ہونے کا درخت –
مقام اور وقت کے بارے میں کچھ بھی تو واضح نہیں ہے۔ میں قطعی نہیں جانتا کہ میں کب اور کہاں پیدا ہوا۔ میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ جب میں زمین سے اوپر نکلا تو مجھ کو یہ احساس ہوا کہ زمین سے باہر آنے کے باوجود میں زمین میں پیوست ہوں۔ میری جڑیں زمین کے اندر ہیں اور میں زمین سے بندھا ہوں۔ میں نے ان کیڑوں مکوڑوں، چیونٹیوں، کیچوؤں کو جنہیں آدمی حشرات الارض کے نام سے پکارتے ہیں، زمین کے باہر اور زمین کے اندر حرکت کرتے اور رینگتے ہوئے دیکھا۔ میں نے اپنے ساتھ پیدا ہونے والے، اپنے ہم مقام اور ہم وقت جھوٹے بڑے جانداروں کو اور پرندوں کو دیکھا۔ وہ سب حرکت کرتے تھے، رینگتے تھے، اچھلتے کودتے تھے۔ بعض چلتے اور بعض ہوا میں اڑتے بھی تھے۔ میں اور مجھ سے کئی اور اپنے مقام سے حرکت کرنے پر قادر نہیں تھے۔ مجھے اس صورت حال سے بڑی مایوسی ہوئی۔۔ ’’آخر میں نے اور مجھ جیسے دوسروں نے کون سا گناہ، کون سا جرم اور کیا خطا کی تھی کہ ہمارے پاؤں زمین میں گاڑ دئے گئے اور وہ بھی تا عمر۔‘‘
میں نے سوچا۔۔ پیدائش کے دکھ کے بعد جو ہر خلق ہونے والے کو سہنا پڑتا ہے، یہ میرا دوسرا بڑا دکھ تھا، جس نے میرے وجود سے زندگی کی ساری امنگوں کو دور کر دیا تھا۔ شدید صدمے سے میں نے اپنا سر جھکا لیا۔ میرے پتے منھ لٹکا کر رہ گئے۔ میرا سینہ خمیدہ ہو گیا، میری کمر جھک گئی۔ میں نے سوچا کہ مادرِ ارض کی چھاتی سے لپٹ جاؤس اور لپٹا رہوں۔ اس وقت تک کہ مٹی کے ذرے اور کنکر پتھر میرے گنتی کے چند پتوں، نرم شاخوں، لچکدار سینے، میرے سارے ننھے منے وجود کو ڈھانپ لیں اور میں دھرتی کی امانت، دھرتی میں لوٹ کر ایک بار پھر مٹی ہو جاؤں لیکن ماں نے مجھے لیٹنے نہیں دیا اور پیار سے بولی ’’میرے ننھے منے راج دلارے بیٹے! ابھی تم کو میرے بدن سے الگ ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا۔ ہر کوئی جو خلق کیا جاتا ہے وہ اپنا وقت ساتھ لے کر آتا ہے۔ ابھی تم ایک چھوٹے سے پودے ہو۔ ابھی تم کو بڑا ہونا اور پورا درخت بننا ہے۔ اٹھ کر کھڑے ہو جاؤ!‘‘ دھرتی ماں نے میری ہمت بڑھا ئی لیکن میں بحث کرنے لگا اور بولا۔
’’لیکن ماں ۔۔ یہ چھوٹے چھوٹے کیڑے، یہ بھی تو اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور یہ جانور، یہ پرندے حرکت کرتے ہیں۔ رینگتے ہیں، چلتے پھرتے ہیں، دوڑتے بھاگتے ہیں، اچھلتے، کودتے ہیں، بعض اڑتے بھی ہیں ۔۔ تو پھر میں بندھا ہوا کیوں ہوں ۔۔؟ آخر کیوں میں اپنی جگہ سے جنبش بھی نہیں کر سکتا۔۔؟ یہ کیسی قید ہے۔۔؟ کیسی سزا ہے۔۔؟ میں تو ابھی ابھی پیدا ہوا ہوں۔ مجھ سے ایسا کون سا گناہ، کون سا جرم سرزد ہوا ہے جس کی یہ سزا مجھے دی جا رہی ہے۔۔؟‘‘ میں نے ماں سے اپنے اصل دکھ کی وضاحت کی۔ اس مرحلے پر مجھے یوں لگا کہ جیسے مادرِ ارض نے مجھے جڑوں سے لے کر پتوں تک چوم لیا۔ اس ایک بوسے نے مجھے وہ توانائی بخشی کہ میں ایک بار پھر کھڑا ہو گیا اور اپنے ننھے وجود کے ساتھ ہوا میں رقص کرنے گا۔
ا س چھوٹی سی عمر میں بھی، میں یہ جان چکا تھا کہ مادرِ ارض بہت بڑی ہے۔ پوری ایک دنیا ہے۔ اس سمے جب میں مادرِ ارض کے پیار کرنے پر زندگی سے بھر پور رقص میں مصروف تھا، یہ محسوس کیا کہ وہ مسکرارہی ہے اور بے حد خوش اور مطمئن ہے۔ اسی خوشی اور طمانیت کی کیفیت کو جڑوں سے پتوں تک منتقل کرتے ہوئے وہ گویا ہوئی۔
’’تم بے کار بد دل ہو رہے میرے بچے۔۔ تم جو بظاہر ایک جگہ قائم ہو اصل میں تم بھی حرکت کر رہے ہو، اپنے چاروں اطراف اپنی جڑوں کے ذریعہ۔ جیسے جیسے تم بڑے ہوتے جاؤ گے، اپنے حرکت کرنے کو جانتے جاؤ گے۔ اپنی رینگتی جڑوں کو پہچان لو گے۔ یہاں سے کچھ دور ایک ندی بہہ رہی ہے۔ تم دیکھنا تھوڑے ہی عرصے بعد تم اپنی ان زمیں دوز ٹانگوں کی مدد سے اس ندی تک پہنچ جاؤ گے۔‘‘
یہ سب کچھ ماں نے بڑے وثوق سے کہا۔
’’سچ ماں ‘‘ میں چہک کر بولا۔
’’ہاں بیٹے تم ندی تک ضرور پہنچ جاؤ گے۔ تم اپنے چاروں طرف دور دور تک جاؤ گے۔ تم بھی دوسرے جانداروں کی مانند حرکت کرو گے۔ زمین کے اندر، اندر اپنی جڑوں کی مدد سے اور باہر اپنے تنے شاخوں اور پتوں کی مدد سے۔‘‘ ماں نے ایک مرتبہ پھر مجھے مثبت سوچوں اور امیدوں کی جانب ڈھکیلا لیکن میرے اندر ایک کانٹا سا چبھ رہا تھا اور اس کی چبھن کے زیر اثر میں نے ماں سے یہ شکوہ کیا۔۔
’’لیکن ماں مجھے یہ قید بہت بری لگتی ہے۔ کیا اس قید سے مجھے آزادی نہیں مل سکتی۔ کبھی بھی نہیں۔ ‘‘ میں نے ماں سے ضد کی۔
’’میرے بیٹے! میں تجھے کس طرح سمجھاؤں۔ ابھی تو ان معاملات کو سمجھنے کے لئے بہت چھوٹا ہے۔ جس کو تو قید کہتا ہے میرے لعل وہ قید نہیں ہے، وہ تیرا ہونا ہے، تو اپنے ہونے میں قید ہے، ہر کوئی جو یہاں ہوتا ہے وہ اپنے ہونے کے اندر قید ہوتا ہے۔ اپنے اپنے انداز میں، جس طرح کا ہونا، اس طرح کی قید۔ میں بھی ہوں، سو میں بھی قید ہوں۔ تو زمین سے جڑا ہوا ہے، یہ تیرے ہونے کا انداز ہے۔میں گردش میں ہوں، یہ میرے ہونے کا انداز ہے۔ جہاں تک حرکت کا تعلق ہے، سب حرکت میں ہیں۔ تو بھی حرکت میں ہے، میں بھی حرکت میں ہوں، جو ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی انداز کی حرکت میں ہوتا ہے اور تو اور جمادات بھی، کنکر، پتھر، چٹانیں، پہاڑ وغیرہ جو تجھ سے کہیں زیادہ جامد اور غیر متحرک نظر آتے ہیں، اپنے اپنے اندرون میں متحرک ہیں۔ ہم سب لاکھ حرکت میں ہوں، ہم سب قید ہیں۔ سارے ہونے والے قید ہیں، وہ جو زمین میں ہیں، وہ جو زمین کے اوپر ہیں، ہواؤں میں ہیں، پانی میں ہیں، فضا میں ہیں، خلاؤں میں ہیں، سارے ایسی ڈوریوں سے بندھے ہیں جو دکھائی نہیں دیتیں۔ غیر مرئی ہیں اور یہ ڈوریاں اس کے قابو میں ہیں جو سب کا خالق ہے، لیکن یہ ساری باتیں میں تجھ سے کیوں کہہ رہی ہوں ۔۔؟ ابھی تو ان باتوں کے لئے بہت چھوٹا ہے۔۔اب جا۔۔ تو اپنے ہونے میں ہو‘‘
ماں سچ کہہ رہی تھی۔میں ان باتوں کے لئے ہنوز بہت چھوٹا تھا، لیکن ان کو پوری طرح سمجھنے کے لائق بڑا۔۔ میں کبھی نہ ہو سکا یا پھر بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ اور ہی طرح کی باتوں میں الجھتا گیا کہ ان باتوں کی جانب متوجہ ہونے کی مہلت ہی نہیں ملی۔ ہونے کے مرحلے سے گزرنے کے بعد میں ’بڑا‘ ہونے کے مرحلوں سے گزرتا گیا۔ میرے بڑے ہونے، زمین سے اوپر اٹھنے میں اگرچہ مجھے شاخ شاخ ہونے کے آشوب سے بھی گزرنا پڑا لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ میں فربہ بھی ہوا، لمبا بھی ہوا اور گھنا بھی۔ مجھ پر چھتریاں سی اگتی چلی گئیں اور جب چھتریاں گھنی ہو کر آپس میں مربوط ہو گئیں تو شاخوں، ڈالیوں اور پتوں سے، اچھا خاصا ہرا بھرا سائبان تعمیر ہو گیا۔ میری آبادی میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ رینگنے والے چھوٹے بڑے وجودوں نے تو آغاز ہی سے مجھ میں اور مجھ پر رہنا بسنا شروع کر دیا تھا لیکن جیسے جیسے میری چھت پھیلی اور میں چھتنار ہوتا گیا مجھ پر اور مجھ میں بڑے حشرات الارض رہنے سہنے لگے۔ بھانت بھانت کے پرندے، گھونسلے بنانے والے اور گھونسلے بنائے بغیر گزر بسر کرنے والے آباد ہو گئے۔ ساتھ ہی چند ایک چوپائے بھی میرے پتوں، نرم ٹہنیوں پر منھ مارنے والے مجھ سے متعارف ہوتے گئے۔ بکریاں جن کا پیٹ ہی نہیں بھرتا مجھ سے لپٹی رہتیں۔ ان سب کے علاوہ میرے نیچے، میری چھاؤں میں آدم زاد بھی ڈیرا جمانے لگے تھے۔ مجھے ان آدم زادوں کے بچے، بچیوں کا آنا بہت بھاتا، ان چڑیوں سے بھی زیادہ جو پو پھٹے میری اس چھوٹی سی بستی کو اپنی آوازوں سے بیدار کیا کرتی تھیں۔ میرے نیچے۔ بچے، بچیاں، لڑکے، لڑکیاں طرح طرح کے کھیل کھیلتے۔ بڑے لڑکے، لڑکیاں اپنی جوانی کے ڈرامے کے ابتدائی مناظر کی بساط جماتے۔ بوڑھے حقے گڑ گڑاتے، چلمنیں پھونکتے اور بستی کی عورتوں اور لڑکیوں کے گرما گرم آ سکینڈل سنتے سناتے یا ایجاد کرتے۔
بڑے ہونے کے مرحلے سے گزرنے کے دوران میں زیادہ سے زیادہ سمجھ دار ہوتا گیا۔ جسمانی بڑھوتری، وسعت اور بلندی کو اور جسمانی حرکت کو ہی سب کچھ خیال کرنے والا ’میں ‘ اس حقیقت سے آشنا ہوا کہ جسمانی بڑھوتری کے علاوہ بھی بڑے ہونے کی متعدد دوسری صورتیں اور حالتیں ہیں جیسے ذہنی طور پر بڑا ہونا، جذباتی اور حسّی طور پر بڑا ہونا۔ چونکہ دھرتی ماتا نے مجھ میں صبر، ضبط اور رسان ڈال دی تھی۔ اس سبب سے گھبرا جانے اور مایوس ہونے کی منفی کیفیتوں سے عہدہ بر آ ہونے کے لائق ہو گیا تھا۔ میں نے ایک بنیادی سچائی سے آگاہی پیدا کر لی تھی اور یہ جان چکا تھا کہ ہونے کو سہنا بھی ہونے کے لوازمات میں شامل ہے۔اول اول میں صرف اپنے ہونے میں جٹا رہا پھر یوں ہوا کہ میرے ہونے سے، بہت سارے اور ہونے والے مجھ سے جُڑتے چلے گئے۔ جوں جوں میں بڑا ہوتا گیا مجھ سے جُڑے ہوئے ان ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور وہ وقت بھی آیا کہ ان کے ہونے کا ادراک کرنا بھی میرے بس کی بات نہیں رہی۔ اسی دوران میرے مشاہدے میں تواتر کے ساتھ ایک تکلیف دہ حقیقت آئی اور مختلف اور متنوع صورتوں میں آئی کہ میں شدید صدمے سے دو چار ہونے لگا۔ میرے بدن پر چھوٹے بڑے کیڑے شروع ہی سے ادھر ادھر رینگتے پھرتے تھے۔ وہ زمین کے اندر میرے نچلے دھڑ کے ساتھ ہوتے تھے اور زمین کے اوپر میرے بالائی دھڑ پر بھی ہوتے تھے۔ میں نے محسوس کیا میرے اپنے بدن پر مخصوص اقسام کی چھپکلیاں، گرگٹ اور چند ایک بڑے جسموں والے حشرات الارض آ کر بس گئے اور ان کیڑوں کو موت کے گھاٹ اتارنے لگے۔ میں نے دیکھا کہ میری شاخوں پر رہنے والی چڑیاں اور پرندے صبح سویرے زمین پر اتر کر ان کیڑوں کو لقمۂ اجل بناتے تھے میں نے یہ بھی دیکھا کہ جانے کہاں کہاں سے چیلیں اور عقاب سورج کے نکلنے سے قبل میری شاخوں اور پتوں پر سوئی ہوئی چڑیوں اور چھوٹے پرندوں پر جھپٹّے مار کر انہیں لے اڑتے۔ میں نے یہ بھی دیکھا خوبصورت چال میں مٹکنے والے اور غٹر غوں کرنے والے کبوتروں، ہوکتی فاختاؤں اور گانے والی بلبلوں کو حسین جسموں اور جادوئی پھنوں والے ناگ اور ناگنیں اپنے اندر اتار لیتیں۔ میں جو بلّیوں کو مراقبہ کرتے ہوئے دیکھ کر ان کا احترام کرنے لگا تھا یہ دیکھ کر لرز اٹھا کہ ایک بلّی اپنا مراقبہ توڑ کر کسی چڑیا پر جھپٹی، پلک جھپکتے میں اس کے پر نوچ کر الگ کئے اور غڑپ کر گئی۔ میرے پتوں نے ہو اکے ساتھ مل کر ماتمی حلقے بنا لئے جو دکھ مجھے پہلی پت جھڑ کے دوران ہوا تھا وہ میرے ان خوفناک اور المناک مشاہدوں کے آگے کچھ بھی تو نہ تھا۔ قریب تھا کہ ایک مرتبہ پھر اپنی منفی سوچوں میں ڈوب جاؤں دھرتی ماتا خود ہی میری جانب متوجہ ہو گئی۔ دھرتی ماتا کو اپنی جانب متوجہ پا کر میں نے پتوں پر پڑی ہوئی شبنم کے بے شمار آنسو ماں کی گود میں ٹپکا دئے اور ان بھیانک مشاہدوں سے اس کو آگاہ کرتے ہوئے پوچھا ’’یہ سب کیا ہے ماں۔ یہ میں کیا دیکھتا ہوں۔ ؟ ان ننھے ننھے معصوم کیڑوں نے کسی کا کیا بگاڑا ہے جو پرندے ان کو اپنی چونچوں میں اٹھا لیتے ہیں۔ ؟‘‘ دھرتی ماں نے میرے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا صرف مادرانہ شفقت سے مجھے دیکھتی رہی ایک کے بعد ایک میں نے اپنے سارے تلخ مشاہدات دھرتی ماں کو سنا دئے اور جب کثرت سے مراقبے میں مصروف ہونے والی بلّی کی سفاکی تک پہنچا توا پنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور روتے روتے نڈھال ہو گیا۔ دھرتی ماں نے مجھے اپنی محبت کے حصار میں لے لیا۔ میں نے محسوس کیا جیسے میں کوئی نوزائیدہ ننھا وجود تھا اور دھرتی ماں مجھے اپنی گود میں لٹا کر گیت سنا رہی تھی۔
’’میرے بیٹے۔ مت رو، مت رو
راج دلارے۔ مت رو۔ مت رو
تم اب تک ’ ہونے‘ میں رہے تھے
اور فقط ’ہونا ‘ دیکھا تھا
ہونے کی گودی میں چندا
ہونا ہی، ہونا، ہوتا تھا
سپنوں میں کھونا ہوتا تھا
’’میرے بیٹے۔ مت رو، مت رو
راج دلارے۔ مت رو۔ مت رو
تم نے جو دیکھا ہے، چندا
لگتا ہے جو بھیانک سپنا
ہر ہونے کے ساتھ لگا ہے
وہ ہونے کا انت ہے پیارے
اور ’نہ ہونا‘ کہلاتا ہے
’ہونا ‘ اور ’نہ ہونا‘ دونوں
ہوتے ہوئے بھی ہوتے نہیں ہیں
اچھے بچے روتے نہیں ہیں
’’میرے بیٹے۔ مت رو، مت رو
راج دلارے۔ مت رو۔ مت رو
دھرتی ماتا نے گانا بند کیا اور مجھے پیار سے دیکھا۔ اس دوران میں نے رونا بند کر دیا تھا۔ اپنی آنکھوں کے آنسو خشک کر لئے تھے۔ اگر چہ ماں نے گیت کی مدھرتا میں لپیٹ کر زندگی کی چند بڑی لیکن کڑی سچائیوں کو میری سماعت اور ذہن میں انڈیل دیا تھا لیکن میری تشفی نہیں ہو سکی تھی ’’ماں مجھے ٹھیک ٹھیک بتاؤ۔ کیا میں بھی ’نہیں ‘ ہو جاؤں گا؟ ‘‘
میں نے ماں سے سیدھا سوال کر ہی دیا۔
’’ میں نے کہا نا۔۔ہر ہونے کو ایک دن نہ ہونا ہے۔‘‘
’’ تو بتاؤ ماں۔ میں کب ’ نہ ہونے‘ کے مرحلے سے گزروں گا۔؟‘‘
’’ میرے چندا۔ یہ میں نہیں بتا سکتی۔ میں خود اپنے بارے میں یہ نہیں بتا سکتی کہ میں کب نہ ہونے کے مرحلے سے گزروں گی۔؟‘‘
’’ ایسا کیوں ہے ماں۔ ؟‘‘
’’ایسا اس سبب سے ہے بیٹے کہ تم اور میں، ہم دونوں اپنی مرضی سے نہیں ہیں اور بیٹے تم اور میں دونوں اپنے اپنے وقت پر ’نہ ہونے‘ کا مرحلہ گزاریں گے اس کی مرضی کے مطابق جس نے ہمیں ’ہونے‘ کے مرحلے میں ڈالا تھا۔‘‘
میں نے دھرتی ماں سے کچھ اور پوچھنا لاحاصل جان کر چپ سادھ لی اور دھرتی ماتا نے بھی خاموش رہنا مناسب خیال کر لیا۔ اس کے بعد میرے رویے میں تبدیلی آئی اور میں اپنے ہونے میں رہتے ہوئے ہر روز ہی نہیں، ہر لمحہ دوسروں کے ہونے اور نہ ہونے کا مشاہدہ کرنے لگا۔ پھر تو میرا یہ حال ہوا کہ اندھیرے کو اجالے کے پیٹ سے اور اجالے کو اندھیرے کے پیٹ سے پیدا ہوتے دیکھتا، رات سے دن کو، دن سے رات کو جنم لیتے دیکھتا۔ سردی کی کوکھ سے گرمی، گرمی سے سردی، بہار سے خزاں، خزاں سے بہار پیدا ہوتے ہوئے نہ صرف محسوس کیا بلکہ موسموں کے چکر سے واقف ہو گیا۔ مشاہدوں کے تسلسل سے آخر کار میں سوچ کے اس مرحلے پر جا کر پریشان ہو گیا جس میں ہونے اور نہ ہونے کا تواتر میرے پیش نظر تھا۔ جب میں نے اپنی اس پریشانی کا دھرتی ماں سے ذکر کیا تو وہ ہنس پڑی اور بولی۔
’’بس بس میں سمجھ گئی۔ اب میرا بیٹا صحیح معنوں میں بڑا ہو گیا ہے۔‘‘
’’ صحیح معنوں میں بڑا ہو گیا ہے۔؟ صحیح معنوں میں کس طرح بڑے ہوتے ہیں۔ ؟‘‘
’’ تم نے ہونے اور نہ ہونے کو بھر پور طریقے سے محسوس کر لیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ تم بڑے ہو گئے ہو۔‘‘
’’صاف صاف بتاؤ ماں۔ آج آپ پہلی مرتبہ میرے سوالوں کا ٹھیک ٹھیک جواب نہیں دے پا رہی ہو۔‘‘
’‘ بیٹا۔ ہونا اور نہ ہونا نت نئے رخ اختیار کرتا ہے اور پوری کائنات اس کی مختلف جہتوں سے معمور ہے۔ رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات آنے کا یہ مطلب نہیں کہ دوبارہ جو رات آتی ہے وہی پہلے والی رات ہوتی ہے اور جو دن آتا ہے وہی گزرا ہوا دن ہوتا ہے۔ میرے بھولے بھالے بیٹے جب تم بڑے ہی ہو گئے ہو تو یہ بھی جان لو۔۔جو رات بھی آتی ہے، جو دن بھی طلوع ہوتا ہے وہ نیا ہی ہوتا ہے۔۔ پرانا نہیں۔ آج جو چاند آسمان پر چمکے گا وہ ڈوبے گا تو پھر نہیں ابھرے گا۔ آج جو سورج چمک رہا ہے غروب ہو کر پھر طلوع نہیں ہو گا۔ میں زمیں ہوں۔ یہ مانا کہ میرا ایک ہی چاند ہے اور جس نظام شمسی میں ہوں اس کا سورج بھی ایک ہی ہے لیکن وقت اپنا کام کرنے سے نہیں رکتا اور وقت ہی ہے جو ہر صبح کے سورج کو نیا اور ہر رات کے چاند کو نیا روپ دے دیتا ہے۔ وقت کے زیر ہر رُت نئی ہی ہوتی ہے۔ پرانی کوئی بھی رُت لوٹ کر نہیں آتی۔ وقت کے زیر اثر تم ہر لمحہ بدل رہے ہو اور میں بھی۔ میں ہر لمحہ نئی ’ میں ‘ ہوں تم ہر لمحہ ایک نئے ’تم‘ ہو۔ میرے بیٹے۔ یہ ہر روز کا نیا پن ہی ہونے سے نہ ہونے تک ہمارے بتدریج اور مسلسل سفر کا شاہد ہے اور ثبوت بھی۔ ہر بدلنے میں اور نئے ہونے میں ’نہ ہونا‘ چھپا ہوا ہے۔‘‘
’’ ماتا میری۔ کیا ’نہ ہونا‘ اٹل ہے۔؟‘‘
’’ ہاں یہ اٹل ہے۔ میرے بچے۔۔ لیکن یہ سب … ‘‘
’’ یہ سب آپ کہتے کہتے رک کیوں گئیں۔ ؟‘‘
’’ یہ سب گمان ہے۔‘‘
’’گمان …؟‘‘
ہاں میرے بیٹے۔ یہ سب… اور تمہارا، میرا ہونا بھی محض گمان ہے صرف ایک مفروضہ۔۔‘‘ اتنا کہہ کر دھرتی ماں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔ میں نے ماں کے چہرے کو غور سے دیکھا اور سوچا ’’مجھے اس گمان والی بات پر بحث جاری نہیں رکھنی چاہئے۔ ماں پہلے ہی اداس ہے۔ دکھی ہے۔ اس موضوع پر مزید گفتگو سے مزید دکھی ہو جائے گی۔
اس مقام پر میں نے ماں سے رخصت چاہی۔
میں اپنے آپ کو اور اپنے نیچے، اوپر اور اطراف پھیلے ہوئے وجودوں کو محض ’’گمان‘‘ تسلیم کرنے کی حالت میں نہیں تھا اور نہ کبھی ہو سکا البتہ دوسروں کے بارے میں سوچنا میں نے ترک نہیں کیا۔ دوسروں کے بارے میں سوچنے سے میں نئے نئے دکھوں اور نئی نئی خوشیوں سے آشنا ہوتا چلا گیا۔ اصل بات یہ تھی کہ آدم زادوں کو میری چھاؤں راس آنے لگی تھی۔ وہ اپنے دکھوں اور خوشیوں کے ساتھ میرے سائبان تلے آنے جانے لگے تھے۔ ان میں قابل ذکر ایک لڑکا، لڑکی تھے۔ وہ میرے نیچے ایسے وقت آتے جب کسی اور آدم زا کے آنے کے امکانات نہ ہوتے۔ ظاہر تھا وہ چوری چھپے ملتے تھے اور کبھی دیر تک،کبھی تھوڑے وقت ساتھ رہتے لیکن جتنی دیر بھی رہتے ایک دوسرے میں گم رہتے۔ بہت جلد میں ان کے چھوٹے بڑے بے شمار رازوں کا امین ہو گیا تھا۔ جس طرح وہ دونوں ایک دوسرے کے ہو رہے تھے میں ان دونوں کا ہو رہا تھا۔ میری نئی نویلی ٹہنیاں، ڈالیاں اور پتے ان کی خوشیوں اور غموں میں شریک ہونے لگے تھے۔ وہ جب ہم آغوش ہوتے تو میں دیوانہ وار رقص کرتا، وہ جب دکھی ہوتے تو میں بلک بلک کر روتا۔ پھر ایک منحوس دن وہ لڑکی تنہا آئی، میری ایک ڈالی کو پکڑ کر کھڑی روتی رہی میں بھی رویا لیکن جب وہ میرے بدن سے لپٹ کر روئی تو میں اپنے سارے وجود سے ماتم کرنے لگا۔ وہ ہمیشہ کے لئے مجھے چھوڑ کر چلی گئی کبھی لوٹ کر نہیں آئی۔ بہت جلد میرے نیچے آنے جانے والے آدم زادوں کی باتوں سے مجھے پتہ چل گیا کہ لڑکا جبری فوجی بھرتی میں دھر لیا گیا تھا۔
ایک دن ایک سادھو نما شخص میرے نیچے آیا۔ اس نے آتے ہی میرے بدن کے ساتھ ایک پتھر کھڑا کیا، اس پر سیندور سے کچھ نقش بنائے اور اس کی جانب منہ کر کے پوجا کے آسن میں ہاتھ جوڑ کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر اس طرح عبادت کر کے دوسری جانب کھسک کر مجھ سے ٹیک لگا لی۔ آنکھیں بند کر کے نیم دراز پڑا رہا۔ گم صم، سویا نہیں لیکن جھپکی ضرور لی۔ بیدا ر ہو کر دو تین انگڑائیاں لیں، سرہانے دبی پوٹلی سے، مٹی کا پائپ، تمباکو کی چرمی تھیلی اور ایک ڈبیہ کسی بھورے رنگ کے سفوف کی بر آمد کی۔ اکڑوں بیٹھ کر مٹی کے پائپ میں تمباکو اور سفوف دبا دبا کر بھرا رومال کے ایک گوشے میں بندھی ماچس کی ڈبیہ نکال کر پائپ کو آگ دکھائی، پائپ سے دھواں حلق میں لے کر باہر پھینکتا رہا۔ پہلے چھوٹے چھوٹے، بعد میں لمبے کش لئے۔ جیسے وہ کش لیتا، اس کے گلے کی نسیں تن جاتیں، گالوں میں دو غار سے بنتے اور آنکھیں ماتھے پر چڑھ کر لال انگارہ ہو جاتیں، پائپ پیتے ہوئے وہ زور زور سے کھانستا، کروٹ لے کر تھوک اور بلغم باہر پھینکتا، پھر دنیا ما فیہا سے بے خبر قریب قریب بے ہوش ہو جاتا۔ جب ہوش میں آتا، اٹھتا اور میری بصارت سے پرے جانے کیا کرتا پھرتا۔ کبھی کبھی وہ میری سرحدِ ادراک میں آیا تو لٹیا میں ایک بکری کا دودھ نچوڑ رہا تھا۔آدم زادوں کے مسائل میں سے ایک مسئلہ ان کے پیٹ کا ہے جن کے لئے غلط اور صحیح بے شمار کام کر گزرتے ہیں۔ میرے مشاہدے کا ہدف، آدم زاد ہو گئے تھے اور میں ان کو ترجیح دینے لگا تھا۔
اس سادھو نما آدمی سے میری دلچسپی بڑھ گئی۔ اس کی حرکات وسکنات سے صاف پتہ چلتا تھا وہ نیچے طویل قیام کا فیصلہ کر چکا تھا۔ سورج نکلنے سے پہلے بیدار ہوتا اور کان میں جینو اٹکا کر جھاڑیوں میں گھُستا، جھاڑیوں سے باہر نکل کر، ندی کا رخ کرتا، اشنان کرتا اور پانی میں کھڑے ہو کر تری مورتی کا زور زور سے جاپ کرتا’‘ برہما، وشنو، مہیش‘‘ جس کی آواز مجھ تک پہنچتی البتہ سوریہ دیوتا کے لئے جو اشلوک پڑھتا وہ دبی آواز میں ہوتے اور مجھ تک نہیں پہنچتے۔ آدم زادوں کی زندگی میں اور باتوں کے علاوہ یہ بات دوسری مخلوق سے قدرے مختلف دیکھنے میں آئی کہ غیر متوقع واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ اس سادھو نما آدمی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ مجھے توقع نہیں بلکہ یقین تھا کہ وہ میرے نیچے طویل مدت گزارے گا۔ ابھی میں اس سے پوری طرح واقف بھی نہ ہو سکتا تھا کہ مقامی زمیندار کے چند سوار آئے اور سادھو کو اس کی پوٹلا، پاٹلی کے ساتھ گھوڑے کی پشت پر ڈال کر لے گئے۔ میں تو اس کے بارے میں یہ بھی نہ جان سکا تھا کہ وہ کون تھا، عام آدمی، سادھو سنت، کوئی بھوکی جو یوگی بن گیا ہو یا پھر منتر جنتر کو ہی سب کچھ ماننے والا کوئی تانترک۔۔ میرے نیچے آنے جانے والے آدم زادوں سے تو صرف یہی سُن پایا کہ وہ سونا بنانے والے کی شہرت کا مالک تھا۔ مشہور تھا کہ وہ جب اپنے مٹی کے پائپ سے کش لگاتا ہے تو تانبے پیتل کا سکہ اڑ جاتا ہے اور اس کی جگہ خالص سونے کے ذرات مٹی کے پائپ میں چپکے رہ جاتے ہیں۔ لوگ اس کو یاد کر کے بہت دنوں ہنستے بولتے رہے تھے۔ ’’زمیندار اسے پٹوا پٹوا کر سونا بنوا رہا ہو گا۔ سالا بڑا سادھو سنت بنتا تھا۔۔ ہا ہا۔ ہاہا… ‘‘
سادھو کے پکڑے جانے کے بعد میں نے اپنے نیچے ایک خلا سا محسوس کیا۔ میں نے اس دھات کے بارے میں بھی سوچا جو کسی کام کی نہیں ہوتی لیکن آدم زاد اس پر جان دیتے اور جان لیتے ہیں۔ ’’ مادر ارض کے پاس تو بہت سارا سونا ہے‘‘ میں نے یہ بھی سوچا۔
اس سادھو کے پکڑے جانے کے بعد میرے نیچے ایک درویش آبیٹھا چند روز بعد معلوم ہوا۔ کہ وہ میرے نیچے چلّہ کرے گا، چایس روز کا چلّہ۔ بڑا خوبصورت، گورا چٹا آدمی تھا۔ اس کے بال اس سادھو نما شخص کے بالوں کی مانند لمبے ضرور تھے لیکن وہ ان میں ہر روز کنگھی پھیرتا تھا اور دن میں کئی مرتبہ ایک چھوٹے سے آئینے میں دیکھ کر اپنی ریش بھی سنوارتا تھا۔ درویش کو بھی سلام کرنے کے لئے لوگ آنے لگے۔ مرد بھی اور عورتیں بھی جس طرح اس سادھو نما کے لئے آنے لگے تھے۔ میں نے سوچا کہ اس کو بھی زمیندار کے سوارلے جائیں گے لیکن چند ایک ہفتے گزرنے کے بعد بھی زمیندار کے سوار نہیں آئے تو مجھے اطمینان ہو گیا۔ میں چاہتا تھا وہ درویش میرے نیچے، ہمیشہ کے لئے بس جائے۔ وہ لوگوں سے بات چیت نہیں کرتا تھا۔ بس ہوں، ہاں کرتا البتہ ہر کسی کو دیکھ کر پیار سے مسکرادیتا۔ عورتوں اور لڑکیوں کو ایک فاصلے پر روک دیتا۔ سب کی بپتا اور منتوں کو آنکھیں بند کر کے سنتا۔ بوڑھوں، بوڑھیوں کو بھی بیٹا، بیٹی، پتر، پتری کہہ کر مخاطب ہوتا اور کہتا۔
’’آپ بھی دعا کرو، بابا بھی دعا کرے گا۔ اب جاؤ بابا کو کام کرنے دو۔‘‘
وہ کوئی کام نہیں کرتا۔ لوگ باگ۔ اس کے لئے روٹی، دال بھات، پھل، مٹھائی اور کھیت سے توڑی ہوئی گاجر، مولی اور نہ جانے کیا کیا لے کر آتے وہ تھوڑا تھوڑا چکھ کر وہاں موجود لوگوں میں اسی وقت تقسیم کروا دیتا۔ دوسرے دن کے لئے بچا کر نہیں رکھتا تھا۔ لوگوں کی حاجات پوری ہونے لگی تھیں یا درویش کی مقناطیسی شخصیت کا اثر تھا کہ اس کو سلام کرنے کے لئے آنے والوں میں روز بروز اضافہ ہونے گا کبھی کبھی تو اچھا خاصا مجمع لگ جاتا حالانکہ وہ سارا علاقہ جو فوجی نقل و حرکت اور ہوائی حملوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ میں اپنے نیچے کی آبادی میں اضافے سے خوش تھا لیکن ایک انتہائی گرم دن وہ درویش آنکھیں بند کئے بیٹھا تھا اور شاید کچھ ورد کرنے میں مشغول تھا۔آس پاس کوئی نہ تھا سوائے ایک موٹی کالی بلّی کے جو میری ایک ڈال پر اپنی دم نیچے لٹکائے بیٹھی تھی۔ مجھ پر کچھ زندہ وجود تھے بھی تو وہ سب کے سب بے حس و حرکت اور چُپ تھے۔ چڑیوں نے بھی چوں چوں بند کر رکھی تھی۔ اچانک ایک لڑکی جانے کہاں سے آ گئی۔ وہ اس طرح دبے پاؤں آئی کہ درویش کو جو اپنے وظیفے میں گم تھا، لڑکی کے آنے کا احساس بھی نہ ہو سکا۔ لڑکی درویش کے چہرے پر جھکی اور اس کا ما تھا چوم کر الٹے قدموں چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد وہ درویش کھڑا ہو گیا۔ کچھ دیر ایک چھوٹے سے حلقے میں دوڑتا رہا پھر دوڑنا بند کر کے اس نے اپنی چھڑی سے اپنے ہی بدن پر ضرب لگائی۔ اپنی اس پٹائی سے فارغ ہو کر اپنا مختصر اسباب سمیٹا، پوٹلی سی باندھی، پوٹلی کو چھڑی سے پرویا، کندھے پر لادا اور پلک جھپکتے میں، میرے نیچے سے رخصت ہو گیا۔ مجھ پر آباد وجودوں نے اگر یہ سب دیکھا بھی تو چپ سادھے رہے کیونکہ وہ یا میں ۔۔ کر بھی کیا سکتے تھے، ہونے کے ساتھ ہونی بھی تو لگی ہے۔
دوسرے دن دوپہر میں وہ لڑکی آئی۔ درویش کو موجود نہ پا کر اس مقام پر ما تھا ٹیکا جہاں وہ بیٹھا کرتا تھا۔ کچھ دیر سجدے کی حالت میں پڑی رہی اور پھر چپ چاپ اٹھ کر چلی گئی۔ میں نے اپنی ڈالیاں اور پتے ہلا کر اور مجھ پر اور مجھ میں بسے ہوئے بے شمار وجودوں نے اپنے اپنے انداز میں اس لڑکی سے شکوہ کیا لیکن لڑکی اپنے المیے میں گُم ہم سب سے بے خبر رہی۔ اگر لڑکی اس طرح نہ آتی اور وہ سب نہیں کرتی جو اس نے کیا تو شاید وہ درویش میرے نیچے اپنا تکیہ بنا لیتا۔ شاید۔ شاید۔ شاید دور کسی چٹان کی نوک پر کوئی چیل چیخ چیخ کر اپنے رفیق حیات کو آواز دے رہی تھی۔ درویش کے جانے کے بعد، عین اس کے چلّے کی جگہ ایک انتہائی حسین بلّی ہر روز مراقبہ کرنے لگی۔ کچھ دن بعد اس بلی نے بھی آنا ترک کر دیا۔ جانے کیوں مجھے یوں لگا کہ اس حسین بلّی نے درویش کا چلّہ پورا کیا۔
میرے نیچے یوں تو صدہا ٹھہرنے والے بشمول آدم زاد ٹھہرے لیکن ایک میاں بیوی کے جوڑے کو میں کبھی نہ بھول سکا۔ وہ بہت کم وقت کے لئے آئے اور چلے گئے۔ دونوں ڈھلتی عمروں کے تھے۔ مرد قدرے فربہ لیکن گھٹے ہوئے جسم کا مالک تھا۔ اس کا چہرہ بڑا ۔۔ گندمی رنگت، بڑی بڑی مونچھوں اور سرخ لہو رنگ آنکھوں سے نہ بھولنے والا ہو گیا تھا۔ دونوں ایک ہی گھوڑے پر سوار ہو کر آئے تھے۔ مرد نے گھوڑے کو مجھ سے باندھا اور وہاں سے تیز قدموں چلا گیا۔ عورت میرے قریب ہی کہیں بیٹھ رہی لیکن چادر سے پوری طرح چھپی ڈھکی۔ کوئی آدھ گھنٹہ گزرا ہو گا کہ مرد واپس آیا۔ اس کا گندمی چہرہ کامیابی کی چمک سے دمک رہا تھا لیکن آنکھوں سے خون ٹپکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ اس کو دیکھ چادر میں لپٹی عورت جھپٹ کر اٹھی اور کھڑی ہو گئی۔ عورت کے کھڑے ہونے کے ساتھ ہی ان کا گھوڑا جو پوری طرح بیٹھا تھا اور نہ ہی کھڑا تھا ایک دم کھڑا ہو گیا اور اپنی اگلی ٹانگوں کو اٹھا کر، گھٹنوں سے موڑ کر، اپنے حلق سے ایک خاص آواز نکال کر اپنے مالک کو پیغام دینے لگا کہ وہ پوری طرح چاق و چوبند اور سواری کے لئے تیار ہے۔
’’کام ہو گیا‘‘ مرد نے عورت سے کہا ’’یہاں سے جلدی نکل چلو ہمارا تعاقب ضرور ہو گا‘‘۔
’’نہیں ۔۔ پہلے میں اس ملعون کا منھ دیکھوں گی۔‘‘ عورت غرائی، مرد نے عورت کی جانب نظر گھمائی۔ عورت کی چادر ڈھلک گئی تھی،عورت کی بڑی بڑی آنکھیں اس کے پورے چہرے پر پھیلنے کے ساتھ باہر ابل پڑی تھیں۔ ان سے آگ کی سی لپٹیں باہر آ رہی تھیں۔ مرد کی لہو چکیدہ آنکھیں عورت کی آنکھوں سے ٹکرا کر جھک گئیں۔
’’تم عورت ہو یا۔۔‘‘ مرد بولتے، بولتے رک گیا۔
’’میں شیرنی ہوں ۔۔میں نے اپنا شیر بیٹا کھویا ہے۔۔ اکلوتا بیٹا۔۔جلدی کرو۔ مجھے وہ خبیث سر دکھاؤ۔۔میرے بیٹے کے قاتل کا سر۔۔ اس شیطان چہرے کو دیکھے بغیر۔۔ میں یہاں سے نہیں ٹلوں گی۔۔‘‘ مرد نے اپنی بیوی کی آواز سنی اور سر سے پاؤں تک لرز گیا۔ یہ آواز وہ اپنی طویل ازدواجی زندگی میں پہلی بار سن رہا تھا۔ ایک مکمل غیر انسانی آواز۔۔ جس میں تحکم تھا۔ اس نے ایک ہی جھٹکے سے اپنی بغل سے لٹکا ہوا چرمی تھیلا نکالا۔ دوسری ہی لمحے اس کے سیدھے ہاتھ میں ایک جوان آدمی کا سر تھا، جس کو اس نے بالوں سے پکڑ ا ہوا تھا۔ کٹی ہوئی گردن سرخ و سیاہ خون سے آلودہ تھی۔ چہرے پر دہشت کی چھاپ تھی۔ بے جان آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں۔ ناک ٹیڑھی ہو چکی تھی۔دہانہ کھلا تھا، جس کے اندر سے سرخ زبان کی نوک اور سفید دانت جھانک رہے تھے، کالی گھنی موچھوں کے نیم حلقے سے گھرے ہوئے۔ تھوڑی جس پر خشخشی داڑھی تھی، گردن کی جانب لٹک گئی تھی۔ عورت نے پہلی مرتبہ چادر کو بدن سے الگ گرا دیا اور اس گردن سے کٹے ہوئے چہرے کی طرف لپکی۔ گھوڑا جو شاید ماحول کی دہشت کو سونگھ چکا تھا۔ اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا اور اپنی تھوتھنی آسمان کی طرف اٹھا کر چیخا۔ گھوڑے کی اس آواز کو ہنہنانا نہیں کہا جائے گا۔ میرے پتے بھی چلانے لگے اور میرے اوپر اور میرے اندر رہنے والے سارے وجود اپنے اپنے طور پر بین کرنے لگے۔ عورت کو سر کی جانب بڑھتا دیکھ کر، مرد تیزی سے پیچھے ہٹا اور چلایا۔
’’پرے رہو۔۔ پرے رہو۔۔ ہاتھ نہیں لگاؤ۔۔ دور۔۔ دور‘‘ عورت نے مرد کی آواز پر کان نہیں دھرے۔ مرد کے ہاتھ سے لٹکے ہوئے سر پر بپھری ہوئی شیرنی کی مانند جھپٹی۔۔ مرد پیچھے ہٹا۔ عورت نے اس کٹے ہوئے سر کے منھ پر تھوک دیا اور غیض و غضب کی حالت میں چیخ چیخ کر کچھ ایسے الفاظ ادا کئے جو الفاظ ہوتے ہوئے بھی، نہیں ہوتے جو حلق سے نکلتے ہیں لیکن منھ یا زبان سے ادا نہیں ہوتے۔ مرد صورت حال کو بگڑتا دیکھ رہا تھا۔ وہ قریبی بستی کے کسی جوان کا سرکاٹ لایا تھا جو اس کے خیال میں اس کے بیٹے کا قاتل تھا۔ اس نے انتقام لے لیا تھا اور اس فریضے سے سبکدوش ہو گیا تھا جو قبائلی آدم زادوں میں صدیوں سے مروّج تھا۔ اس کو یقین تھا کہ اس کے بیٹے کی روح کو اپنے والد کے اس کارنامے پر فخر ہو رہا ہو گا اور وہ جہا ں بھی ہو گی خوش ہو رہی ہو گی۔۔اس نے اپنی عورت کی پہنچ سے پرے ہو کر، سر کو چمڑے کی زنبیل میں ٹھوس کر اپنی دائیں بغل سے لٹکا لیا۔ میرے بدن سے بندھے ہوئے گھوڑے کو کھولا اور اس پر ایک ہی جست میں سوار ہو گیا۔ اپنے جوان بیٹے کے قاتل کی گردن کاٹ کر ’’ایک بار پھر جوان ہو گیا تھا۔ گھوڑے کو ایک قدرے بڑے دائرے میں گھما کر وہ عورت کے قریب پہنچا اور اپنا دایاں ہاتھ اس تک بڑھایا۔ گھوڑے کے حرکت میں آتے ہی وہ عورت بھی حرکت میں آ گئی۔ زمین پر گری ہوئی چادر اس کے بدن پر آ چکی تھی۔ جیسے ہی گھوڑا اور سواری اس کے قریب آئے وہ اوپر اٹھی اور مرد کے ہاتھ کا ہلکا سا سہارا لیا۔ مرد اس دوران اس کی جانب جھک گیا تھا۔ اس نے اپنا دایاں بازو عورت کی کمر کے گرد حمائل کیا جو ڈھلتی عمر کے باوجود چیتے کی کمر کی مانند پتلی تھی۔ پلک جھپکتے میں وہ مرد کے آگے گھوڑے کی پیٹھ پر تھی اور گھوڑے کی گردن کے بال اس کے بدن اور چادر کو چھو رہے تھے۔ سوار کے اشارے پر گھوڑا اپنے چاروں پیروں پرکچھ دیر مٹکا اور جب سوار نے اس کی ران میں ایڑھ لگائی تو وہ ایک جست لگا کر ہوا میں اڑ گیا۔
ا دھر گھوڑا اور اس کے دونوں سوار منظر سے غائب ہوئے اور ادھر بستی کے لوگ جو ان کے تعاقب میں تھے، اس منظر سے ہو کر گزرنے لگے۔ پہلے دو سوار جنہوں نے ہوائی گولیاں بھی چلائیں پھر پیدل لاٹھیاں، بھالے اور برچھے اٹھائے، دو ایک نے ننگی تلواریں بھی لی ہوئی تھیں ’’دوڑو۔۔ پکڑو۔۔ جانے نہ پائیں ۔۔‘‘ کی ہانک لگاتے ہوئے یہ سب بھی گزر گئے۔ اولادِ آدم جن کے بارے میں فرشتوں نے فساد فی الارض برپا کرنے اور خون بہانے کی پیش گوئی کی تھی۔
گھنٹے، آدھے گھنٹے میں تعاقب کرنے والے واپس آ گئے۔ میرے نیچے کچھ وقت ٹھہرے۔ پہلے دونوں سوار آئے اور ان کے بعد پیدل۔ وہ سب ناکام لوٹے تھے کیونکہ آگے بمباری ہو رہی تھی۔ تعاقب کرنے والوں کو یقین ہو چلا تھا کہ بستی کے جوان کا سرکاٹ کر لے جانے والے اس شدید بمباری کی زد میں آ کر مر گئے ہوں گے۔ ان کو یہ بھی معلوم نہ ہوسکا تھا کہ وہ کتنے آدمی تھے، جنہوں نے اس جوان کی سرکٹی لاش اپنے پیچھے چھوڑ دی۔ میں بہت پہلے یہ جان چکا تھا کہ آدم زاد سوچ کے غلام ہوتے ہیں۔ سوچ نے ان لوگوں کو تعاقب میں دوڑایا۔سوچ نے ان سے تعاقب ترک کرا دیا۔ اس سمے وہ اجتماعی سوچ کے زیر اثر تھے۔ ان میں اور بھیڑ بکریوں کے ریوڑ میں کوئی فرق نہ تھا۔ آدم زاد ہوتے تو حیوان ہیں لیکن تسلیم نہیں کرتے۔ میں نے مخلوقات کی بہت ساری اقسام کو سمجھ لیا تھا۔ میں نے وقت اور مقام کے طلسم سے بھی آگاہی پیدا کر لی تھی جو خلق کی تقدیر ہے۔ میں اس سے بھی واقف تھا جو اس طلسم سے ماورا ہے، جو اصل ہے۔ اس کے ماسوا جو ہے وہ نقل ہے۔ اپنے ہونے سے میں دوسروں کے ہونے تک پہنچا تھا۔ ہونے سے نہ ہونے تک پہنچا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ وقت کو سمجھنے کی کوشش میں وقت کی مکانی حقیقت کو پا گیا یا یوں کہئے کہ حقیقت کو جو زمانی اور مکانی حقیقت ہے جب میں حقیقت لامکانی اور لا زمانی تک پہنچا تو خود پر ہنسنے کے لائق ہو گیا۔ اپنی ڈالیاں اور پتے ہلا کر۔۔ میں دانشور ہو گیا تھا۔ وہ سب جان چکا تھا جو میں جان سکتا تھا۔ جہدلل بقاء سے اب میں ہراساں نہیں ہوتا تھا۔ اس کے بھیانک سے بھیانک مظہر کو فطرت خلق کے عین مطابق پا کر قبول کر لیا تھا۔عزم للِ قوۃ کو کبھی بھی کھلے دل سے نہیں مانا تھا۔ یوں بھی میرا ہونا پورا ہو چکا تھا۔ جتنا اونچا اٹھنا تھا، اٹھ چکا تھا۔ جتنا پھیلنا تھا، پھیل چکا تھا۔ زمین سے اوپر بھی اور زمین کے نیچے بھی۔ میری جڑیں قریبی ندی تک پہنچ چکی تھیں۔ میں نہ ہونے کے لئے پوری طرح تیار تھا۔
اس روز جب کچھ لوگ آرا مشینوں کے ساتھ آئے تو میں قطعی ہراساں نہیں ہوا۔ اگر مجھے اپنے اندر اور باہر رہنے بسنے والوں کی ’بے گھری‘ کا دکھ نہ ہوتا تو میں دکھی بھی نہ ہوتا۔ آرا مشین والوں کی آپس کی گفتگو سے مجھے یہ پتہ چل گیا تھا کہ مجھے اور آس پاس کے چند درختوں کو اس لئے کاٹا جا رہا تھا کہ ہماری لکڑی سے ریڈ کراس کی تنظیم جنگی زخمیوں کے لئے عارضی چھپر تیار کرنے والی تھی۔
’’میں اپنے نہ ہونے میں دوسروں کے ہونے کی سبیل بنوں گا‘‘ میں نے اپنے آپ کو دلاسا دیا۔
جس وقت آرا مشین مجھے ہونے سے نہ ہونے کے مرحلے میں پہنچا رہی تھی۔ مجھے اپنے ہونے کے ایک اور رخ سے واقفیت حاصل ہوئی، جس سے واقف نہ ہو سکا تھا۔ ادھر میرا بالائی بدن کاٹا جا رہا تھا اور ادھر میرا نچلا دھڑ جو زیر زمین میں سفر کرتے ہوئے ندی کے کنارے تک جا چکا تھا۔ میرے ایک اور وجود کو ہونے کے مرحلے پر لا چکا تھا۔ یہ جان کر مجھے عجیب سا احساس ہوا۔ اپنے نہ ہونے میں ہونے کا۔ میں ایک مرتبہ پھر ہونے جا رہا تھا۔ میں جانتا تھا کہ اس مرتبہ میرا پرانا وجود نہیں بلکہ نیا ہی و جود ہو گا۔۔ ’’تو کیا ہوا۔۔؟ میں ہو تو رہا تھا۔۔ پرانا نہ سہی، نیا ہی سہی۔۔‘‘ میں نے سوچا۔