹکے سے الگ کر دینا ان کا خاص فن ہے۔ پہلی نظر میں ایبا مجھے پسند آیا۔ اس کے لمبے تڑنگے جسم، غیر معمولی قوت اور آنکھوں کی بے پناہ چمک نے مجھے کافی متاثر کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ تھامپسن فال کے جیل خانے سے رہا ہو کر آیا ہے۔ جرم یہ تھا کہ وہ زہر آلود تیروں کا استعمال کرتا رہا ہے۔ میں اس کے سچ بول دینے سے اور خوش ہوا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ یہ ملازمت کیوں کرنا چاہتا ہے تو اس نے کہا مجھے رائفل چلانے کا بڑا شوق ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ کی خدمت کروں تاکہ کسی موقعے پر میرے پاس اپنی رائفل ہو۔ قصہ مختصر میں نے ایبا کو اس شرط پر ملازمت میں لے لیا کہ اگر وہ میرے احکام کی تعمیل کرے گا۔ کبھی دھوکہ دینے کی کوشش نہیں کرے گا اور اس نے اچھا کام کیا تو رائفل دے دی جائے گی۔
جیسا کہ مجھے توقع تھی، ایبا کام کا آدمی ثابت ہوا۔ چند روز میں اس نے اپنی بہادری اور نڈر پن کا سکّہ میرے دل پر بٹھا دیا۔ میں نے اسے اپنی ایک پرانی فالتو رائفل دے دی اور چلانے کا طریقہ بھی سکھایا۔ اس نے حیرت انگیز طور پر رائفل کا میکنزم سمجھ لیا بلکہ اچھے نشانے کی مشق بھی بہم پہنچا لی۔ میں خوش تھا کہ عرصہ دراز کے ایک ایسا کار آمد آدمی ہاتھ لگا ہے۔ ایک روز میری طبیعت کچھ خراب تھی۔ میں نے ایبا کو رائفل اور کارتوس دیے۔ دو گیم سکاؤٹ اس کے ہمراہ کیے اور جنگل میں جنگلی بھینسوں کا تعاقب کرنے بھیج دیا۔ تھوڑی دیر بعد دونوں سکاؤٹ چہروں پر پریشانی کے آثار لیے کیمپ میں آئے اور کہنے لگے۔ ‘ایبا نے ہمیں واپس بھیج دیا۔ وہ ہمیں ساتھ لے جانے سے انکار کرتا ہے۔’
‘کیوں؟’ میرے دل میں پہلی بار شک و شبے کے کانٹے چبھنے لگے۔
‘جناب! وہ کہتا ہے کہ میں ترکانا قبیلے کا سردار ہوں اور ہم لوگ اکیلے ہی شکار کھیلتے ہیں۔’
یہ سن کر میرے غصے کی انتہا نہ رہی۔ یہ صریحاً میرے احکام کی خلاف ورزی تھی۔ میں جانتا تھا کہ ایبا اگر اکیلا جنگل میں نکل گیا تو ضرور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ اتنا تجربہ کار ہونے کے باوجود میں نے کبھی ان جنگلوں میں تنہا جانے کی جرأت نہیں کی تھی۔ بہرحال میں نے فیصلہ کیا کہ ایبا اگر لوٹ آیا تو اسے عبرتناک سزا دوں گا۔ مگر وہ نہ آیا۔
دوسرے روز پروگرام کے مطابق مجھے اسی علاقے کے ایک دور دراز مقام پر دورے کے لیے جانا تھا۔ وہاں سے پانچ روز بعد جب میں واپس آیا تو میرا خیال تھا کہ ایبا اب تک آ چکا ہوگا۔ مگر پتہ چلا کہ وہ تو ابھی تک نہیں آیا البتہ اس کی بیوی آئی ہے۔ میں نے اسے بلایا۔ اس کی حالت نہایت خستہ تھی۔ بے چاری چند گندے چیتھڑوں سے اپنا تن ڈھانپے ہوئے تھی۔ مجھے دیکھتے ہی اس کی آنکھوں آنسو بھر آئے۔ اب مجھے بھی تشویش ہوئی۔ اگرچہ میں لمبے سفر سے واپس آیا تھا۔ اور تھکا ہوا تھا، مگر فوراً ہی ایک کھوجی جماعت تیاری کر کے ایبا کی تلاش میں روانہ ہو گیا۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ اس وسیع و عریض پہاڑی جنگل میں ایبا ہمیں زندہ یا مردہ اتنی جلد مل جائے گا۔ لیکن چار گھنٹے کی مسلسل کوشش کے بعد ایک ڈھلوان راستے پر درخت کے نیچے ہم نے اس کی مسخ شدہ لاش پائی۔ گدھوں اور لگڑ بگّوں نے لاش کو نوچ نوچ کر خوب پیٹ بھرا تھا۔ میں نے ایبا کو اس کے کاسہ سر کی خاص بناوٹ سے شناخت کیا۔ تھوڑی دیر کے معائنے کے بعد ہی یہ حقیقت سامنے آ گئی کہ بدنصیب ایبا کو کسی درندے نے نہیں بلکہ کسی انسان نے ہلاک کیا ہے۔ کیونکہ وہاں نہ جنگلی بھینسے کے پاؤں کے نشان تھے نہ کسی ایسی جدوجہد کے آثار جن سے پتہ چلتا کہ ایبا کسی اور جانور کا شکار ہوا۔ لاش کے قریب ہی ایک گہرا گڑھا البتّہ موجود تھا۔ جو میرے خیال کے مطابق ایبا نے خود اپنے لیے اس مقصد کے تحت کھودا ہوگا کہ اس میں چھپ کر جنگلی بھینسے کا انتظار کرے گا۔ اس کی کئی پسلیاں اس انداز سے ٹوٹی ہوئی تھیں جیسے ان پر ڈنڈے برسائے گئے ہوں۔ رائفل اور کارتوس کی پیٹی غائب تھی۔ اور ظاہر ہے کہ کوئی جانور رائفل اور کارتوس اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتے۔ میں نے فوراً اس حادثے کی اطلاع تھامپسن فال کے پولیس انسپکٹر مسٹر جائے کو بھجوا دی۔
اس زمانے میں ضلع تھامپسن فال کے علاقے کے بہت سے بدمعاش مغرور تھے۔ یہ مہینوں برسوں تک جنگلوں میں روپوش رہتے۔ راہ چلتے اِکّا دُکّا مسافروں یا آبادیوں میں لوٹ مار اور قتل و غارت کے بعد بھاگ جاتے۔ مجھے شک تھا کہ ایبا کو بھی ایسے ہی کسی بدمعاش نے رائفل اور کارتوس حاصل کرنے کے لالچ میں ٹھکانے لگایا ہے۔ بہرحال اسلحہ کا وحشی بدمعاشوں کے ہاتھوں میں پہنچ جانا نہایت تشویش انگیز مسئلہ تھا۔ دوسرے روز انسپکٹر جائے مسلح پولیس عسکری جوانوں کے ساتھ جائے واردات پر پہنچ گیا۔ میں خود اپنے نائب شکاریوں کے ساتھ اس کی مدد کو موجود تھا۔ انسپکٹر نے فیصلہ کیا کہ اردگرد کے علاقے کا اچھی طرح معائنہ کیا جائے۔ ممکن ہے کہ اس طرح کوئی نیا سراغ ہاتھ آ جائے، چنانچہ پولیس اور شکاریوں کی بہت بڑی جماعت کو چھوٹے چھوٹے کئی گروہوں میں تقسیم کر کے مختلف سمتوں میں روانہ کر دیا گیا۔ تھامپسن فال کے علاقے میں میرے آنے کے بعد یہ پہلا جانی نقصان تھا اور میں اس بارے میں سخت فکرمند تھا۔
جستجو کی یہ کوشش ناکام نہ رہی اور دو گھنٹے بعد ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور مجھے بتایا کہ اس نے ایک جنگلی بھینسے کی لاش جھاڑیوں میں دیکھی ہے۔ میں نے چند آدمیوں کو اپنے ساتھ لیا اور اس طرف چل پڑا۔ راستے میں میں نے دیکھا کہ گوشت خور چیونٹیاں لاکھوں کی تعداد میں اِدھر سے اُدھر جا رہی ہیں۔ یہ چیونٹیاں آدھ انچ سے زیادہ بڑی نہیں ہوتیں۔ لیکن افریقہ میں جن لوگوں کو کبھی ان کا عذاب سہنا پڑا ہے وہ ساری عمر انہیں بھول نہیں سکتے ہیں۔ ان کی فطرت ہے یہ ہے کہ اَن گنت تعداد میں سفر کرتی ہیں، راہ میں جو حیوان اور انسان مل جائے، اسے آن واحد میں چٹ کر جاتی ہیں۔ میں خود کئی مرتبہ انہی خون آشام چیونٹیوں کے پھندے میں پھنس کر موت کا سا مزہ چکھ چکا ہوں۔
جب ہم بھینسے کی لاش سے پانچ گز دور کھڑے تھے تو میں نے دیکھا کہ کروڑوں چیونٹیاں اس سے چمٹی ہوئی ہیں۔ قوی ہیکل بھینسے کا گوشت آہستہ آہستہ غائب ہوتا جا رہا تھا۔ اور نیچے سے سفید بڑی ہڈیاں جھانک رہی تھیں۔ چیونٹیوں نے ہمیں دیکھتے ہی خطرہ محسوس کیا اور بھینسے کو چھوڑ کر ہم پر حملہ کرنے کے ارادے سے مورچہ بنانے لگیں۔ یہ دیکھ کر ہم سب سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے اتفاق کی بات کہ ہم اس سمت میں دوڑے جدھر مرے ہوئے بھینسے کا رخ تھا۔ کوئی سو گز دور جانے کے بعد ہمیں درخت کی ٹوٹی ہوئی ایک موٹی شاخ پڑی نظر آئی جس پر خون کے بڑے بڑے خشک دھبّے تھے۔ اس شاخ سے چند فٹ کے فاصلے پر لمبی گھاس میں ایبا کی رائفل پڑی پائی گئی۔ رائفل کے چیمبر میں ایک کارتوس تھا ایک کارتوس کا خول گھاس پر پڑا پایا گیا۔ اردگرد کی زمین کا اچھی طرح معائنہ کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ایبا کو کسی انسان نے نہیں مارا بلکہ اسی جنگلی بھینسے نے مارا تھا، کیونکہ یہاں ایبا کے اور جنگلی بھینسے کے قدموں کے نشان پاس پاس دکھائی دیے۔ ایبا نے جنگلی بھینسے کو گولی ماری تھی اور یہ گولی یقیناً بھینسے کے پیٹ میں لگی، کیونکہ پیٹ سے نکلے ہوئے گاڑھے خون اور پانی کے بڑے بڑے دھبے وہاں موجود تھے۔ اب میں نے اس حادثے کی کڑیاں یوں ملائیں کہ ایبا نے اپنے کھودے ہوئے گڑھے کے پاس کھڑے ہو کر جنگلی بھینسے پر گولی چلائی۔ گولی نشانے پر لگی اور بھینسا زخمی ہو کر بھاگ نکلا۔ ایبا نے اس کا تعاقب کیا۔ بھینسا فوراً جھاڑیوں میں چھپ کر اس کا انتظار کرنے لگا۔ ایبا جوش و خروش میں جب اندھا دھند قریب آیا تو جنگلی بھینسے نے اس پر حملہ کر دیا ۔ ایبا کو دوسرا فائر کرنے کی مہلت ہی نہ ملی۔ بھینسے نے سینگ مار کر اسے فضا میں پھینکا۔ وہ درخت کی اس ٹوٹی ہوئی شاخ سے ٹکرایا جو ایبا کے ساتھ ہی نیچے آن گری اور وہ اس میں دب گیا، لیکن ہمت کر کے اپنے کھودے ہوئے گڑھے کی طرف رینگنے لگا۔ مگر وہاں پہنچتے پہنچتے اس کا دم نکل گیا۔ تھوڑی سی تلاش کے بعد مختلف جگہوں پر گرے ہوئے کارتوس بھی دستیاب ہو گئے۔
ابھی ابیا جیسے بہادر شخص کی دردناک موت کا غم تازہ تھا کہ ایک اور عظیم حادثہ پیش آیا۔ چند روز بعد کا ذکر ہے کہ میں اپنے خیمے میں بیٹھا قہوہ پی رہا تھا کہ کپتان رچی کے آنے کی اطلاع ملی۔ میرا ماتھا ٹھنکا کہ وہ یک لخت کسی پروگرام کے بغیر کس طرح آ گیا۔ کپتان رچی نے آتے ہی مجھ سے کہا، ‘یار قصہ یہ ہے کہ ایک یورپین شہزادہ اس علاقے میں شکار کے لیے آ رہا ہے۔ مجھے ہدایات ملی ہیں کہ اس کی رہنمائی کے لیے کسی تجربہ کار اور مشّاق شکاری کا اتنظام کروں۔ میری نظر انتخاب تم پر پڑی ہے۔ معاوضہ معقول ملے گا۔ اگر ارادہ ہو تو میں شہزادے کو تمہاری منظوری کی اطلاع بھجوا دوں؟’
میں نے جواب دیا۔ ‘اس شرط پر شہزادے کے ساتھ شکار پر جا سکتا ہوں کہ وہ بے چون و چراں میرے حکم کی تعمیل کرے گا۔ میں اسے جنگل میں شہزادہ ہرگز نہیں سمجھوں گا۔ اس قسم کے لوگ حماقت اور اناڑی پن کا خوب مظاہرہ کرتے ہیں۔’
کپتان رچی میری رضامندی پر خوش ہو گیا۔ میں نے بھی یہ کہا کہ شہزادے کے ساتھ ایک یا دو آدمی جنگل میں جا سکتے ہیں۔ زیادہ آدمیوں کو میں برداشت نہیں کروں گا۔ قصہ مختصر ایک ہفتے بعد شہزادے صاحب تشریف لے آئے۔ میں اس وقت بعض مصلحتوں کی بناء پر یہ نہیں بتاؤں گا۔ کہ وہ کس ملک کے شہزادے تھے۔ خدا جانے کس ذاتِ شریف نے انہیں افریقہ کے جنگلوں میں شیروں اور ہاتھیوں کا شکار کھیلنے کا مشورہ دیا تھا۔ شکار کی ابجد سے بھی وہ ناواقف تھے۔ البتہ خوبصورت لیکن ہلکے اسلحے کی خوب ریل پیل تھی۔ بیک وقت چار چار بندوقیں پستول چُھرے اور رائفلیں ان کے ساتھ ساتھ چلتی تھیں۔ ان کے ساتھ کافی آدمی تھے۔ مگر میں نے کہا کہ صرف ایک یا دو شخص جنگل میں شکار پر جا سکتے ہیں۔ باقی لشکر کیمپ میں رہے گا۔ شہزادے صاحب کا منہ چڑھا ایک افریقی ملازم تھا۔ جو اپنے آپ کو بہت بڑا شکاری سمجھتا تھا۔ لیکن حقیقت یہی تھی کہ وہ بھی اس معاملے میں اپنے آقا کی طرح کورا ہی تھا۔ اعشاریہ 416 کی رائفل بہت ہی مناسب تھی لیکن جہاں تک گینڈے یا جنگلی بھینسے کا تعلق ہے اس رائفل کی وقعت ایک کھلونے سے زیادہ نہ تھی۔ میں نے شہزادے سے کہا کہ یہ رائفل ہلکی ہے آپ کو اعشاریہ پانچ سو کی رائفلیں پاس رکھنا چاہیے تھیں۔ مگر وہ ایک خذۂ استہزاء سے فرمانے لگے کہ، ‘ہم نے انہی ہلکی رائفلوں سے خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ہزاروں ہی شیر، گینڈے اور ہاتھی مار ڈالے ہیں جنگلی بھینسے کی تو حیثیت ہی کیا ہے۔’
میں نے جل کر کہا، ‘پھر تو آپ کی شاگردی کر لینی چاہیے۔’ یہ سن کر وہ مسکرائے اور مزید لاف زنی سے باز رہے۔
رات کو ہم جب شہزادے صاحب کے عظیم کارناموں کی تفصیل خود انہی کی زبان سے سن رہے تھے تو دفعتہً جنگل شیر کی گرج سے گونج اٹھا۔ شہزادے صاحب چونک کر آواز سننے لگے۔ پھر بولے، ‘شیر کہیں قریب ہی گھوم رہا ہے ایسا نہ ہو کہ رات ہم سو رہے ہوں اور وہ بے خبری میں ہم پر آن پڑے۔‘ میں ان کی بدحواسی پر ہنسی نہ روک سکا۔ اس سے پیشتر کہ میں کچھ کہتا میرا عزیز ترین افریقی دوست کراگانو جو ماسائی قبیلے کا مشہور و معروف نیزہ باز شکاری تھا، بول پڑا۔
‘بوانا۔۔۔۔ (جناب) یہ شیر اس وقت بہت دور ہے۔ آپ اطمینان سے سو جائیں۔ وہ ادھر نہیں آئے گا۔ شیر جنگلی بھینسوں کے علاقے میں نہیں آتا۔’
‘یہ کون ہے؟’شہزادے نے کراگانو کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔
‘جناب، یہ شخص ماسائی قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ ان کی بہادری اور تجربے کے بارے میں یہ سن لیجئے کہ یہ لوگ صرف نیزے سے شیر کو مار ڈالتے ہیں اور یہ شخص خود کئی شیروں کو مار چکا ہے۔’
‘نیزے سے؟’ شہزادہ چلّایا۔’ میں کبھی نہیں مان سکتا۔’
‘میں آپ کو ماننے پر مجبور کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ البتہ حقیقت یہی ہے۔’
‘اچھا، کل اس شخص کا امتحان ہوگا۔ اگر یہ اس میں کامیاب رہا تو ہم اسے رائفل انعام میں دیں گے۔’
دوسرے روز علی الصبح ہمارا چار افراد پر مشتمل مختصر سا گروہ شیر کی تلاش میں نکل گیا۔ مارمینٹ جنگل کے جنوبی حصّے میں شیروں کی بستی تھی اور اس حصے تک پہنچنے کے لیے ہمیں سات میل کا ایک لمبا چکر کاٹنا پڑا۔ کراگانو حسبِ معمول نیزے سے مسلح تھا۔ میرے پاس اعشاریہ 500 کی رائفل اور شہزادے اور افریقی ملازم کے پاس وہی اعشاریہ 416 کی تین رائفلیں تھیں۔ یہ بات پہلے سے طے ہو چکی تھی کہ شیر پر اس وقت فائر کیا جائے گا جب شکاری کے بچنے کی امید نہ ہو۔ سہ پہر کے تین بجے تھے کہ ہم جنوبی حصے میں پہنچ گئے۔ تھکن کے مارے سبھی کے چہرے پژ مردہ اور بجھے بجھے تھے۔ خاص طور پر شہزادے صاحب کی حالت تو ابتر تھی۔ بیچارے کا سانس پھولا ہوا تھا۔ اسے کیا معلوم ہم شیروں کے رہنے کی حدود میں داخل ہو چکے تھے اس لیے ہر قدم پھونک پھونک کر کر رکھنا پڑتا تھا۔ کراگانو نیزہ سنبھالے اور ڈھال بائیں کندھے سے لٹکائے سب سے آگے تھا۔ میں نے دیکھا کہ اس کا چہرہ آنے والے مقابلے کے تصوّر سے تانبے کی مانند تپ رہا تھا۔ اس کے گہرے سیاہ رنگ کے اندر سے ابھرتی ہوئی یہ سرخی بہت ہی خوفناک معلوم ہوتی تھی سورج کی تیز دھوپ کا اس جنگل میں گزر نہ تھا۔ لمبی لمبی گھاس کے ایک وسیع و عریض قطعۂ زمین کو طے کرتے ہوئے یکایک کراگانو رک گیا اور نیزہ سر سے بلند کر کے سب کو رکنے کا اشارہ کیا۔ اس کی چمکتی ہوئی نظریں پچاس گز دور ایک خاص مقام پر جمی ہوئی تھیں۔ شہزادے اور اس افریقی نوکر نے رائفلیں سنبھال لیں اور چوکنّے ہو کر چاروں طرف دیکھنے لگے۔ میں نے کراگانو سے پوچھا، ‘تم رک کیوں گئے؟’
‘کیا آپ نہیں دیکھتے کہ جنگل کے بادشاہ کی مخصوص بو اس علاقے میں پھیلی ہوئی ہے۔’ کراگانو نے بھرّائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔ یہ کہہ کر اس نے کمر سے بندھا ہوا شکاری چاقو نکالا اور اس کا دستہ زور زور سے ڈھال پر مارتا ہوا ایک وحشیانہ جوش سے آگے بڑھا۔ شہزادے نے حواس باختہ ہو کر مجھ سے کہا: ‘اس پاگل کو روکو۔ اگر گھاس میں شیر چھپا ہوا تو وہ ایک دم حملہ کرے گا۔ یہاں تو بھاگنے کی بھی جگہ نہیں۔’ میں نے فوراً جواب دیا: ‘جناب آپ بھاگنے آئے ہیں یا شیر کا شکار کھیلنے؟ ذرا حوصلے سے کام لیجیے ورنہ نقصان کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔ آپ کراگانو کو آگے جانے دیجیے۔ شیر سے وہ خود نمٹ لے گا۔’
اتنے میں سامنے کی لمبی گھاس زور سے ہلی اور شیر یک لخت ناراض ہو کر غرایا۔ اس کے آرام میں اس وقت خلل پڑا تھا۔ شیر کی آواز سنتے ہی میں بھی خبردار ہو گیا۔ ادھر شہزادے اور اس کے افریقی ملازم نے بھی رائفلیں تان لیں۔ میں نے دیکھا کہ فرطِ خوف سے شہزادے کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور وہ ادھر اُدھر درختوں کا جائزہ لے رہا تھا کہ خطرے کے وقت کس درخت پر چڑھنا آسان رہے گا۔ کراگانو جوں جوں آگے بڑھتا جاتا تھا شہزادے کا رنگ متغیّر ہوتا جا رہا تھا۔ مجھے دل ہی دل میں ‘ہز ہائی نس’ کی بہادی پر ہنسی آ رہی تھی۔ اس شخص نے اپنے کارنامے سنا سنا کر ہمیں عاجز کر دیا تھا اور اب کیفیت یہ تھی کہ بار بار پناہ کی جگہ ڈھونڈتا تھا۔ شیر یکایک ایک ہولناک گرج کے ساتھ گھاس کو چیرتا ہوا باہر نکلا۔ میری طبیعت اسے دیکھتے ہی خوش ہو گئی۔ وہ افریقی نر شیروں کے حسن کا شاندار نمونہ تھا۔ اس کی گردن پر سیاہ بالوں کا ایک زبردست گچّھا شاہانہ تاج کی شکل میں لپٹا ہوا تھا اس وقت وہ مقابلے کے موڈ میں قطعاً نہ تھا۔ دو تین مرتبہ وہ غرّا کر واپس گھاس میں غائب ہو گیا۔ کراگانو چلّایا، ‘جلدی کرو صاحب میرے پیچھے آؤ۔۔۔۔ ہم اسے گھیر لیں گے۔’ یہ کہہ کر وہ دوڑا۔ اس کے تعاقب میں مجھے بھی جانا پڑا۔ شہزادہ اور اس کا افریقی نوکر بھی مجبوراً میرے ساتھ چلے۔ شیر کے پنجوں کے نشان دیکھتے ہوئے ہم ایک میل اور آگے بڑھے۔ اب ہم جنگل کے خشک اور پتھریلے حصے میں آ چکے تھے جہاں خار دار گھنی جھاڑیاں قدم قدم پر راستہ روکے کھڑی تھیں لیکن شیر ان میں سے اس طرح نکل جاتا تھا جیسے پانی میں مچھلی تیرتی ہے۔ کئی بار وہ ہماری رائفلوں کی زد میں آیا، لیکن یہ تو پہلے ہی طے ہو چکا تھا۔ کہ شیر پر فائر نہیں کیا جائے گا۔ وہ بار بار رکتا، مڑ کر ہماری جانب اپنی چمکتی آنکھوں سے دیکھتا اور غرّا کر پھر دوڑنے لگتا۔ آخر ایک پہاڑی درّے میں جو آگے سے بند تھا وہ خودبخود رک گیا۔
شام کے سائے جنگل میں پھیلنے لگے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ آج رات ہمیں اس جنگل میں اسی پہاڑی پر بسیرا کرنا ہوگا۔ کیمپ بہت دور تھا اور رات کو اس بھیانک جنگل میں سے گزرنا ناممکن سی بات تھی۔ کراگانو نے ہمیں چٹانوں پر چڑھ جانے کا اشارہ کیا۔ شیر اس وقت اپنے آپ کو محبوس پا کر زور زور سے گرج رہا تھا۔ وہ مضطرب ہو کر اپنے دائیں بائیں فرار ہونے کا اپنے سینے کے آگے کیے بت کی مانند بے حس و حرکت کھڑا تھا۔ میں نے چلّا کر کہا ‘کراگانو فکر نہ کرو میں پوری طرح مستعد ہوں۔’ یہ اشارہ پاکر ایک خودکار مشین کی طرح اس کا دایاں ہاتھ فضا میں بلند ہوا، نیزے کی لمبی تیز دھار والی انّی ڈوبتے سورج کی نارنجی شعاعوں میں چمکنے لگی۔ پھر وہ باوقار انداز میں شیر پر نطریں جما کر ایک قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھا اس لمحے شیر کے اشتعال اور غیض و غضب کی کوئی انتہا نہ تھی۔ اس کی دُم تیزی سے گردش کر رہی تھی اور جبڑا نہایت بھیانک انداز میں کھلا ہوا تھا۔ جس میں دو طرفہ لگے ہوئے بڑے بڑے نوکیلے دانت اپنے حریف کی بوٹیاں اڑا دینے پر آمادہ تھے۔ کراگانو جب شیر سے دس گز دور رہ گیا تھا تو دفعتہً شیر نے گردن جھکائی اس کا بھاری پیٹ زمین کو چھونے لگا۔ نہایت جوش میں وہ اپنے پنجوں سے زمین کھود رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے شعلے برس رہے تھے۔ ایک ہولناک گرج کے ساتھ وہ اچھلا اور کراگانو کی طرف آیا۔ فوراً ہی نیزہ بجلی کی مانند کراگانو کے ہاتھ سے نکلا اور شیر کی گردن میں پیوست ہو گیا۔ شیر قلابازی کھاکر پییچھے الٹ گیا۔ لیکن گرتے گرتے بھی اس نے ایک دوہتڑ کراگانو کے سر پر مارا۔ اس نے فوراً ڈھال آگے کر دی۔ شیر کا پنجہ ڈھال پر پڑا اور وزنی ڈھال کراگانو کے ہاتھ سے چھوٹ کر پلاسٹک کے کھلونے کی طرح دور جا گری۔ ماسائی شکاری کے نیزے کی انّی شیر کی گردن سے پار ہو گئی۔ شیر نے ایک اور چھلانگ لگائی اور کراگانو کو نیچے گرا دیا۔ اب ان میں باقاعدہ زور آزمائی ہونے لگی۔ چند ہی سیکنڈ میں درندہ اور انسان خون لت پت ہو چکے تھے۔ کراگانو نے شیر کو پچھاڑ کر اپنا چاقو اس کے سینے میں اتار دیا تھا۔ اس کے بعد وہ خود مردے کی طرح شیر کی لاش ڈھیر ہو گیا۔ میں دوڑتا ہوا گیا اور اپنے دوست کو کھینچ کر شیر سے پرے ہٹا دیا۔ دفعتہً شیر نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ خدا کی پناہ۔۔۔۔۔ اس کی آنکھیں کبوتر کے خون کی مانند سرخ ہو گئیں۔ اس نے مجھ پر حملہ کرنے کے لیے جست لگانا چاہی، مگر اسی لمحے اس کی جان نکل گئی۔ اگر ایک منٹ اور لگتا تو میں شیر پر گولی چلا کر اس کی کھال خراب کرنے کا قصور وار گردانا جاتا۔
وہ رات ہم نے اسی پہاڑی پر آگ جلا جلا کر بسر کی۔ کراگانو کے زخم زیادہ مہلک نہ تھے۔ رات کے پچھلے پہر تک وہ اچھی طرح ہوش میں آ چکا تھا۔ شہزادے نے وعدے کے مطابق اسے اپنی رائفل دی اور اس کی بہادری پر اچھے الفاظ میں تبصرہ کیا۔ صبح ہم نے شیر کی کھال اتاری اور کیمپ کی طرف سے لوٹے۔ راستے میں دوپہر کے وقت جب ہم پانچ میل کا سفر طے کر چکے تھے، یکایک شہزادے نے اسی گز دور ایک بھاری بھرکم جنگلی بھینسے کو دیکھا۔ اس نے فوراً اپنی رائفل سے نشانہ لیا اور میرے روکنے کے باوجود فائر کر دیا ۔ میں نے دیکھا کہ گولی کھاتے ہی بھینسا گرا۔ ابھی ہم اس طرف متوجہ ہوئے ہی تھے کہ ایک دوسرا بھینسا جھاڑیوں میں سے نکلا اور ہمارے قریب سے نکل گیا۔ شہزادے نے ایک اور فائر جھونک دیا۔ گولی اس دوسرے بھینسے کے پیٹ میں لگی۔ مگر اس دفعہ وہ گرا نہیں بلکہ چیختا ہوا مسلسل بھاگتا رہا اس کے قدموں کی دھمک دیر تک سنائی دی۔ میں نے کراگانو سے کہا کہ آؤ اس کا تعاقب کریں۔ مگر شہزادے نے اصرار کیا کہ وہ بھی ہمارے ساتھ جائے گا۔ وہ کہتا تھا: ‘یہ بھینسا تو میں خود ہی ماروں گا۔’ اس کی ضد کے آگے مجھے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ ابھی ہم بھینسے کے تعاقب میں پندرہ بیس گز ہی گئے تھے کہ وہ جھاڑیوں میں کھڑا دکھائی دیا۔ میں نے شہزادے کو دکھانا چاہا، مگر کم بخت کی نظر کمزور تھی سامنے کھڑا ہوا بھینسا نظر آیا۔ بھینسے نے ہمیں دیکھ لیا اور وہاں سے بھی بھاگ نکلا۔ اب ہم گھنی جھاڑیوں میں سے گزر رہے تھے۔ کراگانو حسبِ معمول سب سے آگے بھینسے کے قدموں کے نشان دکھاتا جاتا تھا۔ اس کے پیچھے میں اپنی رائفل سنبھالے چل رہا تھا۔ میرے تو پیچھے شہزادہ اور اس کے ساتھ افریقی رائفل بردار ملازم آ رہا تھا۔ یہ جھاڑیاں اتنی گھنی اور بلند تھیں کہ ان کے پار کچھ بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔ شہزادہ اس بھاگ دوڑ سے فوراً اکتا گیا اور کہنے لگا: ‘واپس چلو۔۔۔۔۔ میرا دل گھبرا رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خوفناک حادثہ پیش آنے والا ہے۔’
اس کے یہ الفاظ سن کر مجھے غصہ آیا کہ عجیب بیوقوف آدمی سے پالا پڑا ہے۔ میں اب زخمی بھینسے کو کسی قیمت پر بھی چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ میں نے کراگانو اور شہزادے کے افریقی نوکر سے کہا کہ وہ جہاں کھڑے ہیں۔ وہیں کھڑے رہیں۔ بھینسے کا ہرگز تعاقب نہ کریں اور گولی نہ چلائیں۔ سختی سے یہ ہدایات دے کر میں نے شہزادے کو ساتھ لیا اور دائیں جانب ذرا کھلے میدان میں لے گیا۔ میرا ارادہ تھا کہ اس بزدل کو کسی محفوظ جگہ پہنچا کر بھینسے کے تعاقب میں نکل جاؤں گا۔ ایک مناسب سی جگہ شہزادے کو چھپا کر میں نے کہا: ‘آپ یہیں ٹھہریے میں ان دونوں کو بھی بلا لاتا ہوں۔’ یہ کہتے ہی میں واپس ہو گیا۔ ابھی میں تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ بھینسے کے ڈکرانے اور چیخنے کی آوازیں میرے کان میں آئیں۔ ان آوازوں کو سنتے ہی میرا دل دہل گیا۔ کیونکہ یہ آوازیں بھینسا اس وقت نکالتا ہے جب وہ اپنے حریف پر حملہ کرنے کے لیے بالکل آمادہ ہو۔ اس کے بعد میں نے گولی چلنے کی آواز بھی سنی۔ آہ۔۔۔ غضب ہو گیا۔ بھینسے نے کراگانو اور اس کے ساتھی پر حملہ کر دیا تھا۔ یہ سوچتے ہی میں دیوانہ وار اچھلتا کودتا اور پھلانگتا ہوا بھاگا۔ جونہی آخری جھاڑی چیر کر میں اس مقام پر نمودار ہوا تو ایک دہشت ناک منظر میرے سامنے تھا۔ کراگانو بیہوش زمین پر پڑا تھا اور بھینسا اپنے دونوں پیروں کے بل زمین پر جھکا ہوا کراگانو کے جسم میں مسلسل سینگ گھونپ رہا تھا۔ اس وحشیانہ فعل میں یہ موذی جانور اس درجہ مشغول تھا کہ اس نے میری آمد کا کوئی نوٹس نہ لیا۔ جب میں اس سے صرف پانچ گز کے فاصلے پر رہ گیا تو دفعتہً وہ مجھے دیکھ کر اچھلا اور میری جانپ لپکا۔ اسی لمحے میری بھاری رائفل سے شعلہ نکلا اور گولی بھینسے کے شانے میں پیوست ہوگئی۔ گولی کھاتے ہی بھینسا پیچھے ہٹا اور یکایک آگے کی جانب سے دھم سے گر پڑا۔ اس کے وزنی جسم کا نصف حصّہ کراگانو کے اوپر پڑا ہوا تھا۔ میں نے بدحواس ہو کر کراگانو کی ٹانگیں پکڑیں اور اسے گھسیٹ کر بھینسے کے نیچے سے نکالنے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر بے سود۔ پھر میں نے چلّا چلّا کر شہزادے کو آوازیں دیں۔ تھوڑی دیر بعد شہزادہ دوڑتا ہوا ادھر آیا۔ اس کا چہرہ دہشت سے سفید تھا۔ ہم دونوں نے بڑی مشکل سے کراگانو گھسیٹ کر علیحدہ کیا۔ خدا کی پناہ۔۔۔۔۔ اس کا جسم خون میں لت پت تھا۔ کئی زخم بہت گہرے تھے۔ بازوؤں کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی اور انگلیاں بھینسے نے چبا ڈالی تھیں۔ شاید کراگانو کا ہاتھ اس کے منہ میں آ گیا تھا۔
میں نے اپنے سفری تھیلے میں سے سرنج نکالی اور مارفیا کا ایک انجکشن اسے لگایا تاکہ درد کی شدت کم ہو۔ چند منٹ کے اندر اندر وہ اچھی طرح ہوش میں آ چکا تھا۔ آنکھیں کھولتے ہی اس کے منہ سے جو الفاظ نکلے وہ یہ تھے، ‘کیا رائفل بردار مر چکا ہے؟ اگر نہیں مرا تو مجھ میں ابھی اتنی قوت ہے کہ پہلے اسے جہنم رسید کروں۔’
کراگانو کے بیان کے مطابق اس سارے حادثہ کا ذمہ دار وہی شہزادے کا افریقی ملازم تھا۔ دراصل وہ اپنا کارنامہ دکھانے کے لیے دیر سے مضطرب تھا میرے وہاں ٹلتے ہی وہ بھینسے کے قدموں کے نشان دیکھتا ہوا آگے بڑھا۔ کراگانو نے اسے روکنے کی کوشش کی، مگر اس نے سنی ان سنی کر دی اور مسلسل ان قدموں کے پیچھے چلتا رہا۔ تھوڑے فاصلے پر اس نے دیکھا کہ بھینسا زمین پر بے حس و حرکت پڑا ہے۔ یہ بیوقوف بڑا خوش ہوا۔ پھر اپنی کارگزاری دکھانے کے لیے رائفل سے اس ‘مرے’ ہوئے پر ایک فائر بھی جھونک دیا۔ رائفل کا دھماکہ ہوتے ہی بھینسا پورے جوش سے اچھلا اور اس کی طرف لپکا۔ یہ بدحواس ہو کر کراگانو کی طرف بھاگا۔ لیکن بھینسے نے اسے راستے ہی میں جا لیا اور ایک ٹکر اس زور سے ماری کہ یہ گر کر دوبارہ نہ اٹھ سکا۔ یہ تمام واقعہ اتنی سرعت سے پیش آیا کہ بیچارہ کراگانو اپنا نیزہ بھی استعمال نہ کر سکا۔ اس سے پیشتر کہ وہ اپنے بچاؤ کی کوئی تدبیر سوچتا غیظ و غضب سے بھرا ہوا زخمی بھینسا کراگانو کو بھی زمین پر لٹا چکا تھا۔
کراگانو کے دائیں ہاتھ کوئی اٹھارہ فٹ کے فاصلے پر رائفل بردار کی لاش پڑی تھی۔ اس کی زبان دانتوں میں بھنچ کر کٹ گئی تھی۔ گردن دو جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھی۔ بھیسنے کی ٹکر نے اسے پانی بھی نہیں مانگنے دیا۔ جب میں نے کراگانو کو بتایا کہ رائفل بردار مرا پڑا ہے تو اس جان کنی کےعالم میں بھی اس کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ میں نے اور شہزادے نے کراگانو کو کندھوں پر اٹھایا اور کیمپ کی طرف لوٹے۔ اس کی حالت دم بدم ابتر ہوتی جا رہی تھی۔ میں کوشش کے باوجود اسے بچا نہ سکا۔ کاش بروقت کوئی ڈاکٹر میّسر آ جاتا تو یقیناً اس کی قیمتی جان بچا لیتا لیکن قریب ترین ڈاکٹر بھی اس بھیانک جنگل سے ایک سو میل کے فاصلے پر تھا۔۔۔ تکلیف کے باعث رہ رہ کر اس کے منہ سے گھٹی گھٹی سی چیخیں نکل رہی تھیں۔ میں نے ایک جگہ رک کر اسے پانی پلانا چاہا مگر پانی حلق میں نہ جا سکا۔ منہ کے دونوں کناروں سے بہہ گیا۔ مرتے ہوئے بھی ماسائی شکاری نے اپنی دیرینہ روایات ترک نہ کیں۔ وہ واقعی پیدائشی شکاری تھا۔ جب ہم ایک جگہ رُکے تو بارش شروع ہو گئی۔ اسی اثنا میں ایک ہاتھی ادھر آ نکلا۔ ہاتھی دیکھتے ہی کراگانو کے چہرے پر رونق آ گئی۔ اس کے لب پھڑپھڑائے جیسے کچھ کہنا چاہتے ہوں۔ میں اپنا کان اس کے منہ کے پاس لے گیا۔ وہ نحیف کپکپاتی آواز میں بولا:
‘بوانا۔۔۔۔ اس کے دانت کتنے قیمتی ہیں۔۔۔ آپ اسے شکار ضرور کریں۔’ اسی رات میرا دوست کراگانو۔۔۔۔ جس نے میری شکاری زندگی بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور سینکڑوں مرتبہ میری جان بچائی تھی، میرے بازوؤں میں دم توڑ گیا۔ تاہم مجھے مسرت ہے کہ جب وہ مرا تو اس کا جسم خون میں لت پت تھا۔ اور اس کا نیزہ بھینسے کے شانے میں اترا ہوا تھا۔ وہ صاف ستھرے اور بے داغ نیزے کے ساتھ کبھی مرنے کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا۔