نواۓ بے نوا کوئی نہیں ہے
مگر دل بے صدا کوئی نہیں ہے
یہاں پر بے خطا کوئی نہیں ہے
مگر اس کی سزا کوئی نہیں ہے
ترے نقش قدم پر چل رہے ہیں
ہمارا نقش پا کوئی نہیں ہے
بلاؤں پر بلائیں آ رہی ہیں
مگر سر پر ردا کوئی نہیں ہے
بس اتنی ہے جہاں سے آشنائی
ہمارا آشنا کوئی نہیں ہے
سوۓ دار بقا سب جارہے ہیں
رہ بزم فنا کوئی نہیں ہے
چھپی ہیں بدلیاں بھی بادلوں میں
اندھیرا بے ضیا کوئی نہیں ہے
ہر اک منظر ہے دنیا کی نظر میں
مگر اپنا پتا کوئی نہیں ہے
وہی ہے خار زار کوۓ جاناں
ستارہ زیر پا کوئی نہیں ہے
انہی کی ذات کے اندر خلا ہے
جو کہتے ہیں خدا کوئی نہیں ہے
جو ہیں افعال اپنے رہبروں کے
چھپے ہیں سب چھپا کوئی نہیں ہے
کوئی ٹھہرے کہاں عاشق جہاں میں
یہاں مہماں سرا کوئی نہیں ہے
پیرزادہ عاشق کیرانوی