یہ ایک وحشی اور پاگل ہاتھی کی داستان ہے، جس کے بارے میں آج تک یہ پتہ چل سکا کہ وہ اچانک اِنسانی جانوں کا کیوں دشمن بن گیا تھا اور وہ کون سا حادثہ تھا جس نے اس ہاتھی کو اس قدر مشتعل کر دیا کہ وہ بے دریغ انسانوں کو ہلاک کرتا رہا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ حکومتِ ہند بھی اِس قاتل ہاتھی کے مظالم کی روک تھام پر مجبور ہوگئی۔ یہ تقسیمِ ہند سے بہت پہلے کا قِصّہ ہے اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے۔ 03 کی بات ہے، ضلع مدراس میں گرہنٹی نام کا ایک چھوٹا سا قصبہ واقع ہے، جس کے قریب بانس کا ایک گھنا جنگل میلوں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ہاتھی اپنے قبیلے کے دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ اِسی جنگل میلوں تک پھیلا ہوا ہے، یہ ہاتھی اپنے قبیلے کے دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ اِسی جنگل میلوں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ہاتھی اپنے قبیلے کے دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ اِسی جنگل میں رہتا تھا۔ ہاتھی فِطری طور پر رحم دل اور امن پسند حیوان ہے اوراس کے بارے میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ بلا وجہ دوسروں کو نقصان نہیں پہنچاتا، لیکن اگر اسے تنگ اور پریشان کیا جائے تو وہ نہایت خطرناک بلکہ جان لیوا دشمن ثابت ہوتا ہے۔ پھر بچّے بوڑھے، عورت مرد کسی میں تمیز نہیں کرتا، وہ ہلاکت و بربادی کا ایک طویل سلسلہ شروع کر دیتا ہے، جو عرصے تک ختم ہونے میں نہیں آتا۔ بعض اوقات ایک پاگل ہاتھی نے بستیوں کی بستیاں اجاڑ کر رکھ دیں ہیں۔ میں آپ کو جس ہاتھی کا قِصّہ سنا رہا ہوں، وہ بھی ایسا ہی تھا، جنگل کا نِگران آفیسر، جو ان دنوں گرہنٹی میں مقیم تھا۔ اِس ہاتھی کے پاگل ہونے کی اس اس واقعے کی بنیاد پر شہادت دیتا تھا کہ ایک رات اس نے جنگل میں دو ہاتھیوں کے لڑنے کی آوازیں سنیں، وہ دونوں بُری طرح چنگھاڑ رہے تھے، اور ان کی چیخوں سے جنگل لرز رہا تھا۔ جب وہ زمین پر دوڑتے تو یہ محسوس ہوتا کہ زلزلہ سا آ گیا ہے۔ دونوں ہاتھی نہایت قوی ہیکل اور ایک دوسرے کے زبردست حریف تھے، غالباً اِن میں کِسی ہتھنی سے ‘شادی’ کے معاملے میں جھگڑا ہو گیا تھا۔ کامل تین گھنٹے تک ان میں جنگ ہوتی رہی اور یہ لڑائی بھی گارڈ آفیسر کے بنگلے کے قریب ایک تالاب کے کنارے کوئی آدھ میل کے فاصلے پر ہوئی۔ بھلا کِس کی شامت نے پکارا تھا کہ اِس وقت کوئی شخص جنگل میں اپنی آنکھوں سے اِن دو زبردست رقیبوں کی جنگ کا تماشہ دیکھنے کی جرأت کرتا۔ صبح اٹھتے ہی گارڈ آفیسر نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جنگل میں جاکر اس جگہ کا معائنہ کیا جہاں گزشتہ رات ہاتھیوں میں قیامت خیز جنگ ہوئی تھی، وہاں عجیب منظر دکھائی دیا۔ اردگرد زمین میں جا بجا گڑھے پڑے ہوئے تھے، اکثر درخت جڑوں سے اکھڑ چکے تھے، جھاڑیاں بُری طرح روندی گئی تھیں، اور پھر جمے ہوئے خون کے بے شمار بڑے بڑے دھبّے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے، جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ لڑنے والے دونوں حریف شدید زخمی ہوئے ہیں، غالباً زیادہ زخمی ہونے والا ہاتھی بعد میں پاگل ہو گیا۔
ایک بھلے چنگے صحیح دماغ ہاتھی کے پاگل ہوجانے کا ایک بڑا سبب بعض احمق اور ناتجربہ کار شکاری بھی ہوتے ہیں، جو جنگل میں ہاتھی کو دیکھتے ہی خوامخواہ اِسے پریشان کرتے ہیں یا پھر وہ بے وقوف کسان ہیں جو اپنی فصلوں کی حفاظت کے لیے ہاتھیوں کو تنگ کرتے رہتے ہیں اور انہیں یہ قطعاً یاد نہیں رہتا کہ ہاتھی اپنے حریف کو کبھی فراموش نہیں کرتا، بہرحال اسی قسم کی مختلف وجوہ ہوتی ہیں، جو ہاتھی کو بغاوت اور فساد پر اکساتے ہیں اور یہی معاملہ ہمارے اِس ہاتھی کے ساتھ پیش آیا۔ جس نے یکایک چار سو مربع میل علاقے میں اپنی وحشیانہ اور ہلاکت خیز سرگرمیوں سے دہشت پھیلا دی تھی حتیٰ کہ ایک دن وہ آیا جب اس علاقے کی تمام بستیوں کے لوگوں نے ان سڑکوں پر چلنا چھوڑ دیا جو جنگل میں سے گُزرتی تھیں۔
گرہنٹی ایک بہت مختصر اور دور افتادہ گاؤں ہے، جس کی آبادی چند ہزار نفوس پر مشتمل ہے، پہاڑی علاقے کے یہ لوگ زیادہ تر مزدور اور لکڑہارے ہیں جو بانس کے وسیع و عریض جنگلوں میں کام کرتے ہیں، اس گاؤں کے قریب سے تل ویری ندی گزرتی تھی اور یہ ندی جنوب مغرب کی طرف کوئی پندرہ میل کے فاصلے پر دریائے کاویری میں مل جاتی تھی، اسی تل ویری ندی کے کنارے دو ہاتھی رہتے تھے، گارڈ آفیسر کی روایت کے مطابق ان دو ہاتھیوں میں خونریز جنگ ہوئی تھی، جنگل کے اِس حِصّے میں ہاتھیوں کے کئی قبیلے عرصۂ دراز سے رہتے تھے، وہ شاذ و نادر ہی بستیوں کی طرف آتے اور اگر آتے بھی تو کِسی کو نقصان پہنچائے بغیر واپس چلے جاتے۔
تل ویدی ندی کے شمال میں تقریباً بارہ میل کے فاصلے پر ایک اور ندی بہتی تھی جس کا نام گولا موتی تھا۔ یہ ندی آگے جاکر دریائے کاویری کی ایک معاون ندی گندالام میں مل جاتی تھی اور ان تینوں ندیوں کو اونچی پہاڑیوں نے اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا، جن پر بانسوں کا گھنا جنگل پھیلا ہوا تھا۔ اور یہی وہ مقام تھا۔ جہاں سب سے پہلے وحشی ہاتھی نے اپنا پہلا انسانی شِکار کیا۔
گرمیوں کے موسم میں جب سورج کی حِدّت ناقابل برداشت ہو جاتی ہے، ان ندیوں کا نایاب پانی بہت جلد سوکھ جاتا ہے، البتہ وہ چھوٹے چھوٹے تالاب جن میں پہاڑی چشموں کا پانی جمع ہوتا ہے، اس لیے خشک ہونے سے بچ جاتے تھے کہ ان کے اُوپر چٹانوں اور درختوں کی وجہ سے سایہ رہتا تھا۔ اس مقام پر کسی کسی تالاب میں چھ سے آٹھ انچ تک لمبی مچھلیاں پائی جاتی تھیں، ایک دن کا ذکر ہے۔ قریبی گاؤں سے دو آدمی دوپہر کے وقت مچھلیاں پکڑنے کے ارادے سے ایک ایسے تالاب پر پہنچے جس میں پانی کم اور مچھلیاں کثرت سے تھیں، انہوں نے تالاب میں جال ڈال کر کافی مچھلیاں پکڑ لیں اس کے بعد انہوں نے مچھلیاں اپنے ٹوکروں میں رکھیں اور سستانے کے لیے وہیں ایک درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں لیٹ کر سو گئے، تقریباً شام پانچ بجے ہوں گے کہ ان میں سے ایک شخص کی آنکھ کھلی، سورج مغرب کی جانب ایک پہاڑی کے پیچھے غروب ہو رہا تھا اور شفق کی سُرخی آسمان پر پھیل رہی تھی، دوسرا آدمی بے خبر سو رہا تھا۔ یکایک اُس جاگنے والے شخص نے سُنا کہ اس کے عقب میں ہلکی سی آہٹ پیدا ہوئی، اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بھورے رنگ کا ایک قوی ہیکل ہاتھی جس کا قد بارہ فٹ سے بھی نِکلتا ہوا تھا، گولا موتی ندی میں گزر کر اسی تالاب کی جانب چلا آ رہا تھا۔ ہاتھی کو اپنی طرف آتے دیکھ کر اس شخص کے اوسان خطا ہو گئے، اس نے اپنے ساتھی کو جھنجھوڑ کر جگایا اور چلّا کر تاتال زبان میں کہا، ‘انائی وارادھو، انائی وارادھو۔’ جس کا مطلب تھا ہاتھی آ گیا، لیکن سونے والا یوں بے سدھ پڑا تھا کہ اٹھنے کا نام نہ لیتا تھا، ہاتھی اتنے میں اور قریب آ چکا تھا، جاگا ہوا شخص دہشت زدہ ہو کر اُٹھا اور ندی کے شمالی کنارے کی جانب بھاگتا ہوا جنگل میں جا گھسا، ہاتھی نے اسے بھاگتے دیکھ کر ایک زبردست چنگھاڑ ماری، جس سے جنگل اور پہاڑیاں لرز اٹھیں، ہاتھی کی ہولناک چنگھاڑ نے سوئے ہوئے بدنصیب شخص کو جگا دیا، وہ مبہُوت ہوکر ہاتھی کو دیکھنے لگا، اس میں اتنی جرأت بھی نہ تھی کہ اُٹھ کر بھاگتا، دوسرے ہی لمحے غصّے سے بھرے ہوئے ہاتھی نے اِس بدنصیب کو اپنی سونڈ میں جکڑ لیا، اور زمین پر مار مار کر ہلاک کر ڈالا، اس شخص کی چیخوں کی آواز جنگل میں وہاں تک پہنچی جہاں اس کا ساتھی ہاتھی سے ڈر کر چھپا ہوا تھا، چند منٹ تک چیخوں کی آواز جنگل میں گونجتی رہی اس کے بعد موت کی سی خاموشی چھا گئی۔
دو دن بعد گاؤں کے بارہ آدمیوں پر مشتمل ایک جماعت مقامِ حادثہ پر پہنچی۔ ہلاک ہونے والے شخص کی لاش کے مختلف چھوٹے بڑے ٹکڑے وہاں بکھرے پڑے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ظالم ہاتھی نے اپنا ایک پاؤں اس شخص کے اُوپر رکھ کر اسے کچلا پھر سونڈ میں پکڑ کر اس کی ایک ٹانگ اکھاڑ ڈالی اور اس کے بعد اسے ایک درخت سے ٹکرا ٹکرا کر ہلاک کر ڈالا، نہایت ہی دردناک موت تھی اور قاتل ہاتھی کا یہ پہلا انسانی شکار تھا۔
اس کے بعد دوسرا حادثہ ایک لڑکے کے ساتھ پیش آیا جو محض اپنے پھرتیلے پن کے باعث موت کے مُنہ میں جانے سے بچ گیا، شام کا وقت تھا، وہ اپنے مویشیوں کو ساتھ لے کر اسی مقام سے گزر رہا تھا، جہاں چند روز قبل ہاتھی نے مچھلی پکڑنے والوں میں سے ایک کو ہلاک کر ڈالا تھا، ندی کے قریب پہنچ کر اس نے سوچا کہ ہاتھ منہ دھونا چاہیے۔ وہ رُک گیا۔ مویشی اپنے باڑے کا راستہ پہچانتے تھے۔ اِس لیے وہ آگے بڑھ گئے، لڑکا ہنسی خوشی ندی کے پایاب سرد پانی سے کھیلنے لگا، دیر تک وہ نہاتا رہا، یکایک اس نے اپنے عقب میں ہاتھی کی چنگھاڑ سنی، لڑکا بدحواس ہوکر پیچھے مُڑا تو ہاتھی اس سے صرف پندرہ گز کے فاصلے پر تھا اور جھومتا ہوا چلا آ رہا تھا۔ اس نے نہایت وحشیانہ انداز میں اپنی سونڈ بلند کر رکھی تھی لڑکا ندی سے نکل کر پہاڑی کے طرف بھاگا۔ اتنی دیر میں ہاتھی نے ندی عبور کر لی اور لڑکے کے پیچھے بھاگنے لگا، لڑکا بے تحاشا بھاگ رہا تھا۔ راستے میں نوکیلے پتھروں اور کانٹوں سے اس کا جسم لہولہان ہو گیا، لیکن وہ ایک پہاڑی چٹان تک پہنچے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ چٹان کوئی دو سو گز اونچی تھی اور ظاہر ہے کہ ہاتھی اس سپاٹ چٹان پر نہیں چڑھ سکتا تھا، وہ بار بار بے چینی سے اِدھر اُدھر گھومتا چنگھاڑتا اور اپنے قدموں سے زمین کو کچلنے کی کوشش کرتا رہا، لڑکا سہما ہوا چٹان پر بیٹھا رہا، ہاتھی نے پھر طیش میں آکر اپنی سونڈ میں بڑے بڑے پتھر اٹھائے اور لڑکے کی طرف پھینکنے شروع کیے، لڑکا اور پرے ہٹ گیا اور چٹان کے اوپر ایک طرف آڑ میں چھپ گیا۔
ساری رات وہ ہاتھی کے خوف سے وہیں دبکا بیٹھا رہا، اس میں اتنی جرأت نہیں رہی تھی کہ چٹان سے نیچے اتر کر گاؤں کی طرف بھاگ جاتا، جو وہاں سے صِرف پانچ میل کے فاصلے پر تھا۔ دوسرے روز جب سورج طلوع ہوا تو لڑکا چپکے چپکے پہاڑی سے نیچے اترا اور اپنے گاؤں کی طرف بھاگا، اس نے یہ قِصّہ خود مجھے سُنایا، گاؤں کے بڑے بوڑھوں کا کہنا تھا کہ ہاتھی مست ہو گیا ہے، کیونکر وہ موسم ہی ایسا تھا کہ نوجوان ہاتھی مست ہوجایا کرتے تھے، یہ موسم تین ماہ تک رہتا تھا اور یہ عرصہ گزرنے کے بعد ہاتھی خودبخود اپنی طبعی حالت پر آجایا کرتے تھے۔ اس حادثے کے ایک ماہ تک اس ہاتھی کو کِسی نے نہیں دیکھا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یا تو وہ جنگل میں کِسی اور طرف نِکل گیا ہے یا اپنے قبیلے کے ہاتھیوں میں شامل ہو گیا ہے، لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا، ہاتھی وہیں جنگل میں چھپا ہوا تھا، وہ غالباً طبیعت کی ناسازی کی بنا پر اپنی کمین گاہ سے باہر نہیں نِکلا اور جونہی اس کا وحشیانہ پن عود کر آیا وہ پھر جنگل میں آیا اور اپنے شکار کی تلاش میں سرگرداں پھرنے لگا۔
گاؤں اینچتی سے آٹھ میل جنوب کی طرف ایک اور گاؤں نتراپالم ہےاور جنگل اس گاؤں کے بہت قریب ہے، ایک روز گاؤں کے دو فرد جن میں سے ایک ادھیڑ عمر شخص اور دوسرا دس سالہ لڑکا تھا۔ جنگل میں باتیں کرتے جا رہے تھے کہ دفعتہً لڑکے نے چیخ ماری اور اُلٹے پاؤں پیچھے کی طرف دوڑا، ادھیڑ عمر آدمی عالمِ حیرت میں اسے بھاگتے ہوئے دیکھتا رہا، اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یک بیک لڑکے پر یہ کیا بُھوت سوار ہو گیا ہے، وہ بے تحاشہ بھاگے جا رہا تھا، دفعتہً ہاتھی کی لرزہ خیز چنگھاڑ جنگل میں گونجی، اس شخص کو اب احساس ہوا کہ لڑکے کے بھاگنے کی وجہ کیا تھی، لیکن آہ اب کیا ہو سکتا تھا۔ دشمن اس سے صرف سو گز کے فاصلے پر تھا اور برق رفتاری سے اس طرف چلا آ رہا تھا۔ اگر اس شخص کے اوسان خطا نہ ہوتے تو وہ یقیناً اپنی جان بچا سکتا تھا۔ وہ کِسی درخت پر چڑھ جاتا۔ یا بھاگ کر سامنے کِسی پہاڑی ٹیلے پر پناہ لے لیتا مگر ہاتھی کو اپنی جانب آتے دیکھتا رہا۔ آخر اس کے حواس بحال ہوئے اور وہ چیخ مار کر پیچھے ہٹا، لیکن ایک درخت سے ٹکرا کر گر پڑا، اتنے میں ہاتھی اس کے سر پر آ چکا تھا۔ ہاتھی نے اپنی شکار کو سونڈ میں پکڑا اور اِسی درخت سے ٹکرا ٹکرا کر اس کا قیمہ کر ڈالا اور بعد میں فاتحانہ انداز میں چنگھاڑتا ہوا رقص کرتا ہوا جنگل میں اسی جانب واپس چلا گیا، جدھر سے آیا تھا۔ اس بدنصیب شخص کے کپڑوں کی دھجیاں اور گوشت کے لوتھڑے درخت کے تنے کے ساتھ چمٹے ہوئے پائے گئے۔ اس کی کھوپڑی تک ریزہ ریزہ ہو چکی تھی۔
اِس دردناک حادثے نے اس علاقے کے حکّام کو ہاتھی کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور کر دیا، اور ضلع سالم کے کلکٹر نے یہ حکم جاری کیا کہ ہر وہ شخص جس کے پاس شکار کا لائسنس ہے۔ صرف اس ہاتھی کو ہلاک کرنے کا مجاز ہے، حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ یہ حکم اِس لیے جاری کیا گیا کہ ان دنوں اس جنگل میں جانوروں کو مارنا سرکاری طور پر پر ممنوع تھا اور خصوصاً ہاتھیوں کو ہلاک کرنے کی کِسی صورت میں بھی یہی اجازت نہ تھی، کیونکہ ان کی خاص نسل اس جنگل میں ملتی ہے جسے سُرخ ہاتھی کا نام دیا گیا ہے اور یہ نسل سوائے اس جنگل کے دنیا میں کہیں اور نہیں پائی جاتی۔
اس دوران میں قاتل ہاتھی کی سرگرمیاں اور تیز ہو گئیں، اس نے محکمۂ جنگلات کی ایک بیل گاڑی پر حملہ کیا جس پر صندل کی لکڑی لدی ہوئی تھی۔ گاڑی بان کے ساتھ فارسٹ گارڈ بھی تھا، ان دونوں نے گاڑی پر لکڑی لدی ہوئی تھی۔ گاڑی بان کے ساتھ فارسٹ گارڈ بھی تھا، ان دونوں نے گاڑی سے کُود کر بمشکل جانیں بچائیں۔ لیکن ہاتھی نے ان کا بدلہ گاڑی اور بیلوں سے لے لیا، اس نے گاڑی کا ایک ایک تختہ الگ کر دیا اور دونوں بیلوں کو ٹکریں مار مار کر وہیں ہلاک کر ڈالا۔ اس کے بعد ایسا ہوا کہ انسانوں کے ساتھ ساتھ وہ مویشیوں کو بھی مارنے لگا، جنگل میں چرتی ہوئی گائیں بھینسیں، بکریاں جونہی اس کے نزدیک آتیں، زندہ واپس نہ جاتیں۔ اسی اثنا میں یہ خبر سنی گئی کہ ہاتھی نے گاؤں کے ایک پجاری کو بھی مار ڈالا ہے۔ ‘پجاری’ کی موت سے ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ گاؤں کے لوگ سے اپنا مذہبی رہنما مانتے تھے، اسی لیے وہ سب روتے پیٹتے ضلعے کے افسر کے پاس پہنچے اور فریاد کی، اس نے انہیں تسلی دی کہ حکومت نے ہاتھی کو مارنے کے لیے شکاریوں کی خِدمات حاصل کرلی ہیں اور چند روز تک اس کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔
شکاری ہونے کی حیثیت سے مجھے بھی ان حادثات سے دلِ چسپی پیدا ہوتی جا رہی تھی لیکن میری طبیعت ہاتھی کے شکار پر مائل نہ ہوتی تھی۔ میں تو آدم خور شیروں اور چیتوں کا شکاری تھا۔ اس شکار میں بہت زیادہ لذّت تھی، اس لیے میں کِسی اور جانور کا شکار کرنا بھی نہیں چاہتا تھا، لیکن جب تین ہفتوں کے بعد میرے خاص مخبر شکاری رانگا کا مجھے خط ملا۔ جو پیگرام گاؤں میں رہتا تھا تو میں اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور ہو گیا، رانگا نے خط میں لکھا تھا کہ ہاتھی ابھی چند روز پیشتر گرہنٹی سے سات میل دُور انبید ہمادو کے مقام پر ایک پجاری عورت کو ہلاک کر چکا ہے، انبید ہمادو ایک قدرتی تالاب کا نام ہے، جس میں بارش کے پانی کے علاوہ دریائے ہالا کا پانی بھی جمع ہوتا ہے دریائے ہالا اس علاقے کے قریب سے گزرتا تھا، اور آگے چل کر دریائے چنار میں شامل ہونے کے بعد دریائے کاویری میں جا گرتا تھا۔ اس تالاب کے بارے میں لوگوں میں طرح طرح کی داستانیں مشہور تھیں، یہ تالاب کافی گہرا تھا۔ اس لیے کسی موسم میں خشک نہیں ہوتا تھا۔ سچ تو یہ ہے اِس کی گہرائی کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکا۔ کہتے ہیں ایک مرتبہ جنگل سے کوئی ہاتھی اس تالاب پر پانی پینے آیا۔ لیکن اتفاق سے اس کا پاؤں پھسلا اور وہ تالاب میں گر گیا، اور پھر دوبارہ نہ نکل سکا ہاتھی بہت اچھا تیراک ہوتا ہے اور دریا میں نہایت روانی اور تیزی سے تیر سکتا ہے۔ اس میں قوتِ برداشت اور سکون برقرار رکھنے کا مادہ بھی قدرت نے بہت زیادہ رکھا ہے، لیکن تالاب میں گرنے والا ہاتھی اس وجہ سے باہر نہ نکل سکا کہ اس کے اِردگرد نوکیلی اور پھسلوان چٹانیں تھیں، وہ جب اپنے بھاری جسم کے ساتھ ان چٹانوں پر پیر رکھنے کی کوشش کرتا۔ الٹ کر دوبارہ تالاب میں جا گرتا، تین دن اور تین راتیں وہ مسلسل تالاب سے نکلنے کی کوشش کرتا رہا۔ آخر اس کے اعضاء جواب دے گئے اور وہ سینکڑوں آدمیوں کی موجودگی میں جو دُور دُور سے یہ ‘تماشا’ دیکھنے آئے تھے تالاب میں غرق ہو گیا۔
رانگا نے مجھے لکھا تھا کہ اس ہاتھی نے گرد و نواح میں سخت دہشت پھیلا رکھی ہے۔ وہ اب تک بہت سے خون کر چکا ہے اور اگر میں جلد وہاں نہ پہنچا تو ہاتھی بستیوں کی بستیاں ویران کر دے گا۔ میں جانتا ہوں کہ رانگا ایک سچّا آدمی ہے۔ اِس نے جو اطلاع دی ہے وہ یقیناً صحیح ہوگی۔ اس تاثر کے پیش نظر میں نے چار روز کی رخصت لی، اپنی موٹر میں بیٹھ کر پینگرام پہنچا، وہاں سے رانگا کو ساتھ لیا اور جنگل میں سے گزرنے والی سڑک کے ذریعے 18 میل کا سفر طے کر کے گرہنٹی کے ڈاک بنگلے میں جا ڈیرہ جمایا۔ اسی روز گرہنٹی کا فارسٹ گارڈ ملنے کے لیے آیا، اس نے بتایا کہ آج کل ہاتھی اس علاقے میں پھر رہا ہے۔ اِس کے علاوہ دس اور ہاتھی بھی اسی جنگل میں دیکھے گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ بنگلے سے تھوڑی دور ہی پانی کا ایک بہت مختصر سا تالاب تھا سب ہاتھی پانی پینے وہیں آیا کرتے تھے اور انہی میں غالباً وہ ہاتھی تھا، جس سے ہمارا سابقہ پڑنے والا تھا۔ اب سوال یہ تھا کہ ہاتھیوں کے اس گروہ میں اس ہاتھی کو شناخت کیسے کیا جائے؟ سرکاری طور پر اس ہاتھی کا جو حلیہ بیان کیا گیا تھا وہ مبہم اور غیر تسلی بخش تھا۔ اس میں صِرف اتنا درج تھا کہ ہاتھی کا قد آٹھ فٹ اور رنگ سیاہ ہے۔ بھلا اس سے کیا خاک شناخت ہو سکتی تھی؟ اس میں شبہ نہیں کہ غسل کے بعد ہاتھی کی کھال کا رنگ سیاہ ہی نکل آتا ہے لیکن اکثر ریت میں لوٹ لگانے کا عادی ہوتا ہے اور جنگل کی مٹی اور دریاؤں کی ریت بھی مختلف رنگوں کی ہوتی ہے، کہیں سُرخ، کہیں بھوری اور کہیں خاکی اور کہیں کہیں سیاہ البتہ ہاتھی کو شناخت کرنے کا سب سے اچھا ذریعہ اس کے دو بیرونی دانت ہوتے ہیں یہ دانت ہر ہاتھی کی انفرادیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں، یہ مسئلہ گارڈ نے حل کیا اس نے بتایا کہ ہاتھی کے بیرونی دانت تین تین فٹ لمبے ہیں، اور ان دانتوں کے سرے ایک دوسرے کو قطع کرتے ہیں، ان علامات کی مدد سے اسے پہچان لینا ایسا مشکل نہ تھا، قِصّہ مختصر اسی رات کوئی دس بجے کے قریب میں نے بنگلے کے تالاب پر ہاتھیوں کے چنگھاڑنے کی آوازیں سنیں، وہ پانی پینے کے لیے آئے تھے، تھوڑی دیر تک ہاتھی چنگھاڑتے رہے اور پھر آہستہ آہستہ ان کی آوازیں دور ہوتی چلی گئیں۔
منہ اندھیرے ہی میں نے رانگا اور فارسٹ گارڈ کو اپنے ساتھ لیا اور تالاب پر پہنچ گیا، تالاب کے اردگرد دور دور تک کیچڑ تھا، جس میں ہاتھیوں کے قدموں کے نشانات بہت گہرے تھے۔ بعض بہت بڑے، بعض درمیانے اور بعض چھوٹے تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ بوڑھے، جوان اور کم عمر سبھی قِسم کے ہاتھی یہاں آئے تھے۔ تالاب کے اردگرد کی زمین کا جائزہ لیتے ہوئے دفعتہً مُجھے ایک نئی بات معلوم ہوئی، ہاتھیوں کا یہ گروہ جو رات کو پانی پینے آیا تھا۔ اس کے قدموں کے نشانات تالاب کے بائیں جانب تھے اور وہ اِسی طرف سے آئے تھے، لیکن دائیں جانب صرف ایک ہاتھی کے قدموں کے نشانات تھے جو غالباً اکیلا ہی واپس چلا گیا۔ میرے دِل نے فوراً کہا یہ اِسی بدمعاش ہاتھی کے قدموں کے نشانات ہیں جس نے انسانی خون سے ہولی کھیلنا اپنا معمول بنا لیا ہے۔
اب ہم تینوں ان نشانات کے تعاقب میں روانہ ہوئے، آگے آگے رانگا، اس کے پیچھے میں، اور میرے پیچھے فارسٹ گارڈ، میرے ہاتھ میں میری پُرانی رفیق اعشاریہ 500/400کی دو نالی رائفل تھی اور فارسٹ گارڈ کے ذمّے یہ کام لگایا گیا تھا کہ وہ پیچھے کا دھیان رکھے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہاتھی چکّر کاٹ کر ہمارے عقب میں آ جائے اور ہم پر حملہ کر دے، تھوڑی دُور تک تو ہم آسانی سے ان نشانات کے پیچھے پیچھے چلتے رہے لیکن پھر ایسا ہوا کہ راستہ نہایت پچیدہ اور دشوار گزار ہوتا چلا گیا۔ خاردار جھاڑیاں اور لمبی لمبی سخت گھاس قدم قدم پر ہماری راہ روک رہی تھی، حتیٰ کہ ہمارے کپڑے پھٹنے لگے تاہم ہاتھی کا سُراغ پانے کی تمنّا ہمیں اس تکلیف دہ سفر پر مجبُور کرتی رہی، اِسی طرح ہم کانٹوں سے الجھتے، جھاڑیوں کو چیرتے اور لمبی گھاس میں سے راستہ بناتے ہوئے ایک میل تک چلے گئے، یہاں ایک چھوٹی سی ڈھلوان پہاڑی جنگل میں دکھائی دی، جِس کے چاروں طرف بانس کے موٹے موٹے اور اونچے درخت اُگے ہوئے تھے۔ ہاتھی اِس پہاڑی پر آسانی سے چڑھ کر بانس کے اِس گھنے خطے کو عبور کر چکا تھا، کیونکہ وہاں ہم نے نہ صرف اس کے قدموں کے نشانات پائے بلکہ کئی درخت اکھڑے ہوئے بھی دیکھے، ہاتھی نے بعض مقامات پر بانس کے پودوں کی نرم نرم شاخیں بھی چبائی تھیں۔ اس مقام پر پہنچ کر ہم سستانے کے لیے تھوڑی دیر رکے، ویسے بھی یہاں ہمیں اپنی رفتار ہلکی کرنی ہی پڑتی تھی کیونکہ بانس کا یہ جنگل نہایت خطرناک اور گھنا تھا، سستانے کے بعد ہم آگے بڑھے دو تین فرلانگ کا فاصلہ اور طے کیا۔ جنگل میں کبھی کبھار طوطوں یا دوسرے پرندوں کے بولنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں یا وہ بندر تھے جو پہاڑی کے دوسری جانب چیخ رہے تھے، کئی بار رُک کر ہم نے ہاتھی کی آواز سننے کی کوشش کی کہ شاید وہ بانس کے پودے کھا رہا ہو یا آرام سے آنکھیں بند کئے کہیں کھڑا ہو۔ اس صُورت میں اِس کے سانس لینے کی آواز بھی سنائی دے جاتی تھی۔
اب چلتے چلتے ہم ایک اونچے مقام پر پہنچ چکے تھے اور وادی کا منظر دور تک ہمارے سامنے پھیلا ہوا تھا۔ ہم نے چاروں طرف خُوب غور سے دیکھا۔ مگر ہاتھی کا کہیں نام و نشان نہ تھا، البتہ اس کے قدموں کے نِشانات بتاتے تھے کہ وہ اس طرف آیا ضرور ہے۔ ہاتھی کا سُراغ لگائے بغیر اب واپس جانا سراسر حماقت تھی۔ پس خدا کا نام لے کر ہم آگے بڑھے، دو سو گز کے فاصلے پر ہمیں ایک ندی ملی جس کا پانی خشک ہو چکا تھا اور اب صرف دلدل باقی رہ گئی تھی، ہاتھی اس ندی کے درمیان سے گزر کر دوسری جانب گیا تھا۔ ندی کا دوسرا کِنارا اتنا اونچا تھا کہ ہم اس کے پار کچھ نہ دیکھ سکتے تھے، ہمیں اب یقین تھا کہ ہاتھی ضرور کہیں قریب ہی ہے۔ نہایت آہستہ آہستہ ہم اس ندی میں اترے، ہمارے پاؤں ٹخنوں تک کیچڑ میں دھنس گئے بڑی مشکل سے قدم اٹھاتے ہوئے ہم ندی کے پار پہنچے اور پھر رانگا نے ذرا اوپر ہو کر جھانکا تو ہاتھی وہاں نہ تھا، البتّہ اس کے قدموں کے نِشانات موجود تھے۔ اردگرد بانس کے چند نرم نرم پودے بھی بکھرے مِلے، جن سے پتہ چلتا تھا کہ وہ یہاں بھی تھوڑی دیر رکا تھا۔ اب ہم نے ذرا تیز تیز چلنا شروع کیا۔ ابھی ہم نے چوتھائی میل کا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ یکایک رانگا ٹھہر گیا اور اس نے منہ پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا، ہم سب دھڑکتے دلوں کے ساتھ کان لگا کر کھڑے ہو گئے، ہاتھی کے خراٹوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔
میں نے رانگا اور فارسٹ گارڈ کو املی کے ایک مضبوط درخت پر چڑھنے کی ہدایت کی اور خود زمین پر لیٹ کر اس آواز کی جانِب رینگنے لگا، ہاتھی بانس کے گھنے درختوں میں لیٹا ہوا آرام کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس کے خراٹوں کی آواز بھی بلند ہو گئی، جس کا مطلب تھا کہ بے خبر سویا ہوا ہے، نہایت احتیاط اور سکُون سے ایک، ایک انچ سرکتا ہوا میں اسی جانب بڑھتا گیا، ہاتھی کی قوتِ شامہ غضب کی ہوتی ہے اور مُجھے خدشہ تھا کہ اگر ہوا کا رُخ اس کی جانِب ہوا تو وہ ضرور میری بُو سونگھ لے گا لیکن خوش قِسمتی سے اس وقت ہوا بالکل بند تھی، کوئی تنکا تک ہلتا دکھائی نہ دیتا تھا۔ میں بے خوفی سے آگے بڑھتا گیا۔
بھورے رنگ کا ایک نہایت قوی الجثّہ ہاتھی میری جانب پیٹھ کیے اطمینان سے محوِ خواب تھا، اب میں سخت کشمکش میں مبتلا ہو گیا، ہاتھی پر بغیر شناخت کیے فائر کرنا بیکار سی بات تھی، شناخت صرف دو طریقوں سے ہو سکتی تھی، یا تو میں ایک لمبا چکر کاٹ کر دوسری جانِب جاؤں اور ہاتھی کا چہرہ اور اس کے دانت دیکھوں یا اسے کسی طرح جگاؤں تاکہ وہ پلٹ کر میری جانِب دیکھے۔ دوسری صُورت اگرچہ خطرناک تھی، مگر اب خطرہ مول لیے بغیر کوئی چارہ نہ تھا، میں ایک درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا اور زور سے سیٹی بجائی، میرا خیال تھا کہ ہاتھی چونک کر اٹھے گا، مگر وہ تو بے خبر سو رہا تھا۔ یا ممکن ہے اس نے سوچا ہو کہ یہ سیٹی کسی پرندے کی آواز ہے، میں نے اس مرتبہ اپنے حلق سے ایک چیخ نکالی۔ ہاتھی بجلی کی مانند اپنی جگہ سے اٹھا اور گھوم کر میری جانب دیکھنے لگا، اس کے بڑے بڑے کان تیزی سے حرکت کرنے لگے۔ میرے اندازے کے مطابق اس کا قد دس فٹ سے بھی نکلتا ہوا تھا۔ کس قدر شاندار اور خوب صورت جانور تھا۔ اس کے بیرونی دانت صُبح کی سنہری دھوپ میں چمک رہے تھے، لیکن یہ دیکھ کر میری مایوسی کی انتہا نہ رہی کہ اس کے دانتوں کا درمیانی فاصلہ زیادہ تھا اور یہ وہ ہاتھی نہیں تھا جِس کی مجھے تلاش تھی۔
اب قصّہ سنیے کہ نیند سے یکدم چونکا ہوا ہاتھی ایک لمحے تک حیرت زدہ میری طرف تکتا رہا۔ اس کی آنکھوں اور چہرے سے ناراضگی کا صاف اظہار ہو رہا تھا۔ غالباً وہ دِل ہی دِل میں مُجھے کوس رہا تھا کہ اس بدبخت نے خواہ مخواہ نیند حرام کی، پھر یکایک وہ دو تین قدم آگے بڑھا، اس کی چال میں جارحانہ انداز تھا۔ میں خدا جانے اس قِسم کے کتنے ہاتھیوں کو دیکھ چکا تھا۔ نہایت اطمینان سے میں نے ایک اور سیٹی بجائی، ہاتھی رک گیا، پھر وہ مڑا اور دم ہلاتا ہوا تیزی سے جنگل میں بھاگ گیا۔ دیر تک میں اس کے دوڑنے اور درختوں کی ٹہنیاں چٹخنے کی آوازیں سنتا رہا۔
جب میں واپس آیا تو رانگا اور فارسٹ آفیسر کو املی کے درخت کے نیچے کھڑا ہوا پایا۔ غالباً وہ بھی یہ سوچ کر اتر آئے تھے کہ جس ہاتھی کی تلاش تھی وہ نہیں مِلا ہم تینوں منہ لٹکائے ہوئے واپس ہوئے۔ راستے میں کسی نے ایک دوسرے سے بات چیت بھی نہ کی، تھکن کے زیرِ اثر ہم تینوں کی طبیعتیں نہایت بیزار تھیں۔ بار بار جھنجھلاہٹ سی ہوتی تھی کہ خوامخواہ وقت ضائع ہوا کپڑے الگ پھٹے اور جسم کانٹوں سے لہولہان الگ ہوا۔
اسی روز پانچ بجے شام کا ذکر ہے کہ بنگلے کے سامنے بیل گاڑی آن کر رُکی اور اس میں سے دو مقامی باشندے اتر کر بنگلے کی طرف آئے، رانگا کو انہوں بتایا کہ وہ اینچتی سے آ رہے ہیں، وہ اب یہاں ایک رات گزارنا چاہتے تھے، باتوں باتوں میں وہ کہنے لگے، اینچتی سے نکل کر ابھی ہم چار میل ہی چلے تھے کہ گولا موتی ندی کے قریب ہم نے ہاتھی کے پیروں کے تازہ نشانات دیکھے۔ ان نشانوں سے پتہ چلتا تھا کہ یہ ہاتھی بہت بڑا ہے۔ ہم نے سن رکھا تھا کہ اِس علاقے میں ایک مست ہاتھی گھوم رہا ہے، جس نے بہت سےلوگوں کو مار ڈالا ہے، ہم نے اپنے بیلوں کو تیزی سے ہانکا، شاید ہمارے بیلوں کو بھی اس ہاتھی کی موجودگی کا احساس ہو گیا تھا۔ کیونکہ ان کی رفتار بھی خودبخود تیز ہو گئی تھی۔
یہ اطلاع میرے لیے خاصی حوصلہ افزا تھی، اگرچہ دن بھر کی مسافت کے باعث میں خُوب تھکا ہوا تھا، تاہم میں نے جُوں تُوں کرکے تیاری کی فارسٹ آفیسر کو میں نے بنگلے پر چھوڑا اور ان دو دیہاتیوں کو اپنی موٹر میں بٹھا کر اینچتی کی طرف روانہ ہو گیا۔ میری موٹر جنگل کے اندر کچّی سڑک پر معمولی رفتار سے چلنے لگی۔ دونوں دیہاتی سہمے ہوئے سے نظر آتے تھے۔ غالباً وہ دل ہی دل میں مجھے کوس رہے تھے کہ نہ ہاتھی کا ذِکر کرتے اور نہ اس مہم پر آنا پڑتا۔ سات بجے تک ہم اس مقام پر پہنچ گئے جہاں دیہاتیوں نے ہاتھی کے قدموں کے نشانات دیکھے تھے، جنگل میں ہولناک سناٹا طاری تھا اور گولا موتی ندی کا پانی پرسکون تھا۔ کار کی اگلی بتیوں کی تیز روشنی میں ہم جلد ہی یہ نشانات تلاش کر لیے، بلاشبہ یہ نشانات ان تمام نشانات سے مختلف تھے، جو میں اِس سے پہلے بنگلے کے قریبی تالاب پر دیکھ چکا تھا۔ ان نشانوں سے عیاں تھا کہ ہاتھی کو یہاں سے گزرے ہوئے تین گھنٹے سے زائد عرصہ نہیں ہوا۔ اُس کا مطلب یہ تھا کہ وہ ابھی قریب ہی ہے۔ گرمی کے موسم میں ہاتھی ہمیشہ سُورج غروب ہونے کے بعد تفریح کے لیے نکلتا ہے، عین ممکن ہے، اس نے ہماری کار کی آواز سنی ہوں یا بتیوں کی روشنی دیکھ لی ہو۔
ہوا جو تھوڑی دیر پہلے آہستہ آہستہ چل رہی تھی، یکایک تیز ہو گئی، وہ جب بانس کے درختوں کے اندر سے گزرتی تو شائیں شائیں کی سی آوازیں بلند ہوتیں۔ رانگا کے پاس بھی ٹارچ اور رائفل تھی اور میں بھی مسلح تھا۔ البتّہ دونوں دیہاتی خالی ہاتھ تھے، میں نے ان سے کہا یا تو وہ موٹر ہی میں خاموشی سے بیٹھے رہیں یا ہمارے ساتھ چلیں انہوں نے دوسری صُورت کو ترجیح دی، ہم چاروں آدمی اِن نشانات کے ساتھ ساتھ آگے بڑھے، میں سوچ رہا تھا کہ اگر اس مرتبہ بھی یہ کوئی اور ہاتھی نِکلا تو پھر کیا ہوگا؟ اب اِسی قِسم کے تجربات میں زیادہ دیر تک جان کو خطرے میں ڈالا نہیں جا سکتا تھا۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ ہاتھی نہ مِلا تو میں اپنے گھر لوٹ جاؤں گا۔ ویسے مجھے یہ اُمید تھی کہ اگر یہ وہی خونخوار ہاتھی ہے تو ضرور ہماری بُو سونگھ کر واپس آئے گا۔
ساڑھے آٹھ تک ہم مسلسل ایک قطار کی صورت میں ان نشانات کا تعاقب کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے، آگے آگے رانگا پیچھے میں اور میرے پیچھے دونوں دیہاتی۔ ذرا سا پتّہ بھی کھڑکتا تو سہم کر ادھر اُدھر تکنے لگتے تھے، مُجھے اپنی اس حماقت کا احساس ہوا کہ میں ان بیچاروں کو خواہ مخواہ اپنے ساتھ لایا۔ یکایک ہم سے کوئی چار پانچ سو گز کے فاصلے پر ہاتھی کی زبردست چنگھاڑ جنگل میں گونجی، ہم نے فوراً بیٹریاں بجھا دیں اور درختوں کے اردگرد دبک کر کھڑے ہو گئے، اِس کے بعد گہری خاموشی چھا گئی۔ آدھے گھنٹے تک ہم سب اسی طرح بے حس و حرکت اپنی جگہ پر کھڑے رہے، پھر رانگا نے آہستہ سے کہا:
‘صاحب میرا خیال ہے ہاتھی اِن روشنیوں سے ڈر کر دُور بھاگ گیا ہے، واپس چلیے نکل۔۔۔’ ابھی فقرہ اس کے مُنہ ہی میں تھا کہ جنگل میں ٹہنیوں اور شاخوں کے چٹخنے اور ٹوٹنے کی آوازیں سنائی دیں۔ یہ آوازیں لمحہ بہ لمحہ قریب آ رہی تھیں، ہاتھی ہماری بُو پاکر ادھر ہی آ رہا تھا۔ غالباً وہ کُچھ فاصلے پر آ کر رک گیا۔ میں نے رانگا کو اشارہ کیا کہ چپکے چپکے پیچھے ہٹ چلو تاکہ ہاتھی کھلی جگہ میں آ جائے۔ ہماری گاڑی ندی کے بائیں کنارے کھڑی تھی۔ پیچھے ہٹتے ہوئے ہم ندی کے قریب پہنچ گئے، رائفل اور ٹارچ میرے ہاتھ میں تیار تھی، صرف ہاتھی کا انتظار تھا۔
آدھا گھنٹہ پھر اسی عالم میں گزر گیا، ایک بے پناہ سناٹا اور گُھپ اندھیرا کسی جانور اور کِسی پرندے کی آواز تک نہ آتی تھی، جیسے یہاں سوائے اس ہاتھی اور ہم چار انسانوں کے اور کوئی ذی رُوح موجود نہیں، دیہاتیوں کو میں نے کار میں چُھپ جانے کی ہدایت کی اور رانگا کو کار کے عقب میں کھڑا کر دیا۔ اس کے بعد میں نے جانور کو اپنے قریب بلانے کا پرانا حربہ استعمال کیا، یعنی اونچی آواز میں اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا، مجھے یقین تھا کہ میری آواز ہوا کے دوش پر تیرتی ہوئی ہاتھی کے بڑے بڑے کانوں سے ٹکرائے گی اور وہ جوشِ غضب میں اس جانب دوڑنے لگے لگا۔ یہ حربہ کارگر ثابت ہوا، ہاتھی نے پھر ایک چنگھاڑ ماری۔ اس مرتبہ اس کی آواز ندی کے دائیں کنارے سے آئی تھی، یہ لمحہ ایسا نازک اور پُرخطر تھا کہ کبھی فراموش نہیں ہو سکتا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہاتھی ہمیں دیکھ چکا ہے اور اب سوچ رہا ہے کہ کِس رُخ سے حملہ کیا جائے۔ میں نے رانگا کو اشارہ کیا کہ وہ دائیں جانِب دھیان رکھے اور میں خود ندی کے بائیں کنارے کی نگرانی کرنے لگا۔ ایک مِنٹ، دو منٹ، پانچ منٹ، دس منٹ، بیس منٹ، آدھا گھنٹہ، ایک گھنٹہ اسی جان کنی کے عالم میں گُزر گیا۔ ہاتھی خدا جانے کہاں تھا، بلکہ مجھے تو یہ شک بھی ہوا کہ ہاتھی سرے سے جنگل میں موجود ہی نہیں مگر۔۔۔۔ چنگھاڑنے کی آوازیں۔۔۔۔۔۔
دفعتہً رانگا کی ٹارچ سے روشنی کا دائرہ نِکلا اور پھیلتا ہوا دور تک دائیں جانب چلا گیا۔ مہیب ہاتھی جو اس وقت بالکل ایک سیاہ پہاڑ کی مانند دکھائی دیتا تھا۔ ہم سے صِرف پچاس گز کے فاصلے پر تھا۔ وہ اپنی سونڈ کو نہایت اضطراب سے اُوپر نیچے حرکت دے رہا تھا اور پھر میں نے دیکھا کہ اِس کے دونوں دانت سروں پر سے ایک دوسرے کو قطع کر رہے ہیں۔ ہاتھی نے طیش کے عالم میں ایک ہولناک چیخ ماری اور رانگا کی جانب دوڑا۔ ادھر میری رائفل سے شعلہ نِکلا اور گولی ہاتھی کے بائیں کندھے میں لگی، لیکن اس دیو پیکر مست ہاتھی پر ایک گولی کیا اثر کرتی۔ چشم زدن میں وہ رانگا کے سر پر جا پہنچا، رانگا بدحواسی میں پیچھے بھاگا اور ندی میں جا گرا۔ میں نے اس دوران میں دوسرا نشانہ لیا۔ اور فائر کر دیا، لیکن بدقسمتی سے نشانہ خطا ہو گیا۔ رائفل کی نالی پر لگی ہوئی ٹارچ ایک دم بُجھ گئی، ہاتھی کی چیخوں اور چنگھاڑنے شورِ محشر برپا کر دیا تھا۔ اس اندھیرے میں مَیں نے یہ دیکھا کہ وہ موٹر کے پاس جا پہنچا ہے اور اس پر اپنی سونڈ پھیر رہا ہے، موٹر کے اندر بیٹھے ہوئے دونوں دیہاتی حلق پھاڑ پھاڑ کر چلّا رہے ہیں، اِتنی دیر میں ٹارچ روشن کر کے میں نے بیک وقت دو اور فائر کیے۔ اس مرتبہ گولیاں ہاتھی کے حلق میں لگیں وہ ایک طرف کو جُھکا مگر پھر سنبھل گیا۔ اور اسی لمحے دونوں دیہاتی موٹر سے نکل کر ندی کی جانِب دوڑے اور اس میں چھلانگیں لگا دیں، رانگا اب میرے پاس پہنچ چکا تھا۔ وہ اپنی رائفل اور ٹارچ وہیں ندی میں پھینک آیا تھا۔ ہاتھی نے اپنے شکار کو ہاتھ سے جاتا دیکھا تو پلٹنے کی کوشش کی مگر اب وہ اتنا زخمی ہو چکا تھا کہ بار بار ایک جانب کو جھکا جاتا تھا۔ اِس مرتبہ میری رائفل سے ایک اور گولی نکلی، اور اس کی پیشانی میں پیوست ہو گئی، ہاتھی کے حلق سے ایک ایسی دلدوز چیخ نِکلی کہ میں سہم کر بُت کی طرح بے حس و حرکت ہو گیا۔ بانس کے درختوں کو اکھاڑتا ہوا وہ بے تحاشا جنگل کے اندر بھاگا۔ پانچ منٹ تک اس کی چیخوں کی آوازیں آتی رہیں۔ میں نے اس کا تعاقب کرنا مناسب نہ سمجھا۔ دیہاتیوں کے اوسان خطان ہو چکے تھے اور وہ غریب تھرتھر کانپ رہے تھے، ان کے کپڑے پانی میں شرابور اور کیچڑ سے لَت پَت تھے، ان سب کو موٹر میں بٹھایا اور گاؤں کی طرف چل دیا۔
گرہنٹی پہنچ کر میں نے دیہاتیوں کو رانگا کے سپرد کیا اور خود بستر پر لیٹ کر میٹھی نیند سوگیا۔ آنکھ اس وقت کھلی جب رانگا ہاتھ میں چائے کی کیتلی لیے میرے سرہانے کھڑا تھا۔ ناشتے سے فارغ ہوکر کوئی ساڑھے چھ بجے کے قریب ہم دونوں پھر گولا موتی کی طرف چل کھڑے ہوئے۔ دِن کی روشنی میں کار نے یہ فاصلہ بہت جلد طے کر لیا۔ ندی کے دائیں کنارے پر جہاں تک نِگاہ جاتی تھی، خون ہی خون پھیلا ہوا تھا۔ گاڑھا سُرخ خون جو اب خشک ہو رہا تھا۔ اور جس رُخ ہاتھی فرار ہوا تھا وہاں تمام راستے پر جھاڑیوں میں جابجا خون کے بڑے بڑے دھبے ویسے موجود تھے اور کہیں کہیں تو خون کا یوں چھڑکا ہوا تھا جیسے کِسی ے بکرے کو ذبح کیا ہو۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بھاگتے وقت وہ دم لینے کے لیے کئی جگہ رُکا تھا۔ کئی درختوں کے تنے بھی خون میں لت پت تھے۔
دو میل تک خُون کے ان دھبوں کو سُراغ لگانے کے بعد ہم نے ہاتھی کو تلاش کر لیا۔ وہ ایک درخت کے تنے کے ساتھ تِرچھا، گھٹنوں کے بل جھکا ہوا تھا، وہ اس وقت تک زندہ تھا کیوں کہ ہماری آہٹ پا کر اس نے بمشکل اپنی گردن اٹھائی اور ہمیں دیکھا، مگر کوشِش کے باوجود اپنے جسم کو حرکت نہ دے سکا۔ خون کی بہت بڑی مقدار خارج ہوجانے کے باعث وہ بے حد کمزور اور نحیف ہو چکا تھا جیسے برسوں کا بیمار ہو۔ میں اس کے قریب آ گیا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں سُرخ تھیں اور ان میں بھی بے پناہ چمک باقی تھی۔ پھر میں نے آہستہ سے اپنی رائفل سیدھی کی۔ اس کی پیشانی کا نشانہ لیا۔ ہاتھی مجھے تکتا رہا شاید وہ جان گیا تھا کہ اب اس کا آخری وقت آ گیا ہے۔ اس کا پہاڑ جیسا جسم ایک بار تھرتھر کانپا۔ بڑے بڑے کان پھڑپھڑائے اور پوری ہمت جمع کر کے وہ دو قدم آگے بڑھا جیسے حملہ کرنا چاہتا ہو۔ اسی لمحے میری رائفل سے گولیاں نکلیں اور ہاتھی کا بھیجہ اڑاتی ہوئی نِکل گئیں، وہ دھڑام سے زمین پر گر پڑا۔
اگرچہ اس واقعے کو کئی برس گُزر گئے ہیں، مگر گرہنٹی کا یہ ہاتھی مُجھے آج بھی یاد ہے جس نے نہایت اِستقلال اور بہادری سے اپنی جان دے تھی۔