آندھی چلی تھی، تیز، بہت تیز۔۔ ہوا کے بدن میں بھوت اتر کر لڑ رہے تھے۔ ہلکے ہلکے جھونکے، جھکّڑوں میں بدل کر، چنگھاڑ چنگھاڑ کر، ایک دوسرے پر وار کرتے، آپس میں گتھم گتھا ہوتے۔۔ اڑ رہے تھے۔ اڑنے کے دوران ہر اس چھوٹی بڑی چیز کو اڑا رہے تھے، جو ان کی زد میں آتی۔ پیڑ، پکھیرو، جھوپڑ، چھپر، چھت، ستون، کھمبے اور آدم زادوں کا پھیلا ہوا کاٹھ کباڑ۔۔جس سمے میں نے اس کو بلندی سے نیچے گرتے دیکھا، آندھی تھم کر غبار کی صورت فضا میں آویزاں ہو گئی تھی۔ سیاہ و سپید دھند کا آمیزہ ساجو دکھاتا کم اور چھپاتا زیادہ یا۔۔ نیم خواب نیم بیداری کی ملی جلی کیفیت۔ ایسی کیفیت جس کا رشتہ اس ماحول سے، اس فضا سے یا خود میرے اندرون سے تھا۔ اصل معاملہ یا مسئلہ یہی تھا کہ سب کچھ غیر واضح تھا۔ اگر کچھ صاف اور واضح تھا تو اس کا گرنا تھا۔ عمارت کی وہ چھت جس پر چلتے ہوئے، کافی بلندی سے وہ نیچے گری تھی، ابھی نیم تعمیر حالت میں تھی۔ پہلا سوال تو یہ پیدا ہو رہا تھا کہ شام کے جھٹ پٹے میں وہ ہسپتال کی چھت پر کیا کر رہی تھی؟ یہی سوال میرے اپنے بارے میں پیدا ہو سکتا تھا کہ میں وہاں اس سمے کیوں موجود تھا؟ یہ دونوں سوال بعد کی پیداوار تھے، جو وقوع پذیر ہو رہا تھا، وہ یہ تھا کہ میں دوڑ رہا تھا، اس چھت پر جو پوری طرح بنی بھی نہیں تھی۔ اس پر دوڑ نا تو رہا ایک طرف چلنا بھی آسان نہیں تھا لیکن میں چھلانگیں لگاتا اور ہر رکاوٹ کو پھلانگتا ہوا اس نیم پختہ زینے کی جانب جلد سے جلد پہنچنا چاہ رہا تھا جو مجھے نچلی منزلوں تک لے جا سکتا تھا، تاکہ اس تک پہنچ سکوں۔ وہ جو میری نظروں کے سامنے چوتھی منزل کی چھت سے نیچے گر پڑی تھی، اگرچہ میں جانتا تھا کہ جب تک میں نیچے پہنچوں بہت تاخیر ہو چکی ہو گی۔ پھر بھی میں یہ چاہتا تھا کہ زینہ جلد آ جائے، لیکن زینے پر قدم رکھتے ہی مجھے احساس ہو گیا کہ میں غلط زینے پر تھا۔ یہ وہ زینہ نہیں جس پر چڑھ کر میں ہسپتال کی چھت پر آیا، اپنے یار انجینئر راجا اکرم سے ملاقات کرنے، جس کے بارے میں نیچے اطلاع ملی تھی کہ وہ چھت پر ہو سکتا تھا۔ جیسے ہی میں زینے سے راہداری میں پہنچا، مجھے معلوم ہو گیا کہ میں ہسپتال کی عمارت کی پشت پر نرسوں کی اپارٹمنٹ کی عمارت میں اتر پڑا تھا۔ دوڑتا ہوا جب میں ایلیویٹر کی جانب گیا تو دو نرسیں چیختی چلاتیں میرے پیچھے دوڑیں۔ پتہ نہیں کیوں وہ فوراً ہی رک بھی گئیں ؟ میں آرام سے ایلیویٹر کے ذریعے نیچے اتر گیا۔ نیچے انتہائی ناساز گار حالت کا سامنا تھا۔ شور ہی شور تھا۔ راستے پر ایک ٹریکٹر کھڑا تھا جو رکا ہونے کے باوجود شور کر رہا تھا۔ کسی اللہ کے بندے کے ذہن میں یہ خیال نہیں آ رہا تھا کہ اس کو بند کر دے۔ قدرے فاصلے پر فولادی سریوں سے لدا ہوا ایک ٹرک کھڑا تھا، جس کے باہر دو آدمی کسی معاملے پر بلند آواز میں بحث کر رہے تھے۔ ان دونوں سے قطع نظر کر کے میں اس نرس کی جانب گیا جو شاید ہسپتال کے شعبہ حادثات سے آ رہی تھی۔
’’اس کا کیا ہوا جو چھت سے گری تھی’‘ میں نے رسمی ہائے ہیلو سے درگزر کرتے ہوئے نرس سے دریافت کیا۔ نرس نے مجھے اس طرح دیکھا جیسے وہ میرے سوال کو سمجھنے سے قاصر ہو۔ ’’چھت سے گری تھی۔ کس چھت سے گری تھی؟’‘ اس سے پہلے کہ نرس کا سوال مجھ سے جواب کا طالب ہو، میں آگے دوڑ گیا۔ شعبہ حادثات کی کھڑکی پر ایک جوان نرس فون پر بات کر رہی تھی۔ دوسری سے جو قدرے بوڑھی تھی، میں نے چھت سے گرنے والی کی بابت دریافت کیا۔ وہ بھی ایسی بن گئی جیسے اس پورے واقعے سے لاعلم ہو۔
’’لیزا ذرا سنو، یہ صاحب کیا پوچھ رہے ہیں ؟’‘ بوڑھی نرس نے جوان نرس کو مخاطب کیا۔ ’’کیا پوچھ رہے ہیں ؟’‘ جوان نرس نے سوال دہرایا۔ ’’یہ کسی کو پوچھ رہے ہیں جس کو انہوں نے ہسپتال کی چھت سے نیچے گرتے دیکھا تھا؟’‘ بوڑھی نرس نے میرے سوال کو طنزیہ انداز میں نشر کیا۔ ’’ہسپتال کی چھت سے تو کوئی نیچے نہیں گرا۔ ‘‘ اچانک نہ جانے کس کونے سے ایک وارڈ بوائے نمودار ہوا اور بولا۔ میں جو غم زدہ تھا، اس کے لئے ذہنی اور دلی کرب میں مبتلا تھا، اس وارڈ بوائے پر پھٹ پڑا۔ اگر کاؤنٹر کیبن کی نیم دیواری درمیان میں حائل نہ ہوتی تو میں اس وارڈ بوائے کا منھ نوچ لیتا۔
’’ظالمو! بے دردو!تم سب نے اس معاملے کو دبانے کی سازش کر رکھی ہے۔ مجھے سچ بتا دو۔ میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔ ہسپتال کو بدنام نہ ہونے دوں گا۔ جاؤ اپنے ایڈمنسٹریٹر سے بولو، ایک بندہ ہے جو ہر طرح کے فارم پر دستخط کرنے کے لئے تیار ہے۔ میں یہ بیان دینے پر بھی راضی ہوں کہ وہ چھت سے نہیں گری تھی بلکہ میں اسے سڑک سے اٹھا لایا تھا۔ میں سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اس کے لئے۔ اپنی جان بھی دے سکتا ہوں۔ مجھے اس کے پاس جانے دو۔ مجھے بتاؤ تم لوگوں نے اسے کہاں چھپا رکھا ہے۔ ‘‘ میں نہ جانے کب تک اور کیا کیا بکے جاتا، اچانک میری نظریں اس وارڈ بوائے پر پڑیں جو میرے سامنے ہاتھ ملتا کھڑا تھا۔ دونوں نرسیں بھی اس کے پاس کھڑی میری جانب ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھیں جیسے میری حالت پر ترس کھا رہی ہوں۔ اس تمام دوران میں شاید روتا بھی رہا تھا اور اسی سبب سے ماحول سے بالکل بے خبر ہو گیا تھا۔ ہسپتال کی اس راہداری میں لوگ جمع ہو گئے تھے۔ میں ان کی جانب پلٹا اور گریہ کرتے ہوئے ان سے گرنے والی کے بارے میں پوچھا۔ ان لوگوں نے بھی مجھ پر ترس کھانے والی نظریں ڈالیں اور وہاں سے کھسک گئے۔ ہسپتال کی راہداری میں آگے جانا بے کار تھا۔ میں نے نیچے اتر کر ہسپتال کے صحن میں دوڑ لگا دی۔ چشم زدن میں اس جگہ پہنچ گیا جہاں اس کے گرنے کا سب سے زیادہ امکان تھا۔ میرے حساب سے اس کو عمارت کے قریبی لان میں کسی جگہ گرنا تھا۔ یا اس چھوٹے سے کیبن کی چھت پر جو دیوار کے ساتھ تھا اور جس میں مالی اپنا سامان رکھتا تھا۔ یا پھر ان چار جڑواں گیراجوں میں سے کسی ایک کی چھت پر جو ہسپتال کے چار بڑوں کی گاڑیوں کے لئے مختص تھے میں اس اسپتال کے پورے جغرافیے سے واقف تھا۔ اسی سبب سے اس تمام نواح میں پوچھ گچھ کر کے اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ معاملہ اتنا آسان نہیں رہا تھا۔ کہیں نہ کہیں کچھ غلط تھا یا غلط کیا جا رہا تھا۔ ہسپتال والے ضرور کچھ چھپا رہے تھے۔ اس کو گرتے ہوئے بہت کم آدمیوں نے دیکھا ہو گا اور ان کم آدمیوں میں سے مجھے کسی ایسے آدمی کی تلاش تھی جو زبان کھولے اور وقوعے پر روشنی ڈالے۔ یوں بھی بڑی تاخیر ہو چکی تھی۔ میں نے یہ بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ اپنے حواس پر پوری طرح قابو رکھوں گا۔ (اگرچہ میرے اندر کوئی روئے جا رہا تھا) مجھے جذباتی اور بدحواس دیکھ کر مصلحت پسندی کے مارے لوگ ترس کھا سکتے تھے، لیکن زبان نہیں کھول سکتے تھے۔ اس معاملے میں بیشتر عوامل میرے اور اس چھت سے گرنے والی کے خلاف جاتے تھے اور جیسے جیسے سمے گزرتا جاتا تھا، رات بھی آتی جاتی تھی۔ جس وقت وہ گری تھی یا میری آنکھوں نے اس کو ہسپتال کی چھت سے نیچے گرتے دیکھا تھا، شام پڑ رہی تھی، لیکن اب تو رات تھی۔ رات میں ادھر ادھر پھرنا، خواہ ہسپتال میں، ایسا فعل ہے جو ہسپتال کے نگراں عملے کی نظروں میں آ سکتا تھا۔ میں ہسپتال کی اس پوری عمارتی اکائی (Unit) کے اطراف اچھی طرح دیکھ بھال کرتے ہوئے چکر لگا چکا تھا جس کی چھت سے وہ گری تھی۔ وہ یا اس کے بدن کا نام و نشان بھی نہیں ملا۔ دل گریاں کے ساتھ میں ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ اس بینچ پر پہلے سے کوئی پراگندہ لباس، پراگندہ حال بوڑھا آدمی بیٹھا تھا۔ اس کی بھویں چوڑی، کمانی دار اور سپید تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے آنکھوں کی کھڑکیوں کے اوپر دو سپید چھجّے بنے ہوں، میں نے اس کو بس اتنا ہی دیکھا تھا کہ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا پارکنگ کی جانب چلا گیا۔ چلتے چلتے اس نے میری طرف دیکھے بِنا مجھ سے کہا۔ ’’قبرستان۔۔ ہسپتال کا قبرستان’‘ اس کے جاتے ہی، پارکنگ کے عقب سے اذان کی آواز میرے کانوں میں گونجتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس سے قبل شاید اس لئے سنائی نہیں دی کہ میں ایک ہی خیال میں گم رہا تھا۔ ’’حیّی علی الصلٰوۃ۔۔ حیّی علی الصلٰوۃ’‘ نماز کی طرف آؤ۔ نماز کی طرف آؤ۔ ’’حیّی علی الفلاح ۔۔’’حیّی علی الفلاح ‘‘ فلاح کی طرف آؤ۔ فلاح کی طرف آؤ۔ میں بینچ سے اٹھا اور ہسپتال کی مسجد کی طرف روانہ ہو گیا یا اس کی جانب جس کی جانب ہر مشکل میں سارے آدم زاد رجوع ہوتے ہیں، یہ میں نہیں بتا سکتا۔ وضو بنا کر نماز میں شریک ہوا اور نماز کے بعد مسجد میں پوچھ گچھ کی۔ نمازیوں میں زیادہ تعداد ان کی تھی جو بیمار تھے یا بیماروں کے رشتے دار اور احباب تھے، میں نے ہر چہرے کو دعا کرتا ہوا پایا۔ ہسپتال آدمی کو جتنا خدا کے قریب کر دیتا ہے کوئی عبادت گاہ شاید ہی اتنا قریب کرے۔ چھت سے گرنے والی کے بارے میں پوچھ گچھ بیکار گئی۔ نمازی بھی جلدی میں تھے، مسجد سے نکل کر میں نے سوچا ’’ اب ایک ہی راستہ تھا اور وہ راستہ راجا اکرم کی طرف جاتا تھا۔ ایک مرتبہ پھر اس سے ملنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ شاید وہی میری مدد کرے۔ ‘‘
مسجد سے باہر آ کر ایک بار پھراس علاقے میں پہنچا جہاں ٹرک وغیرہ کھڑے تھے۔ فولادی سریوں والا ٹرک غائب تھا، لیکن ان دو آدمیوں میں سے جو کسی بات پر تکرار کرتے ملے تھے، ایک جو قدرے موٹا، پستہ قد، جو اپنی خشخشی موچھ اور داڑھی میں خاصا اہم اور معتبر لگتا تھا۔۔ موجود تھا، ٹریکٹر جہاں کھڑا تھا، وہیں ڈٹا ہوا تھا لیکن کسی نے اس کو بند کر دیا تھا، اس سبب سے خاموش تھا۔ میں نے اس الفربہ خواہ مخواہ معتبر سے بعد سلام راجا اکرم کے بارے میں دریافت کیا۔ راجا اکرم کا نام سنتے ہی وہ کھڑا ہو گیا اور بولا۔ ’’آپ نے ان سے ملنا ہے تو جھٹ پارکنگ کی طرف دوڑ جائیے۔ وہ ابھی ابھی ادھر گئے ہیں۔ ‘‘
ابھی اس کا فقرہ مکمل بھی نہ ہوا ہو گا، میں دوڑ پڑا۔ راجا اکرم پارکنگ کے راستے ہی میں مل گیا۔ اس کے ساتھ دو آدمی تھے، جو ٹیکنیشین لگتے تھے۔ مجھ سے رسمی علیک سلیک کے بعد اس نے کہا ’’میں گھر جا رہا تھا ۔۔ چلو کسی قریبی ریسٹوراں چلتے ہیں۔ ‘‘
’’مجھے تم سے کچھ کام ہے۔ ہسپتال کے اندر ہی بات کر لیں گے۔ ‘‘ میں نے جواب دیا۔ راجا نے میری جانب غور سے دیکھا۔ یہ انجینئر قسم کے لوگ آدمی کو پڑھ لیتے ہیں۔ امپرسنل جو ہوئے، ایک ہلکے سے اشارے سے راجا نے ان دونوں بندوں سے چھٹکارا پا لیا۔ وہ سلام کر کے رخصت ہوئے پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔
’’تیری تو بُری حالت ہے۔ کیا ہسپتال میں کوئی سیریس ہے؟’‘
’’راجا میں تو اس مطلب سے آیا تھا کہ تجھے جلد سے جلد وہ چیز پیش کروں جو خاص تیرے لئے منگوائی ہے۔ ‘‘
وہ آ گئی۔ مزہ آ گیا۔ اس خانہ ساز میں جو بات ہے وہ باہر کی مہنگی سے مہنگی شراب میں نہیں، لیکن یہ تیرے چہرے کو کیا ہو گیا ہے؟ پورے بارہ بج رہے ہیں۔ ‘‘ راجا کو تیز کلامی کی عادت تھی وہ لمبی سے لمبی بات ایک سانس میں کہہ دیتا تھا۔
’’تیری چیز آ گئی اور ۔۔ اور میری چیز چلی گئی۔ ‘‘ میں نے گریہ پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ یہ میرے روتے بسورتے چہرے نے اسے بتا دیا ہو گا کہ میں کسی بڑے دُکھ میں مبتلا ہوں۔ اس کا چربی چڑھا طبّاخی چہرہ ایک دم لٹک سا گیا۔ وہ میرا قریبی دوست تھا۔ ہم برسوں سے ایک دوسرے کے سکھ دُکھ بانٹ رہے تھے اور آپس میں بے تکلف بھی تھے۔ ’’تو پیتا بھی نہیں ۔۔ تو پھر یہ تیری چیز چلی گئی ۔۔ صاف بتا دے مرے بھائی۔ بات کیا ہے؟’‘ وہ اپنائیت سے بولا۔
’’وہ جو ہسپتال کی چھت سے نیچے گری ہے’‘ میں نے اس طرح کہا کہ میرے الفاظ ٹوٹ پھوٹ رہے تھے۔ ‘‘
’’اس ہسپتال کی چھت سے آج تک کوئی نہیں گرا۔ راجا نے اپنی بھویں اوپر اٹھا کر اور آنکھوں کو پوری طرح کھول کر اعتماد کے لہجے میں کہا۔ ’’راجا۔۔ تمہیں کیسے یقین دلاؤں۔ آج ہی، آج کی شام جب میں تمہاری تلاش میں اوپر نیم تعمیر چھت پر پہنچا۔ تم تو نہیں ملے، لیکن میں نے اپنی آنکھوں سے ۔۔ اس کو چھت سے نیچے گرتے دیکھا۔ نیچے دوڑا آیا ہر طرف دیکھا، پوچھ گچھ بھی کی۔۔ اب تم سے مدد چاہتا ہوں۔ ‘‘
’’کیسی مدد۔ ؟’‘ راجا مجسم سوال ہو گیا۔ اس کے لہجے میں اخلاص تھا۔ ’’راجا۔ مجھے یقین ہے کہ ہسپتال کی بدنامی کے خوف سے اس پورے واقعہ کو دبایا جا رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرو اور اس گرنے والی کا پتہ چلاؤ۔ ‘‘
اتنا کہہ کر میں رونے لگا اور وہ بھی آواز کے ساتھ۔۔ شاید میرے صبر اور ضبط کا بند ٹوٹ چکا تھا۔ مجھے روتا دیکھ کر راجا اکرم مجھ سے لپٹ گیا اور جب وہ علیحدہ ہوا تو میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ ’’میں ابھی پتہ چلا لیتا ہوں۔ میرے ساتھ چلو۔ دفتر کھلوائے دیتا ہوں۔ تم بیٹھ کر چاہئے پیو اور میں اس مہم پر روانہ ہوتا ہوں۔ ‘‘ گریہ سے بھرّائی ہوئی آواز میں وہ بولا۔ ’’ میں چائے وائے نہیں پی سکوں گا۔ بس تم گرنے والی کا پتہ چلاؤ، و ہاں میری طرف سے یہ وعدہ کہ ہسپتال کی بدنامی کا باعث نہیں بنوں گا۔ ‘‘ میں راجا کے پیچھے چلا۔ شعبہ تعمیرات کی چھوٹی سی خوبصورت عمارت میں اس کا دفتر تھا۔ دفتر میں ابھی تک کام ہو رہا تھا۔ دو چار آدمی ایک بڑا سا بلو پرنٹ دیکھ رہے تھے۔ سپید گاؤں میں ملبوس ایک لمبا پتلی موچھوں والا گنجا آدمی کسی نقشے پر بات کر رہا تھا۔ اس کے الفاظ میری سماعت تک پہنچ تو رہے تھے لیکن سنائی نہیں دے رہے تھے۔ راجا اکرم نے اپنا کمرہ کھلوا لیا اور میں اس کمرے کے ایک صوفے میں دھنس گیا، جو ایک کونے میں رکھا تھا۔ اس دوران اکرم باہر جا چکا تھا میری آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہ رہی تھیں۔ آنسوؤں کی ہر چھوٹی بڑی میں ’وہ‘ تھی۔ وہ جو میری نہ ہوتے ہوئے بھی میری تھی۔ ارض وسما میں بلکہ شاید پوری کائنات میں صرف اور صرف وہی تو تھی جو حقیقی معنوں میں میری تھی۔ چھت پر سے گرنے کے باوجود وہ زندہ سلامت تھی۔ اسے کچھ نہیں ہو ا تھا۔ اسے کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ ‘‘ میں نے اپنے آپ کو یقین دلایا۔ مجھے یاد آیا اس نے مجھے لکھا تھا۔ ’’ جب تک میرا حافظہ نہ جاتا رہے میں تمہیں نہیں بھولوں گی۔ ‘‘ اس نے اپنے مرنے کا نہیں لکھا تھا تو پھر وہ کیسے مرسکتی تھی۔ ؟ ’’ اسے مرنا نہیں ہے۔ مجھ سے پہلے تو ہر گز نہیں ‘‘ مجھے نہیں معلوم صوفے پر بیٹھے ہوئے روتے روتے بیہوش ہو گیا تھا یا اس کی یاد میں گم ہو گیا تھا۔ جب میں ہو ش میں آیا راجا اکرم کا چپراسی مجھ سے مخاطب تھا۔ ’’ صاحب چائے حاضر ہے۔ ‘‘ میں نے چپراسی کو دیکھا۔ وہ مجھے کسی اور دنیا سے آئی ہوئی مخلوق لگا۔ اصل بات یہ تھی کہ میں خود کسی اور دنیا میں پہنچا ہوا تھا اور چپراسی کی آواز نے مجھے اس کی دنیا میں لا ڈالا تھا۔ ’’ اللہ بخش۔ تم نے چائے بیکار ہی بنائی۔ میں نے تمہارے صاحب کو پہلے ہی منع کر دیا تھا۔ اب تم یوں کرو کہ چائے واش بیسن میں انڈیلو اور کپ دھو ڈالو۔ تمہارا بہت بہت شکریہ۔ ‘‘ میں نے چپراسی سے کہا۔ ’’ آپ شکریہ کہہ کر شرمندہ نہ کریں صاحب جی۔ میں آپ کا نوکر ہوں جی۔ خادم ہوں۔ ‘‘ چپراسی بولا لیکن اس نے چائے کا کپ رکھا رہنے دیا۔ وہ چاہتا تھا کہ ا س کا صاحب راجا اکرم کسی طرح چائے کا کپ دیکھ لے۔ اسی لمحے راجا اکرم آ پہنچا اور میرے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔ میں نے اس پر ایک نظر ڈالی۔ وہ ناکام لوٹا تھا۔
’’ ان لوگوں نے تم کو بھی کچھ نہیں بتایا۔ ظالم کمینے ‘‘
’’ یہی کہ چھت پر سے آج شام کوئی نہیں گِری۔ ‘‘
’’ اس کا مطلب ہسپتال کا ایڈ منسٹریٹر معاملے کو دبانے پر تلا ہوا ہے’‘
یہ کہہ کر میں اٹھا اور باہر جانے لگا۔ راجا اکرم میرے تیور دیکھ کر اٹھا اور میرا ہاتھ پکڑ کر بٹھا دیا۔
’’ تم کہاں چلے۔ ؟’‘
’’ اس خبیث ایڈ منسٹریٹر سے نمٹوں گا۔ ‘‘
’’ تم ہوش میں ہو۔ ؟ ہمارے پاس ایک گواہ بھی ایسا نہیں ہے جس نے اس کو چھت سے نیچے گرتے دیکھا ہو۔ ‘‘
’’میں ہوں نا۔ میں نے اسے چھت سے نیچے گرتے دیکھا تھا۔ ‘‘ یہ کہہ کر میں کسی چھوٹے بچے کی مانند رو پڑا۔ ’’ میں نے گرتے دیکھا تھا۔ اپنی جان کو۔ اپنی روح کو۔ ‘‘
’’ جب ایڈ منسٹریٹر آپ سے پوچھے گا کہ آپ کی وہ کیا لگتی تھی تو آپ اس کو یہی جواب دیں گے کہ وہ آپ کی جان تھی۔ آپ کی روح تھی۔ آپ کہتے ہیں وہ چھت سے گری تھی تو اس کو ہسپتال میں ہونا تھا اور ہسپتال والے ایسے کسی کیس سے لاعلم ہیں۔ اگر اس کے بارے میں آپ سے پوچھ گچھ کی جائے تو آپ اس کی اور اپنی شناخت درج کروائیں گے۔ ؟ مجھے یقین ہے کہ آپ ایسا کچھ بھی نہیں کریں گے۔ آپ اس کے لوگوں کا سامنا بھی نہیں کریں گے۔ آپ پر یہ الزام بھی آ سکتا ہے کہ خود آپ ہی نے اس کو چھت سے دھکا دیا یا کسی کو اس کام پر لگایا۔ بھائی۔ کچھ دیر بیٹھو اور اس پورے معاملے پر نظر ثانی کرو۔ ‘‘
اس لمبی تقریر کے بعد وہ خاموش ہو گیا اور مجھ کو بھی خاموشی کے غار میں دھکیل دیا۔ اس غار کے اطراف سوچوں کا جنگل تھا۔ خاموشی کے غار میں خاموشی کے علاوہ وہ بھی تھی جو چھت سے نیچے گِر پڑی تھی اور جس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ اس کو آسمان کھا گیا تھا یا زمین نگل گئی تھی۔ سوچوں کے جنگل میں درندے میرے ذہن کی جانب منھ پھاڑے دھاڑ رہے تھے۔ ’’ تو اس کا کون ہے۔ ؟’‘
خاموشی کے غار کے باہر آتے ہی میں کھڑا ہو گیا۔ رات پڑے دیر ہو چکی تھی۔ میری خاطر میرا دوست راجا اکرم بھی اپنے دفتر میں رکا ہو ا تھا اور چپراسی اللہ بخش کو بھی گھر جانے میں تاخیر ہو رہی تھی میرے ساتھ ہی راجا اکرم بھی کھڑا ہوا۔ وہ سر جھکائے بیٹھا تھا اس سے جو کچھ بن پڑا وہ کر چکا تھا۔ میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو اپنے دکھ میں شریک کر لیا تھا۔ بغیر کچھ بولے اس نے میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دبایا۔ میں نے اس کی آنکھوں سے اپنی آنکھیں نہیں ملائیں اور دبی زبان میں خدا حافظ کہہ کر باہر نکل گیا۔
ہمیشہ کی طرح باہر کی دنیا معمول کی زندگی گزارنے پر مجبور کرنے پر تُلی بیٹھی تھی۔ برسوں سے یہی ہوتا چلا آیا تھا۔ چھت سے گرنے والی مجھ سے الگ کسی اور دنیا میں زندگی گزار رہی تھی۔ وہ میری ہوتے ہوئے بھی کسی اور کی ہو گئی تھی۔ ادھر میں بھی اس کا ہوتے ہوئے بھی کسی اور کا ہو گیا تھا۔ ہم دونوں کی دنیاؤں کے درمیان بڑے فاصلے اور مذہب کی سنگین دیوار حائل تھی۔ ہسپتال سے باہر نکل کر میں نے اپنی گاڑی اپنے گھر کے بجائے ایک ہوٹل کی طرف موڑ دی۔ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ گاڑی نے مجھے ہوٹل کی طرف موڑ دیا۔ گھر میں اطلاع دے دی کہ رات میں نہ آ سکوں گا۔ مزید یہ بھی کہہ دیا کہ ممکن ہے مجھے دو تین روز کے لئے اسلام آباد جانا پڑے۔ رات ہوٹل میں گزاری۔ روم سروس وغیرہ منع کرد ی اور سختی سے ہدایت کر دی کہ مجھے تنہا چھوڑ دیا جائے۔ ہوٹل کے کمرے میں بغیر معمولات شب اور بغیر کپڑے بدلے، بستر پر گر کر لحاف کے اندر چلا گیا۔ اگر میں اپنے حواس میں ہوتا تو اپنے پرائیویٹ آفس سے سفری ہینڈ کیری لے آتا جس میں ضرورت کی ہر چیز ہمہ وقت پیک رہتی تھی۔ جیسے ہی میں ہوٹل کے کمرے میں تنہا ہوا وہ میرے پاس آ گئی اور بولی۔
’’ یہ تم نے کیا حالت بنا رکھی ہے۔ ؟ اپنے آپ کو سنبھالو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں نا۔ ہمیشہ کی طرح۔۔ ‘‘ اور میں اس سے لپٹ کر دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہو گیا۔
صبح جب میں بستر سے اٹھا تو یوں لگا جیسے وہ پہلے ہی بیدار ہو کر، شاور لے کر باہر چلی گئی ہو۔ جیسے وہ میرے ساتھ ہی رہتی ہو جیسے وہ ہوٹل کا کمرہ نہ ہو بلکہ ہمارا گھر ہو۔ لیکن حقیقت میں نہیں تھا۔ میں نے دانت برش کئے، شیو کئے بنا شاور لیا۔ روم سروس والا چائے، ناشتے کو پوچھنے کے لئے آیا میں نے منع کر دیا۔ ہوٹل کاؤنٹر پر بِل ادا کر کے، روم سروس اور واش روم سروس کے بندوں کو مناسب ٹپ دیکر میں باہر نکل تو گیا لیکن گاڑی میں بیٹھنے تک یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ مجھے آگے کیا کرنا تھا۔ ؟ گھر جاؤں اور میڈیا سے یہ امید کروں کہ مجھے گھر بیٹھے خبر دے دیں۔ کم از کم اس کی گم شدگی کی خبر تو آئی ہی ہو گی یا ایک بار پھر ہسپتال جاؤں اور ادھر ادھر معلوم کروں لیکن گاڑی نے خود ہی یہ فیصلہ کر ڈالا کہ گھر کے راستے پر نہیں پڑی۔ اس کے بعد اسٹیرنگ نے گاڑی کو ہسپتال کے گیٹ کے اندر داخل کر دیا۔ گاڑی پارک کر کے میں انکوائری اور ایمرجنسی کاؤنٹر کے سامنے بے مقصد چکر لگانے لگا۔
وہاں رونق تھی۔ میں نے لوگوں پر بھی نظر ڈالی لیکن کسی پر بھی نظر نہیں رکی بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ میں شاید دیکھنے سے قاصر رہا اور جلد ہی وہاں سے نکل گیا۔ آئی سی یو وارڈس میں ایک دو نرسوں اور گارڈوں سے سر کھپا کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اس کی شباہت رکھنے والی کوئی مریضہ آئی سی یو (I.C.U) میں تو نہیں داخل تھی۔ لیکن ناکام رہا۔ نیچے اتر کر میں نے وہ فیصلہ لیا جو میں لینا نہیں چاہتا تھا۔ ہسپتال کے قبرستان جانے کا فیصلہ۔ اس فیصلے نے ایک بار پھر میری دونوں آنکھوں کو رواں کر دیا۔ میرے اندر کا سب کچھ پانی ہونے لگا۔ میرے لئے بہتر طریقۂ کا ریہ تھا کہ ہسپتال کے تیسرے گیٹ سے اندر داخل ہوں اور بیرونی دیوار کے آخری سرے پر جھاڑیوں سے بنائی ہوئی ایک باڑھ کے پیچھے پہنچ جاؤں اور میں نے ایسا ہی کیا۔ لا وارثوں کے اس قبرستان میں داخل ہو کر میں نے چاروں اور نظر ڈالی۔ السلام علیک یا اہل القبور (تم پر سلامتی ہو اے قبر والو) میں نے اپنی دین کی شریعت پر عمل کرتے ہوئے ہلکی لیکن صاف آواز میں کہا۔ اس دوران ایک جوان آدمی، دو دس، بارہ سالہ لڑکوں کے ساتھ نہ جانے کہاں سے برآمد ہو گیا۔ اس نے مجھے سلام کیا اور بولا آپ کا کوئی بندہ۔ ؟’‘ میں نے اس کو اور ان لڑکوں کو نہ دیکھتے ہوئے دیکھا اور اپنی بہ سبب گریہ بھرّائی ہوئی آواز پر قابو پا کر پوچھا۔ ’’ کسی مائی کی قبر۔ کل رات یا آج فجر والی’‘ ’’ آپ کون۔ ؟’‘ اس نے الٹا مجھ سے سوال کیا۔ مجھے اس کے اس سوال پر غصّہ آ گیا۔ ’’عجیب دنیا ہے۔ ‘‘ میں نے سوچا۔ ’’ یہاں قبروں پر بھی رشتے داروں کا اجارا ہے۔ ‘‘ اپنی مجبوری پر خود مجھے بھی ترس آنے لگا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے یہی سوال دہرایا۔ ’’ آپ کی کون۔ ؟’‘ اور خود ہی جواب دیا۔ ’’ میری سب کچھ۔ ‘‘ یہ جواب میں اس قبرستان کے مجاور کو نہیں دے سکتا تھا سو خاموش رہا۔
’’ کس کا کون۔ ؟’‘ میرے لا جواب ہو جانے کے فوراً بعد کسی نے میرے عقب سے سوال کیا۔ یہ وہی درویش تھا جس نے مجھے ’قبرستان‘ کا اشارہ دیا تھا۔ اس وقت جب میں ہسپتال میں چھت سے گرنے والی کے بارے میں پوچھتا پھر رہا تھا۔ میں نے پلٹ کر اس کو دیکھا۔ اس مرتبہ اس کے بال کھُل کر، دونوں شانوں اور پیٹھ پر لہرا رہے تھے۔ اور اس کے روشن چہرے کو اپنے احاطے میں لیکر روشن تر بنا رہے تھے۔ روشنی نے میری آنکھوں میں چکا چوند سی پیدا کر دی۔ میری نگاہیں آپ ہی آپ جھک گئیں۔ میں نے دیکھا یا محسوس کیا اس مجاور نما شخص نے اپنے دونوں ہاتھ، ادب سے پیٹ پر ناف کے قریب باندھ لئے تھے دونوں لڑکے بھی ادب کے انداز میں آ گئے تھے اگر چہ انہوں نے آنکھیں نہیں جھُکائیں۔ وہ ٹکٹکی باندھے اس درویش کو دیکھ رہے تھے۔ ’’ اسلام علیکم سائیں۔ یا علی مدد’‘ مجاور نما آدمی نے درویش کو سلام کیا۔ ’’ یا علی مدد۔ وقت شاہ بابا۔ ‘‘ لڑکوں نے بلند آواز میں کہا۔
’’ کوئی کسی کا نہیں۔ سب وقت کے ہیں ۔۔ وہ۔۔ وہ اپنا وقت بسر کر گئی۔۔ آگے اس جھاڑ کے نیچے ۔۔ مٹی اوڑھے۔ ‘‘
درویش کے الفاظ نے میرے پیروں کو متحرّک کر دیا اور میرا بدن اپنے آپ ہی ادھر بڑھا جدھر درویش نے اشارہ کیا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ مجھ سے قدرے فاصلہ رکھ کر وہ سب میرے پیچھے آرہے تھے۔
اس نئی بنی ہوئی لحد پر پھول تھے۔ ’’ ہسپتال کی انتظامیہ کی ہدایات میں قبر پر پھول ڈالنا بھی شامل ہو گا۔ ‘‘ میں نے سوچا۔ میرے اندر سے یقین کی ایک لہر اٹھی اور میرے ذہن کے صف اول میں پہنچ کر رُک گئی۔ میں اس نئی بنائی ہوئی، مٹی کی کچّی قبر کی پائنتی کھڑا ہو گیا اور بولا۔ ’’ تم ہی ہو۔ نا۔ تم نے مذہب کی بنیاد پر شادی کی در خواست (Proposal) ٹھکرا دی تھی۔ یاد ہے نا۔ میں نے تمہیں راضی کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔ میں نے تم سے وعدہ بھی کیا تھا کہ تمہیں مذہب تبدیل کرنے کے لئے کبھی مجبور نہیں کروں گا لیکن تم نے ہر مرتبہ ہنسی میں ٹال دیا تھا۔ میں نے بچوں کو مذہب اختیار کرنے کی آزادی دینے کا بھی وعدہ کیا تھا لیکن تم نہیں مانیں اور ہنستی رہیں۔ دیکھو۔ اب تم میرے مذہب کے طریقے پر دفن ہوئی ہو۔ دیکھ رہی ہو۔ ‘‘
’’ دیکھ رہی ہوں۔ لیکن میں مری ہوں اپنے مذہب پر اور اس سمے بھی ہنس رہی ہوں۔ ‘‘ وہ بولی۔ میں نے دیکھا وہ میرے سامنے کھڑی ہنس رہی تھی۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ میرے پیچھے آنے والوں کا کہیں بھی پتہ نہیں تھا۔ مجاور نما آدمی۔ اس کے دونوں لڑکے غائب ہو گئے تھے البتہ وقت شاہ فقیر کا پرچھاواں ساکھڑا تھا اور آہستہ آہستہ فضا میں تحلیل ہوتا جا رہا تھا۔
پیچھے بہت پیچھے ماورائی افق پر۔ وقت کی سُرنگ سے خلق بر آمد ہوتی جا رہی تھی۔ وقت کی سُرنگ میں خلق داخل ہو کر نظروں سے غائب ہو تی جا رہی تھی۔ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری تھا۔ برآمد ہونے کا اور غائب ہونے کا۔ وہ ہنسے جار ہی تھی اور اس کا انگ انگ، رُواں رُواں ہنس رہا تھا۔ یہ اس کے ہنسنے کا انداز تھا۔
میں اس کے ساتھ قدم بہ قدم چل رہا تھا۔
سُرنگ کے داخلی راستے کی جانب۔
آہستہ آہستہ۔ آہستہ آہستہ۔ !!