اتوار, جولائی 13, 2025
  • رابطہ کریں
  • کچھ ہمارے بارے میں
کیف ادب
  • سرورق
  • بچوں کی دنیا
    • All
    • بچوں کی کہانیاں
    سفید کبوتری  – تحریر: زکریا تامر  ​-     ترجمہ: رفیع الزماں زبیری

    سفید کبوتری – تحریر: زکریا تامر ​- ترجمہ: رفیع الزماں زبیری

    دلارا

    دلارا

    گندے بچے کی کہانی

    گندے بچے کی کہانی

    Cute baby girl covered in green blanket.

    فاریہ کی کہانی

    شیر اور چوہا۔۔تحریر : ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ

    شیر اور چوہا۔۔تحریر : ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ

    Tasty art.

    نیلم چڑیا اور آگ

  • شعر و شاعری
  • شاعر
    • پیرزادہ عاشق کیرانوی
    • حمید ؔعظیم آبادی
    • احمد فراز
    • احمد ندیم قاسمی
    • الطاف حسین حالی
    • پروین شاکر
    • جون ایلیا
    • علامہ اقبال
    • ﺳﺎﻏﺮ ﺻﺪﯾﻘﯽ
    • فیض احمد فیض
  • مصنفین
    • سعادت حسن منٹو
  • تعارفِ کتب
  • آرٹیکلز اور کالم
  • ادب و مزاح
  • کہانیاں
  • سائنس اور ٹیکنالوجی
  • بلا عنوان
کیف ادب
  • سرورق
  • بچوں کی دنیا
    • All
    • بچوں کی کہانیاں
    سفید کبوتری  – تحریر: زکریا تامر  ​-     ترجمہ: رفیع الزماں زبیری

    سفید کبوتری – تحریر: زکریا تامر ​- ترجمہ: رفیع الزماں زبیری

    دلارا

    دلارا

    گندے بچے کی کہانی

    گندے بچے کی کہانی

    Cute baby girl covered in green blanket.

    فاریہ کی کہانی

    شیر اور چوہا۔۔تحریر : ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ

    شیر اور چوہا۔۔تحریر : ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ

    Tasty art.

    نیلم چڑیا اور آگ

  • شعر و شاعری
  • شاعر
    • پیرزادہ عاشق کیرانوی
    • حمید ؔعظیم آبادی
    • احمد فراز
    • احمد ندیم قاسمی
    • الطاف حسین حالی
    • پروین شاکر
    • جون ایلیا
    • علامہ اقبال
    • ﺳﺎﻏﺮ ﺻﺪﯾﻘﯽ
    • فیض احمد فیض
  • مصنفین
    • سعادت حسن منٹو
  • تعارفِ کتب
  • آرٹیکلز اور کالم
  • ادب و مزاح
  • کہانیاں
  • سائنس اور ٹیکنالوجی
  • بلا عنوان
No Result
View All Result
کیف ادب
سرورق ادب و مزاح مصنفین عبداللہ جاوید

آگہی کاسفر – تین افسانے – عبداللہ جاوید

سید فرمان غنی پوسٹ / تحریر سید فرمان غنی
جون 6, 2020
مین عبداللہ جاوید, کہانیاں
1 min read
537 6
0
چھت سے گرنے والی – تین افسانے – عبداللہ جاوید
Share on FacebookShare on TwitterShare on WhatsappShare on Pinterest

آگہی کاسفر –

 اس عجیب و غریب اشتہار کو میں عرصۂ دراز سے پڑھتی آ ئی تھی لیکن اس مرتبہ وہ میرے ذہن کے اس گو شے میں اتر پڑا جہاں سے آدمی کو عمل کی ترغیب ملتی ہے اور میں حرکت میں آ گئی۔ اشتہار کے الفاظ میں نیچے درج کئے دیتی ہوں۔ اس تحریر کی ضرورت یوں پیش آئی کہ اشتہار ایک سفر سے متعلق تھا۔ میں نے سوچا مجھ سے قبل قدیم زمانے سے سفر پر نکلنے والوں میں سے اکثریت نے روزنامچے، یادداشتیں ڈائریاں اور سفرنامے قلم بند کئے تھے جن میں سے بعض کی افادیت بعد میں کھل کر سامنے بھی آئی لہٰذا مجھے بھی ایک روز نامچہ تیّار کرنا چاہئے۔ شاید اس کا لکھنا بھی ایک مثبت اقدام ثابت ہو۔ سو یہ ہے میری تحریر کا شانِ نزول۔ پہلے متذکرہ اشتہار جو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ساری دنیا میں دکھایا جا رہا تھا۔

 ’’ آگہی کے سفر پر جانے کے خواہشمند مسافروں سے درخواست ہے کہ اپنی قریب ترین بندرگاہ یا طیارہ گاہ پر دن اور رات کسی بھی وقت پہنچ جائیں، اپنے لباس پر کسی بھی نمایاں جگہ پر ’’ آگہی ‘‘ کا لفظ لکھ دیں اور کچھ دیر انتظار فرمائیں ہمارے عملے کے سارے لوگ آپ کے سفر کا سارا انتظام خود ہی انجام دیں گے۔ لفظ ’’ آگہی ‘‘ کسی بھی زبان میں تحریر کیا جا سکتا ہے۔ اخراجاتِ سفر ہمارے ذمّے۔ اسباب کی ضرورت نہیں۔ دستاویزاتِ سفر آپ کا مسئلہ نہیں۔ آپ کی حفاظت، جملہ ضروریات، کھانا، دیکھ بھال، دوائیاں، ہیلتھ کئیر ہمارے ذمّے۔

منجانب نگراں ’’ آگہی ‘‘ سفر

 میں نے اشتہار کے الفاظ من و عن مطابقِ متن درج کر دیئے ہیں۔ دنیا بھر میں اور شاید دنیا کی ہر زبان میں اس اشتہار کا مضمون یکساں ہے اب آپ یہ نہ پوچھنے بیٹھ جائیں کہ میں نے اس اشتہار کی کوئی تصدیق وغیرہ بھی کی یا نہیں ؟ ظاہر ہے مجھ جیسی عورت جس کو ایک دنیا فرنٹ لائن رائٹر کے طور پر جانتی ہے جس نے دنیا کی اعلیٰ ترین جامعات سے اعلیٰ ترین امتحانات، اعلیٰ ترین اعزازات کے ساتھ پاس کئے ہوں اتنی سادہ لوح نہیں ہوسکتی کہ اس اشتہار پر یقین کر لیتی۔ میں نے پہلے پہل اس اشتہار کو دیوانے کی بَڑ قرار دے کر اپنے ذہن کی کھڑکی سے باہر پھینک دیا تھا۔ اس کا سبب صاف تھا دنیا کے کسی بھی ادارے نے اس اشتہار کی اشاعت کی ذمّہ داری قبول نہیں کی تھی۔ میں نے دنیا کے بڑے بڑے معتبر اخباروں کے مدیروں سے لے کر مالکوں تک کو بھی کھڑ کھڑا لیا تھا۔ خود بھی انٹرنیٹ پر اور چند ایک ماہرین انٹرنیٹ کے تعاون سے بھی ’’ آگہی‘‘ کے سفر اور اس کے کرتا دھرتا لوگوں کا پتہ چلا نے کی کوشش کی تھی مگر بے سود۔ میں نے دنیا کے طاقتور ترین ممالک کے اطلاعاتی و تحقیقاتی اداروں سے بھی رجوع کیا مگر بے نتیجہ۔ اس معاملے کو قومی اور بین الاقوامی سیکیورٹی کا معاملہ بنانے کے بھی ممکنہ جتن کر ڈالے لیکن وہی ڈھاک کے تین پات۔ ۔ ۔ ۔ میں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اس اشتہار کے مشتہرین پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جا رہا ہے۔ ۔ ۔ ؟اس کے لئے مالی ادائیگیاں کرنے والوں سے پوچھ گچھ کیوں نہیں کی جا رہی ہے۔ ۔ ؟ میرے ان آخری سوالات کا جو جواب ملا اس نے مجھے حیران، پریشان، چوکنّا اور لا جواب کر دیا۔

وہ جواب یہ تھا کہ مذکورہ اشتہار آپ ہی آپ نشر ہو رہا ہے اور طبع ہو رہا ہے۔ اس کو روکنے کی بھی ساری تدبیریں بے کار گئی ہیں۔ اس جواب کے ملنے کے بعد میں نے اس اشتہار کے بارے میں سوچنا قطعی چھوڑ دیا۔ اپنے ذہن کواس خیال سے بہلا دیا تھا کہ اس کے عقب میں کسی عالمی بڑی طاقت کا ہاتھ ہے ورنہ یہ سب ٹیکنالوجی کے طور پر اتنا اعلیٰ، اتنا جدید، اور ظاہری طور پر اتنا حیران کن اور نا قابلِ فہم نہیں ہوسکتا تھا۔ ایک زمانے میں اُڑن تشتریوں کا مسئلہ سامنے آیا تھا جو بغیر حل ہوئے دب گیا تھا۔ برمودا ٹرائینگل، ( برمودا کے مثلث ) کا معاملہ بھی زور و شور سے اٹھا اور ڈوب گیا۔ کسی بڑی طاقت کے قبضے میں ایلین کی موجودگی کی افواہوں کا بھی کچھ ایسا ہی حشر ہوا۔ میری طرح اور بھی لوگ ہوں گے جو اس اشتہار کو اس مرحلے تک پہنچا کر عاجز آ گئے ہوں گے۔ میں بھی عاجز آ چکی تھی، ہار چکی تھی اور بالآخر اس کو بھلا چکی تھی تا آنکہ وہ خود میرے ذہن میں اتر پڑا۔ مجھ کو متحرک کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ مجوزہ سفر کے لئے آپ ہی آپ میں تیار ہو گئی۔ میری ہر حرکت بلا ارادہ سر زد ہوتی گئی۔ میں نے کسی بھی دوست یا رشتے دار کو اطلاع دینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ میں جانتی تھی سب اپنی اپنی زندگیوں میں مگن مطلبی لوگ تھے جو کسی ذاتی غرض کی بناء پر مجھ سے رجوع ہوتے اور غرض کے پورے ہوتے ہی مجھ میں یا میرے کسی کام میں کیڑے نکال کر مجھ سے کٹ جاتے۔ میں شادی کرنے کی کوشش میں بھی ناکام رہی تھی۔ میں شاید مردوں کی نظر میں ضرورت سے زیادہ پڑھی لکھی اور لکھنے والی کے طور پر غیر معمولی مشہور و معروف سلیبریٹی تھی اور مردوں کی اکثریت کی نظروں میں سلیبریٹی عورت ’’ گھر نہیں بنا سکتی۔ ‘‘ میرا کوئی بوائے فرینڈ بھی نہیں تھا۔ کیونکہ جن دنوں میں ’’ گرل ‘‘ تھی کسی لڑکے کی گرل فرینڈ نہ بن سکی تھی۔ کسی لڑکے کی مجال نہیں ہوئی کہ مجھے اپنی آئس کریم چاٹنے کے لئے پیش کرے۔ رہا کافی یا چائے کی رفاقت تو کوئی لڑکا مجھے اس کی دعوت دینے حماقت کر بیٹھتا تو اس کے دماغ کے سارے طبق روشن ہو جاتے جب وہ دنیا کے کسی بھی موضوع پر میرے آ گے زبان کھولتا۔ جب میں گھر سے نکلنے کو تھی تو میرا بہت دل چاہ رہا تھا کہ میرا کوئی ہوتا جس کے نام پیغام چھوڑتی۔ تاہم رسم پوری کرنے کے لئے میں نے میز پر رکھے ہوئے کیلنڈر کے ایک گوشے پر لکھا۔ ’’ ہیلو ڈیئر۔ ۔ ۔ میں آگہی کے سفر پر جا رہی ہوں، مجھے اچھے سفر کے لئے ’’ وش ‘‘ کرو۔ تمہاری جو بھی تم سمجھو۔ ۔ ’‘ اپنے جیکٹ کے کالر پر ’’ آگہی ‘‘ کا ٹیگ لگایا اور ایک چھوٹے سے ہینڈ کیری کو گھسیٹتی ہو ئی باہر نکل پڑی۔ قریبی ایئر پورٹ پر گاڑی پارک کی اور انتظار گاہ میں داخل ہو گئی۔ میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب میں نے دیکھا کہ ادھر میں انتظار گاہ میں داخل ہو ئی اُ دھر ایک سرو قد ایئر ہوسٹس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، مسکرائی اور ’’ آگہی ‘‘ کا ٹیگ میرے کالر سے جدا کیا اور ایک نیلے رنگ کی فائل میں ڈال دیا۔ اپنے ساتھ آنے کا ہلکا سا اشارہ کیا۔ میرے ساتھ اس ہینڈ کیری کے علاوہ کوئی اور اسباب نہیں تھاجس کو پارک کرنے کے وقت گاڑی سے باہر نکال لیا تھا۔ ایئر پورٹ پر مختلف مقامات پر الگ الگ جانے والی ایئر لائنوں کے مسافروں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ مذکورہ ایئر ہوسٹس کے عقب میں قطاروں سے بے نیاز میں آ گے بڑھتی گئی۔ وہ ایک دروازے کے سامنے جا کر ادب سے ایک طرف ہو کر کھڑی ہو ئی۔ میں نے پہلی بار اس کے چہرے پر کھل کر نظر ڈالی یا شاید اس نے مجھے ایسا کر نے دیا۔ اس کا چہرہ روشنی سے بنا تھا اس سے آنکھیں ملانے کی مجھے ہمت نہیں ہوئی۔ اس کی آواز جو مجھے بے حد دلکش اور پُر اعتماد لگی میرے کانوں میں اتری۔ وہ کہنے لگی ’’ آ گے کا دروازہ کھولو، جہاز کا زینہ چڑھو، ایک انتہائی اہم اور دلچسپ سفر تمہارا منتظر ہے۔ ۔ یہ رہا تمہارا بورڈنگ کارڈ۔ ‘‘ ایئر ہوسٹس کے ہاتھ نے میری جانب کارڈ بڑھایا۔ میں نے کارڈ تھاما، دروازہ کھو لا اور ہینڈ کیری گھسیٹتی ہو ئی اندر چلی گئی۔ بائی بائی۔ ۔ ایئر ہوسٹس کی آ واز مجھے باہر سے اندر آتی ہو ئی معلوم ہوئی۔ میں نے سوچا یہ عجیب سفرہے نہ قطاریں لگیں، نہ کلیئرنس کروایا بس جہاز کے اندر ہو گئے۔ یہ کیسی فضائی کمپنی تھی کہ انتظار گاہ میں داخل ہوتے ہی فضائی میزبان خدمت میں حاضر۔ ایساتو صرف وی۔ وی آئی۔ پی (بہت زیادہ اہم ) کے ساتھ ہوتا ہو گا۔

 جہاز کے اندر سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا ہوا کرتا ہے۔ ایک انتہائی خوبصورت فضائی میز بان نے مجھ سے بورڈنگ کارڈ طلب کیا۔ نصف حصہ خود رکھا اور نصف مجھے لوٹا دیا۔ اور انتہائی خوش اخلاقی سے، مجھ سے آگے چلتے ہوئے میری نشست کی نشاندہی کی۔ میری ہینڈ کیری کو میری نشست کے نیچے رکھا۔ اور اس سے پہلے کہ میں اپنی نشست پر اپنے آپ کو جماتی وہ جہاز کی فضا میں تحلیل ہو گئی۔ بیٹھنے کے ساتھ ہی میں نے اپنے پڑوس میں بیٹھے ہوئے مسافرپر ایک چور نظر ڈالی مبادا وہ میرے اس تجسس کو نا شائستگی سے تعبیر کرے لیکن نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگا میرے ساتھ کی نشست پر بیٹھا ہو ا مسا فر جو ادھیڑ عمر کا ایشیائی دکھا ئی دے رہا تھا۔ وہاں مو جود ہونے کے باوجود غیر مو جود تھا میں نے اس کو ’ ہائی، ہیلو ‘ کہنا چاہا تاکہ اس کو پتہ چلے کہ اس کے ساتھ والی نشست پر بیٹھنے والی عورت کوئی مہذب خاتون ہے۔ لیکن یہ کیا میری زبان پر دو حرفی اور چار حرفی لفظ بھی نہ آ سکے۔ میں نے بار بار منہ کھولا، ہونٹوں کو حرکت دی، حلق کے عضلات کو تکلمی جنبشیں دیں، زبان کو اٹھایا، بٹھایا، گھمایا، دائیں بائیں ہر طرح کی حرکت دی، پھیلایا، سکیڑا، سمیٹا، گولائی میں لپیٹا، آواز کے حنجرے( ساؤنڈ بکس ) پر پوری توانائی صرف کر دی۔ لیکن میرے حلقوم سے کوئی آواز برآمد نہیں ہو ئی اتنی سا ری کوششوں میں نا کامی کے باوجود میری ہیلو، ہائی میرے بازو والے آدمی تک پہنچ بھی گئی۔ اور اس شریف آدمی کے چہرے پر اس کی رسید اور جواب صاف طور پر تحریر ہو گیا۔ خود میرے اندر اس کی جوابی ہیلو، ہائی بھی نازل ہو چکی تھی۔ اس شریف آ دمی نے محسوس کیا ہو یا نہ کیا ہو، میں نے یہ حیرت ناک حقیقت محسوس کر لی۔ اس فضائی میز بان نے مجھ سے جس طرح کلام کیا جس نے ایئر پورٹ سے جہاز کے گیٹ وے تک میری رہبری کی۔ اور اب دونوں مسافروں نے جس طرح ہیلو، ہائی کیا۔ اس سے مجھ پر واضح ہو گیا۔ یا میرے مولا۔ ! یہ بغیر الفاظ کے بات چیت کا انوکھا طریقہ تھا۔ اس سے آپ فا رسی کی اس شاعرانہ کہاوت کی طرف ذہن کو نہ لے جائیں ؎ خموشی معانی دارد کے در گفتن نمی آید۔ کیونکہ یہاں معاملہ بالکل مختلف تھا ’’ اس کو بغیر الفاظ کے بات چیت کہنا درست ہو گا یا اس کے لئے کوئی نئی اصطلاح اختراع کرنا پڑے گی۔ ۔ ’‘ میں نے سوچا ’’ دوسرے آ دمی کے خیالات میرے ذہن کے اندر اور میرے خیالات دوسرے آدمی کے ذہن کے اندر ابلاغ یا ترسیل ہو رہے تھے۔ الفاظ کی صورت اختیار کئے بنا۔ ۔ ’‘ میں نے اپنے آپ کو باور کرانے کی کوشش کی۔ تھوڑی دیر کے لئے سفر کو بھول کر شاید اس الجھن کو سلجھانے میں لگ گئی لیکن جلد ہی اپنے آ پ کو سنبھال لیا۔ میں مسافرتھی اور مسافر لمحۂ موجود سے غافل نہیں رہ سکتا۔ لمحۂ موجود کے مطابق میں جہاز کے اندر تھی۔ جہاز کا اندرون بظاہر تو عام جہازوں جیسا تھا لیکن مجھے بدلا بدلا سا لگا۔ مثال کے طور پر اس احساس کو کیا کروں مجھے فضائی میزبان نظر نہیں آ ئی لیکن یہ کیا ادھر میں نے سوچا اور اُدھر فضائی میزبان ایک ٹرالی دھکیلتے ہوئے میرے عین داہنے بازو آ موجود ہو ئی اور بولی ’’جوس، سافٹ ڈرنک، پانی ‘‘۔

’’ کافی ملے گی۔ ۔ ؟ ‘‘ میں نے اس سے سوال کیا۔

’’ ایک لحظہ انتظار کیجئے براہِ کرم ‘‘ اس نے انتہائی ادب سے کہا اور آ گے بڑھ گئی۔ پلک جھپکتے ہی ایک اور میزبان ( اس دفعہ مرد ) کافی، چائے، اور دیگر گرم مشروبات کی ٹرالی کے ساتھ حاضر ہو گیا۔ میں نے کالی کافی طلب کی جو مجھ دے دی گئی۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے مسافر نے کسی نا معلوم زبان میں کوئی عجیب سا گرم مشروب مانگ لیا جس کے بخارات سے میری اپنی ایک پسندیدہ خوشبو ’’ شرارت ‘‘ (Mischief) کی مہک آ رہی تھی۔ مجھے بے حد اچھا لگا۔ اچانک سب کچھ معمول کے مطابق ہو نے لگا کپتان کی جا نب سے بھی کچھ نشر ہوا۔ فضائی میزبانوں نے کچھ ہدایات دیں۔ ٹی وی آ سکرین بھی روشن ہوئے اور مسافروں نے اپنے من پسند پروگرام سننے کے لئے کانوں پر ہیڈ فون چڑھا لئے لیکن جہاں تک ابلاغ کا معاملہ ہے اس کا کوئی ثبوت نہ ملا۔ یا تو خیالات بغیر الفاظ کا جامہ پہنے ایک ذہن سے دوسرے ذہن میں منتقل ہو رہے تھے یا پھر لفظ اگر تھے تو ا ن کی نوعیت بد لی ہوئی تھی۔ بے جسم لفظ۔ مجرّد لفظ۔

’’کیا واقعی میں آگہی کا سفر کر رہی ہوں ‘‘۔ میں نے اس سے پہلے نہ توا س طرح سوچا تھا اور نہ ہی اپنے آپ کو سمجھا یا تھا۔ میرا ذہن روشن ہو رہا تھا۔ میری فکر کے تاریک گوشوں پر روشنی کی کرنیں سی پڑنے لگی تھیں۔ جہاز پر ابلا غ کی صورت جو مشاہدے میں آ رہی تھی اس نے مجھے اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس عقیدے کو یقین اور ایمان کی حد تک سمجھنے کے قابل بنا دیا کہ ’’ اللہ جو سوچتا ہے وہ ہو جاتا ہے ‘‘۔ وہ اشبدھ ہے اسے لفظوں کی احتیاج نہیں۔ لفظ وقت کے ساتھ بدلتے ہیں۔ وقت کے زیرِ اثر ہیں۔ اللہ وقت کے زیرِ اثر نہیں۔ اس سے قبل میری سوچ فقرے پر رکی ہوئی تھی۔ ’’ سب سے پہلے لفظ تھا ‘‘ (Before every thing, there was word ) اس طرح سوچتے سوچتے میں اپنی سوچوں کے لئے بھٹکتی پھری۔ مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ جہاز پر کھانا دیا بھی گیا کہ نہیں۔ دھندلی دھندلی یاد میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں نے کھانے کی ٹرالی والی سے از راہِ مذاق ایسی ڈش مانگی جو ہوائی جہازوں میں مہیا نہیں کی جاتی لیکن اس نے مہیا کر دی اور میں دل ہی دل میں جھینپ کر رہ گئی۔ آ خر کار کپتان کی جانب سے یہ اعلان القا ہوا کہ ’’ ہمارا جہاز اپنی منزلِ مقصود ’’ آگہی ‘‘ کی طیران گاہ پر اترنے والا ہے۔ مبارک ہو ‘‘ چند لحظوں کے بعد جہاز نے ٹیکسی کی اور میں دوسر ے مسافروں کے ساتھ اپنی ہینڈ کیری گھسیٹتی ہوئی زینے کے قریب کھڑے ہوئے جہاز کے کپتان اور عملے والوں کی مسکراہٹوں کے جواب میں اپنے دانت دکھاتے ہوئے جہاز کے زینے سے نیچے اتر گئی چند قدم کے فاصلے پر ایک لابی( غلام گردش ) دکھائی دے رہی تھی۔ ہم سب اس پر پہنچ گئے ہم نے دیکھا کہ دوسری جانب ایک انتہائی خوبصورت اور خاصی لمبی گاڑی کھڑی تھی۔ ہم مسافر اس گاڑی میں سوار ہوئے۔ ایسی گاڑی کسی نے کہاں دیکھی ہو گی۔ مسافروں نے جہاز میں تو ایک دوسرے سے بات کرنے سے پرہیز کیا تھا شاید ہر کوئی اس عجیب و غریب مہم کے زیرِ اثر گنگ ہو گیا ہو گا لیکن اس گاڑی کے اندرون کو دیکھ کر سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور سب ہی ستائشی کلمات کے تبادلے میں لگ گئے۔ یہ بتانا اب شاید غیر ضروری ہو گیا ہو گا کہ بظاہر بات چیت ہو رہی تھی لیکن حقیقت میں غیر لفظی ابلاغ سے کام لیا جا رہا تھا ’’یہ بھی تو ممکن ہے ہمارا کھانا، پینا، جہاز، ایئر پورٹ، بس، فضائی میزبان، کپتان، عملہ، سفر، ظاہر میں کچھ اور باطن میں کچھ اور ہو’‘ کسی برقی جھماکے کے طور پرسوچ کا یہ رخ میرے ذہن میں اچانک وارد ہو گیا جس کو جھٹک کر باہر نکال پھینکنا مجھے بہت مشکل ہوا تاآنکہ ہم ’’ آگہی ‘‘ کے مرکزی دفتر ’’ Base ‘‘ پر اتار دیئے گئے۔

مرکزی دفتر یا ’بیس ‘ کی عمارت نہ توسنگ و خشت سے تعمیر شدہ تھی اور نہ ہی چوبی تھی۔ یہ قیاس کرنا ممکن نہیں کہ اس بیضوی عمارت اور اس کے پہلو میں بنا ہوا ٹاور، لاٹ یا مینار کسی تعمیری مواد سے تشکیل دیا گیا تھا۔ یوں بھی وہ بڑاسا خوبصورت انڈا اور مینار تعمیر شدہ نہیں لگتے تھے۔ صاف طور پر ظاہر ہوتا تھا کہ ان میں سے کچھ بھی تعمیر شدہ نہ تھا۔ بلکہ تخلیق شدہ تھا۔ اس علاقے میں جہاں میں پہنچائی گئی تھی جو کچھ تھا محض خیال تھا۔ احساس تھا یا خیال اور احساس کا آمیزہ۔ جو سوچا گیا اور سوچ سے خلق ہو گیا، عین اسی طرح جس طرح زمین، چاند، ثوابت و سیار اور نظامِ شمسی خلق ہوئے سوچ سے۔ سوچ چودھویں کی طرح ہے اور تسلسل کے ساتھ ایک کے بعد ایک کہکشاؤں کے سلسلے خلق کرتی جا رہی ہے۔

’’ آگہی ‘‘ کے مرکز اور مینار کی درمیانی جگہ ایک چھوٹے سے لان کی صورت میں تھی جس کے کنا رے پھولوں کے قطعات تھے۔ لان میں جو گھاس کا فرش تھا وہ حقیقی نہیں معلوم ہوتا تھا۔ ایک دبیز قا لین تھاجس نے میرے پورے وجود کو اپنے آغوش میں سمیٹ لیا۔ کنا رے پھولوں پر نظر پڑی تو جسم، ذہن، دل اور روح، خوشبو اور رنگ میں نہا گئے۔ ’’آگہی ‘‘ کے داخلی دروازے پر چمکدار حرفوں سے لکھا ہوا ایک بورڈ آویزاں تھا۔

’’بابِ آگہی میں داخل ہونے والوں کی واپسی کی ضمانت نہیں دی جائے گی۔ واپسی کا معاملہ انتظامیہ کے حتمی فیصلے سے مشروط ہو گا جن مسافروں کو داخل ہونا منظور نہ ہو وہ مینار کے نیچے والی لابی میں تشریف لے جا سکتے ہیں۔ ان کی واپسی کا انتظام فوری طور پر ممکن ہے۔ ’‘ مسافر اس تحریر کو پڑھ کر حیران ہو رہے تھے۔ ایک خاص بات یہ تھی کہ بورڈ ایک ہی تھا لیکن اس کی تحریر ہر پڑھنے والے کو اس کی اپنی زبان میں لکھی نظر آ رہی تھی۔ مسافر تحریر پڑھ رہے تھے۔ ۔ ۔ سوچ رہے تھے۔ ۔ ۔ دو دلے ہو رہے تھے۔ ۔ ۔ کسی فیصلے پر پہنچنا کسی بھی مسافر کے لئے آ سان نہ تھا۔ مسافروں میں ہر مسافر اپنے انداز میں ردِ عمل کا اظہار بھی کر رہا تھا۔ زیادہ لوگ بے چین بے چین ٹہل رہے تھے۔ کچھ لان پر سر پکڑ کر بیٹھ گئے تھے۔ کچھ وقت اس طرح گزرا پھر فیصلے سامنے آنے لگے۔ بیشتر مسافروں نے مینار کا رخ کیا اور بہت کم باب آگہی کے نیچے جمع ہوئے۔ اور ایک ایک کر کے اس کے اندر داخل ہو گئے۔ ان داخل ہو نے والوں میں سب سے آ خر ی مسافر میں تھی جس نے سب سے آ خر میں یہ فیصلہ کیا۔ ۔ ۔ میں نے سوچا۔ ’’ آگاہ ‘‘ ہو کر واپس نہ بھی ہو ئی تو کون سا فرق پڑ جا ئے گا۔ دنیا تو اب بھی چل رہی ہے تب بھی چلتی رہے گی۔ ‘‘

Tags: Urdu Story
سید فرمان غنی

سید فرمان غنی

تعارف تو کچھ خاص نہی ، بس ایک عاجز سا انسان ہوں،

متعلقہ Posts

چھت سے گرنے والی – تین افسانے – عبداللہ جاوید
عبداللہ جاوید

ہونے کا درخت – تین افسانے – عبداللہ جاوید

پوسٹ / تحریر سید فرمان غنی
جون 8, 2020
چھت سے گرنے والی – تین افسانے – عبداللہ جاوید
عبداللہ جاوید

چھت سے گرنے والی – تین افسانے – عبداللہ جاوید

پوسٹ / تحریر سید فرمان غنی
جون 5, 2020
چھبیس مزدور اور ایک دوشیزہ (افسانہ) میکسم گورکی، ترجمہ سعادت حسن منٹو
سعادت حسن منٹو

چھبیس مزدور اور ایک دوشیزہ (افسانہ) میکسم گورکی، ترجمہ سعادت حسن منٹو

پوسٹ / تحریر سید فرمان غنی
اپریل 27, 2020
مُوسی کا آدم خور مگرمچھ
کہانیاں

مُوسی کا آدم خور مگرمچھ

پوسٹ / تحریر مقبول جہانگیر
مارچ 30, 2020
  • کچھ ہمارے بارے میں
  • ہماری پالیسی
  • رابطہ کریں
....

© 2020 کیف ادب -

No Result
View All Result
  • رابطہ کریں
  • کچھ ہمارے بارے میں

© 2020 کیف ادب -

Login to your account below

Forgotten Password?

Fill the forms bellow to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In