میں ایک گندا بچہ ہوں. گندا بچہ ہونا کوئی خاص بات نہیں روزانہ ہی آپکو ایسے بیشمار گندے بچوں سے واسطہ پڑتا ہوگا. میں بھی بلکل ان ہی جیسا ہوں بلکہ شاید ان سے بھی گندا. ایسے گندے بچے ہمارے معاشرے میں باسانی ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں. یہ کوئی ایسا مشکل کام نہیں. گندے بچوں کو پہچاننے کے کئی بہت آسان طریقے ہیں. پہلا یہ کہ ایسے بچے کلاسس روم سب سے پیچھے ہوکے بیٹھتے ہیں اچھے بچوں سے بلکل الگ تھلگ. گندے بچے سامنے کی ڈیسکوں پہ بیٹھے کسی استاد کو اچھے نہیں لگتے. کیوں کھ وو گندے ہوتے ہیں اسی لئے گندے بچے ہمیشہ پیچھے کی ڈیسکوں پہ بیٹھتے ہیں بلکل دیوار کے ساتھہ والی ڈیسکوں پر. دوسرے لفظوں میں گندے بچوں کو شروع سے ہی دیوار کے ساتھہ لگا دیا جاتا ہے.
کلاسس میں سب سے پیچھے ہوکے بیٹھنے کے آخر کیا اسباب ہیں؟ حالانکہ سب سے پیچھے ہوکے بیٹھنے سے بھی آپ کسی طرح کلاسس ٹیچر کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوسکتے اور نا ہی استاد کی مار سے بچ سکتے ہیں. مار کھانا تو گندے بچوں کے لئے لازم و ملزوم ہے. اوسطا مجھے سکول میں ہر روز ایک تھپڑ کھانا پڑتا ہے. اکثر اپنے کلاسس ٹیچر سے اور کبھی کبھار سکول کے مالی اور چپراسی سے بھی. مگر تھپڑ گندے بچوں کے لئے کیوں ضروری ہے یہ بات مجھے آج تلک سمجھھ میں نہیں آئ لیکن اس پر بحث ہم آگے جا کر کریں گے. میں تو بات کر رہا تھا کلاسس میں پیچھے بیٹھنے کی. میں نے بھی ایک مرتبہ کلاسس میں آگے اچھے بچوں کے ساتھہ بیٹھنے کی کوشش کی تھی لیکن وہاں تو عجیب ہی منظر دیکھنے کو ملا.
ہر بچے کے صاف ستھرے استری شدہ کپڑے، سلیقے سے کنگھی کیے ہوے بال، خوشبو والے صابن سے دھلے چہرے، منھ ٹھنڈا کرنے والے ٹوتھہ پیسٹ سے چمکائے گۓ دانت اور انتہائی اہتمام سے تراشیدہ ناخن. نہ ہی کسی کی قمیض کا کوئی بٹن ٹوٹا ہوا اور نہ ہی کسی کے جوتوں کا تسمہ باھر زمین پہ جھولتا ہوا. نہ کسی کے کانوں میں جمی میل اور نہ بالوں میں بکھری خشکی. نہ کہیں یونیفارم پہ سیاہی کے دھبے اور نہ کسی کے پائنچے گردمٹی میں اٹے ہوے. صاف ستھرے دیدہ زیب و رنگ برنگے سکول کے بستے اور بستوں کے اندر ہر کاپی اور کتاب قرینے سے رکھی ہوئی. نہ تو کسی کتاب کی جلد پھٹی ہوئی اور نہ ہی کسی پنسل کی نوک ٹوٹی ہوئی. نہ ہی کاپیوں پہ چپکے جنگی جہازوں کے سٹیکرزاور نہ کتاب کے ٹائٹل پہ بنے نقش و نگار.
یہ منظر میرے لئے واقعی حیران کن تھا. آگے بیٹھنے والوں میں اور پیچھے بیٹھنے والوں میں اتنا فرق اور وہ بھی ایک ہی کلاسس میں رہتے ہوے سمجھھ سے باھر تھا. آگے کی ڈیسکوں پہ عجب ہی دنیا آباد تھی. ہر چیز اچھی، ہر بچھ لائق، اپنا کام وقت پھ پورا کرنے والا. جبکہ پیچھے کی ٹوٹی پھوٹی ڈیسکوں کی حالت اور ان پر براجمان گندے بچے دونوں کا حال ہی انتہائی افسوسناک تھا. یہی وجہ ہے کے ان دونوں کو کلاسس میں ہمیشہ پیچھے ہی رکھا جاتا ہے ان ٹوٹی پھوٹی ڈیسکوں کو بھی اور ان گندے بچوں کو بھی.
گندے بچوں کی ظاہری حالت ہی انکے اس خطاب کی تصدیق کرتی ہے. گندے بچے روزانہ نہیں نہاتے اسی لئے انکے بےترتیب بالوں میں ہر طرف خشکی بکھری نظر آتی ہے اور اس بات پر گندے بچوں کو سکول ہو یا گھر بہت مار پڑتی ہے. حالاں کھ مارنے والوں کو مارنے سے پہلے یہ تو سوچ لینا چاہیے کھ اگر گندے بچے بھی روزانہ نہانے لگے تو پھر وہ گندے بچے کس طرح رہ پائیں گے اور جب وہ گندے بچے نھ رہیں گے تو پھر کلاسس روم کی پچھلی نشتستوں پہ کون بیٹھے گا؟
گندے بچوں کے کانوں میں پرانی میل جمی ہوتی ہے. گندے بچے صحیح سے منھ بھی نہیں دوھتے. انکی آنکھوں میں کیچڑ بھی دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی گندے بچے روزانہ دانتوں میں برش کرتے ہیں. انکے منھ سے اک ناگوار سی بو آتی ہے اور اسی بو سے بچنے کے لئے کلاسس ٹیچر انھیں پیچھے کی ڈیسکوں پہ بٹھاتے ہیں تاکہ وہ اور دوسرے صاف ستھرے اچھے بچے گندے بچوں کی بو سے بھی دوررہیں. گندے بچوں کے یونیفارم میں بھی ہزارہا نقائص پاے جاتے ہیں. سب سے پہلا نقص یہ کھ انکی قمیض کا کوئی نہ کوئی بٹن ٹوٹا ہوتا ہے خصوصا کالر کا. معلوم ہوتا ہے کھ گندے بچوں کے گھروں میں کوئی بٹن ٹانکنے والا نہیں ہوتا جو انکی قمیض کے بٹن ہی ٹانک دے حالاں کھ اگر یہ اچھے بچے ہوتے تو یقیناً دادی اماں سے لیکر چھوٹی باجی تک سب بٹن ٹانکنے کو دوڑ رہی ہوتیں. ایسا لگتا ہے کھ گندے بچوں کی دادی اماں، چھوٹی یا بڑی باجی نہیں ہوتیں جو انکی خبر گیری کرسکیں. جبکہ حقیقتاً گندے بچے بھی اپنی دادی اماں کے پوتے اور بڑی باجی کے چھوٹے بھائی ہوتے ہیں مگر چونکہ وہ گندے ہوتے ہیں اسی لئے کوئی انکی طرف جی بھر کے دیکھتا ہی نہیں قمیض کے بٹن ٹانکنا تو دور کی بات ہے.
گندے بچے کے یونیفارم میں جابجا سیاہی کے دھبے نظر آتے ہیں. ہوتے تو محض یہ سیاہی کے دھبے مگر کلاسس ٹیچرز ایسے بچوں کو دوسرے بچوں سے ایسے دور رکھتے ہیں کھ جیسے یہ کوڑھ کے مریض ہوں اور یہ سیاہی کے دھبے کوڑھ کے دھبے ہوں. جسطرح ان مریضوں کو معاشرہ اپنے آپ سے کافی دور رکھتا ہے اسی طرح یہ بچے بھی کافی فاصلے سے بٹھاے جاتے ہیں.
گندے بچوں کے تسمے بھی کھلے ہوے ہوتے ہیں بلکل انکے گریبان کی طرح اور جوتوں کے اندر ڈھکے چھپے موزے بھی جابجا پھٹے ہوے ہوتے ہیں. گندے بچے ہفتوں ناخن نہیں تراشتے اور نا ہی انکے اندر کی میل صاف کرتے ہیں بس ہر وقت گندے ہی رہتے ہیں. اب سوال سے پیدا ہوتا ہے کھ کیا ان بچوں کو یہ گندگی واقعی اچھی لگتی ہے؟ قطعاً نہیں. وہ فطرتاً گندے تھوڑا ہی ہوتے ہیں بلکہ گندے بچے کا جو لیبل معاشرہ ان پر لگاتا ہے وہ تو اسی پر پورا اترنے کی کوشش کرتے ہیں.
گندے بچوں کے کپڑے کبھی استری شدہ نہیں ہوتے. جسطرح انکی قمیض کے ٹوٹے بٹن ٹانکنے والے کی راہ تکتے ہیں اسی طرح یہ کپڑے بھی. گندے بچوں کے سکول بیگ بھی عجیب منظر پیش کرتے ہیں. جگہ جگہہ سے ادھڑے ھوے اور اسمیں موجود کاپیاں اور کتابیں بھی بے ترتیب. کسی کتاب کا پہلا صفحہ غایب اور کسی کاپی کا گتا ندارد. بچی کچھی کتابوں کے ٹائٹل پر چسپاں جنگی جہازوں کے بڑے بڑے سٹیکرز اور کاپیوں کے اندر بنے عجیب و غریب نقش و نگار. پنسلوں کی نوکیں ٹوٹی ہوئی اور لوہے کی ڈبیہ کے قبضے تک اپنی جگھ سے نکلے ہوے. جگھ جگھ سے چبایا گیا خوشبودار ربر اور پینسل شارپنر پہ لگی نہایت زنگ آلود بلیڈ. گندے بچے جن ڈیسکوں پہ بیٹھتے ہیں وہ بھی گندی کردیتے ہیں. جگھ جگھ سے ٹوٹی ہوئی سیاہی کے دھبوں سے آراستہ. دوسرے لفظوں میں وہ ان ڈیسکوں کو اپنے بیٹھنے کے قابل بناتے ہیں.
ان بچوں کا کوئی کام مکمل نہیں ہوتا بلکہ ہر وقت نا مکمل ہی رہتے ہیں. ان تمام گندے بچوں میں کوئی بھی لائق و اچھا پڑھنے والا نہیں ہوتا. یہ پڑھائی سے بھاگتے ہیں اور ٹیچرز انھیں پڑھانے سے بھاگتے ہیں جبھی تو انھیں پیچھے ڈیسکوں پہ بٹھایا جاتا ہے. ایسے بچوں کو پڑھانا بھی ٹیچرز کے لئے عذاب ہوتا ہے. گندے بچے اچھے بچوں کی بہ نسبت کوئی سبق جلد سیکھھ نہیں پاتے پھر بھی انکو اچھی طرح کوئی نا کوئی سبق روزانہ ضرور سیکھایا جاتا ہے. گندے بچوں کے سامنے ہر بات بار بار دوہرانی پڑتی ہے اور استاد کو اپنا مغز کھپانا پڑتا ہے. چونکہ یہ کام استاد کے لئے کافی دقت طلب ہوتا ہے اسی لئے وہ ان بچوں کو گندے بچے کا نام دیکر کلاسس کی پچھلی نشستوں پہ بیٹھا دیتا ہے اور یوں بچوں کو دو گروپوں میں بانٹ دیا جاتا ہے. جلد سیکھنے والے بچے اچھے بچے کہلاتے ہیں اور جن بچوں کو پڑھانے سکھانے کے لئے اپنا مغز مارنا پڑتا ہے وہ گندے بچے کہلاتے ہیں. اور یوں دوسرے گروپ کو کلاسس کی پچھلی نشستوں پہ بٹھاکر اور گندے بچوں کا نام دیکر استاد اس مصیبت سے اپنی جان چھڑا لیتا ہے. کسی بھی مشکل کام سے بھاگنے کے لئے یہ ایک نہایت آزمودہ طریقہ ہے جو ہمارے معاشرے میں رائج ہے.
گندے بچوں کو اچھے بچوں سے الگ کردینے کے بعد اب استاد کو ڈھیر سارے بچوں کو پڑھانے کے لئے اپنی ساری توانائی خرچ نہیں کرنی پڑتی. اسکی توجہ سامنے کی ڈیسکوں پہ ہوتی ہے اور پیچھے بیٹھنے والوں کی فکر سے وہ کلی طور پر آزاد ہوتا ہے. سامنے کی ڈیسکوں پر بیٹھے اچھے بچے استاد کی بات بآسانی سمجھھ جاتے ہیں اور استاد انھیں نتیجتاً بہت ساری شاباشیاں دیتا ہے، اچھے بچے کا خطاب دیتا ہے اور اپنی پانچ گھنٹوں کی ڈیوٹی جیسے تیسے پورا کرکے چلتا بنتا ہے جبکہ پیچھے بیٹھنے والے کچھہ سمجھہ ہی نہیں پاتے. لیکن انکا یہ مسلہء استاد کا مسلہء نہیں. استاد تو پہلے ہی انکو دیوار سے لگا کر اپنی جان چھڑا چکا ہے. اب یہ بچے کچھہ سمجھیں نہ سمجھیں. معاشرہ و اساتذہ انھیں پڑھانے کے جھنجھٹ سے قطا ً آزاد ہیں. کیوں کہ یہ بچے گندے ہیں اور بھلا گندے بچے بھی کہیں پڑھ پاتے ہیں.
گندے بچوں کو پہچاننے کی ایک اور جگھ بھی ہے اور وہ ہے مسجد. جو بچے نماز کے دوران شور مچاتے ہیں اور ایک دوسرے سے شرارتوں میں مصروف ہوتے ہیں وہی گندے بچے ہوتے ہیں. سمجھہ میں نہیں آتا کھ گندے بچے مسجد جاتے ہی کیوں ہیں حالانکہ مسجد میں تو ہمیشہ اچھے لوگ ہی جاتے ہیں. تو پھر یہ گندے بچے آخر کاہے کو مسجد پوہنچے ہوتے ہیں؟ بہت آسان سی بات ہے. لوگوں ک نظر میں گند ا ٹھہرنے کے بعد اب ان بچوں کی آرزو ہوتی ہے کہ چلو اللہ کی نظروں میں ہی اچھے بن جائیں. اسی لئے وہ مسجد جاتے ہیں. لیکن وہاں بھی لوگوں کو یہ منظور نہیں ہوتا کھ وہ اچھے بن پائیں. ابھی بچہ مسجد میں قدم رکھتا ہی ہے کھ اسے معاشرے کے عابد و پرہیزگار لوگوں کی ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے. ڈانٹ ڈپٹ کا یہ سلسلہ وضو خانے سے شروع ہوتا ہے. گندے بچے وضو کے دوران پوری ٹونٹی کھول کر پانی سے کھیلتے ہیں اور دوسرے بچوں پر بھی شرارتا ً پانی اچھالتے ہیں. یقینناً وہ صحیح نہیں کرتے مگر اس سے زیادہ غلط وہ لوگ کرتے ہیں جو ان بچوں کو نرم لہجے میں سمجھانے کی بجاے انتہائی اونچی آواز میں سختی سے ڈانٹنا شروع ہوجاتے ہیں. گندے بچے نماز کے دوران بھی شرارتوں سے باز نہیں آتے. کوئی کسی کو دھکا دیتا ہے تو کسی کو کہنی مارنے لگتا ہے. کوئی کسی کی ٹوپی اتار دیتا ہے تو کوئی جواباً اسکے پیر پہ چڑھ جاتا ہے. لوگ نماز باجماعت میں مصروف ہوتے ہیں اور پیچھے بچے اپنے شور اور ہنسی کی آواز سے لوگوں کی نمازوں میں خلل ڈال رہے ہوتے ہیں. بعد نماز پھر ان بچوں کی ہر ممکن طریقے سے تواضح کی جاتی ہے. کوئی پرہیزگار زور زور سے ڈانٹنے لگتا ہے، کوئی عابد چپل اٹھا کے مارنے کو دوڑتا ہے اور کوئی متقی گندے بچوں کے منھ پر زوردار تھپڑ دےمارتا ہے اور یوں ان نیکوکاروں کے وسیلے سے گندے بچے پر اللہ کے گھر کے دروازے بھی بند کر دیے جاتے ہیں اس وقت تک جب تلک وہ اچھے بچے نہ بن جائیں. اور انھیں اچھا بچہ بناے گا کون مدرسہ، گھر یا مسجد. اس کے بارے میں سوچنے کے لئے کسی کے پاس وقت نہیں.
ایک مرتبہ کی بات ہے. نماز عصر ادا کی جا رہی تھی اور میں نماز باجماعت کی ادائیگی کے دوران مسلسل دروازے کی کنڈی بجاے جا رہا تھا. میرا مقصد نماز میں خلل ڈالنا ہرگز نہ تھا بلکہ درحقیقیت اس حرکت سے مجھے بہت مزہ آرہا تھا. بلکل وہی مزہ جو وضو کے دوران پانی سے کھیل کے آتا ہے. میں اسی مزے سے ٹھک ٹھک کرتا رہا. نماز ختم ہوئی اور فوراً ایک پرہیزگار اٹھا اور پوچھا کھ یہ گیٹ کون بجارہا تھا. میرے برابر والے بچے نے میری طرف اشارہ کردیا. بس پھر کیا تھا اس نیک آدمی نے ایک زنا ٹے تھپڑ میرے با ئیں گال پہ جڑا اور دوسرا ویسا ہی دائیں گال پر. وہ نیک آدمی شاید تھپڑوں کا سلسلہ مزید جاری رکھتا مگر میرے ایک محلے والے نے بیچ بچاؤ کر وا کے مجھے مزید مار کھانے سے بچا لیا. وہ آدمی نیک تھا پرہیزگار تھا اسکا کیا بگڑا. کچھہ بھی نہیں. البتہ اس واقعے کے بعد میں نے مہینوں مسجد کا رخ نہیں کیا. بلکہ جب بھی مسجد جانے کی بات کی جاتی مجھہ پہ ایک خوف کی کیفیت طاری ہوجاتی. اور خدا کا گھر میرے لئے عمر بھر کے لئے دہشت کی ایک علامت بن گیا جہاں اصلی والے خدا کی رحمت چکھنے سے قبل انسانی خداؤں کے تھپڑ کھانے کو ملتے ہیں.
کسی پہ ہاتھہ اٹھانے سے قبل آدمی پہلے سوچتا ہے مگر ایک بچے کو مارنے سے پہلے سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی. آپ اسے جتنا چاہے ماریں وہ بھلا آپ کا کیا بگاڑ سکتا ہے. یہی وجھ ہے کھ مدرسہ، مسجد ہو یا گھر بچہ اگر ذرا سی غلطی کر بیٹھے تو اسکے منھ پر فوراً ایک تھپڑ رسید کردیا جاتا ہے اور شاید اسی طرح اچھی تربیت کے تقاضے پورے کیے جاتے ہیں. بچوں پر ہاتھہ اٹھانا بڑوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے. جہاں کوئی مارنے کا بہانہ ہاتھہ آیا وہیں زناٹے دار تھپڑ بچے کے منھ پہ جڑ دیا اور اگر بات گندے بچے کی کیجیے تو پھر تھپڑوں کا سلسلہ مزید طول پکڑ جاتا ہے. جسطرح بچے کو تھپڑ مارنا دنیا کا سب سے آسان ترین کام ہے اسی طرح ایک گندے بچے کو مارنا اس سے بھی زیادہ آسان کام ہے. کیوں کھ اسے مارنے کا ایک جواز ہر وقت موجود ہوتا ہے. گندے بچے کا نام ہی اس بات کا ضامن ہے اسے کسی بھی بات پر کسی بھی وقت دو چار کرارے کرارے ہاتھہ رسید کیے جاسکتے ہیں.
گندے بچے کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور اگر غلطی ہوجاتے تو کسی بھی قسم کی رعایت بھی نہیں کی جاتی. ایک مرتبہ قلم میں سیاہی بھرنے کے دوران سیاہی کی بوتل میرے ہاتھوں سے چھوٹ کر فرش پہ جا گری. بڑے بھائی نے یہ منظر دیکھا تو فٹ سے ایک طمانچہ میرے منھ پہ دے مارا. اس واقعے کے چند روز بعد سیاہی کی بوتل بڑے بھائی کے ہاتھوں سے گر پڑی مگر گھر کے کسی فرد نے انھیں کچھہ نہیں کہا. ابا جان تو یہ کہہ کر مسکرادیے کھ چھوٹی موٹی غلطیاں و نقصانات سرزد ہوجانا تو انسان کی سرشت میں شامل ہے. لیکن دوسری طرف جب بچے سے غلطی ہوجاتی ہے تو کسی رعایت کی گنجائش نہیں ہوتی اور صرف ڈانٹ ڈپٹ اور مار ہی اس بچے کا مقدر ہوتی ہے. کوئی نہیں ہوتا کے اسے ہنس کے سمجھادے، معاف کردے بلکہ سب کے سب بچے کو اتنے بڑے جرم کی سزا دینے میں آگے آگے ہوتے ہیں. بعض اوقات گندے بچے کی کوئی غلطی نہیں ہوتی مگر پھر بھی اسے مار کھانی پڑتی ہے. بڑے دوسروں کا غصہ بلآخر ان بچوں پر ہی اتارتے ہیں اور اپنے دل کا بوجھھ ہلکا کرتے ہیں. جس دن مجھے خوامخواہ کچھ غلط کیے بغیر ہی ابّا جان کی طرف سے دو چار ہاتھہ کھانے کو ملتے ہیں میں سمجھہ جاتا ہوں کھ آج دفتر میں ابّا کا دن اچھا نہیں گزرا اور یوں گھر آتے ہی سارا غصہ مجھہ پہ اتار ڈالا. ابّا ہی نہیں بلکہ گھر کے سارے بڑے بالآخر اپنا غصہ مجھہ پر ہی اتارتے ہیں. بڑے بھائی بھابھی سے لڑکے آتے ہیں تو مجھہ پر غصہ اتارا جاتا ہے. آپا امی سے ڈانٹ کھاتی ہیں تو بعد میں میری شامت آتی ہے اور امی بھی دن بھر کے کام کاج کا غصہ مجھہ پہ اتار کر اپنی تکان دور کرلیتی ہیں. لیکن کبھی آپ نے یہ سوچا کے میں اپنا غصہ کس پر اتارتا ہونگا جبکہ مجھہ سے چھوٹا گھر میں کوئی ہے ہی نہیں؟ ظاہر ہے میں اپنا غصہ کتابوں پر اتاروں گا، انھیں جگھ جگھ سے خراب کروں گا، کاپیوں پر غصے میں عجیب عجیب شکلیں بناؤں گا، یونیفارم کو جان بوجھہ کر میلا کروں گا، سکول بیگ کو جگھ جگھ سے ادھیڑوں گا، پینسل کی نوک توڑ دوں گا، گیلی چاک سے لکھہ لکھہ کر دیواروں کا ستیاناس کروں گا اور گملوں کے پودوں کی نازک پتیوں کو مروڑ ڈالوں گا. جواباً وہی گندا بچہ پکار کر مجھے اپنی شیطانیوں کی یاد دہانی کی جاتے گی جوکہ شیطانیاں نہیں بلکہ ایک رد عمل تھیں. حیرت کی بات ہے عمل کسی کو نظر نہیں آتا مگر رد عمل سب کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے.
بچوں پر ہاتھہ اٹھانا بزدلی کی ایک شکل بھی ہے. کیوں آپ ایک بچے سے کسی قسم کے شدید رد عمل کی توقع نہیں رکھتے. وہ ناتواں و کمزور بھلا آپکا کیا بگاڑ سکتا ہے. نہ تو وہ آپکی ناک کی ہڈی توڑ سکتا ہے اور نہ ہی پیٹ میں گھونسہ مار سکتا ہے اسی لئے بلا سوچے سمجھے اسے کسی بھی چھوٹی بڑی بات پر بڑے اطمینان سے ہاتھہ لگایا جاسکتا ہے. ہاں ایک مرتبہ مجھے گھر میں بلکل صحیح بات پر تھپڑ کھانے کو ملا تھا. میں اس تھپڑ کا واقعی مستحق تھا کیونکہ میں نہ ایک گندا لفظ بول ڈالا تھا تو اسکے جواب میں فوراً تھپڑ کھانے کو ملا. مگر یہ گندے الفاظ میں نہ خود تو نہیں بناے تھے بلکہ یہ تو میں کسی بڑے کے منھ سے سن کر آیا تھا جسے میں نے آکر گھر میں دھرادیا. مجھہ پر ہاتھہ اٹھانے سے پہلے اس بڑے کو بھی تھپڑ مارنا چائیے تھا.
جسطرح بچے کو مارنا کوئی مشکل کام نہیں اسی طرح ایک بچے کے ساتھہ ڈانٹ ڈپٹ کرنا اور اسے جھڑکنا تو بڑوں کے لئے بائیں ہاتھہ کا کھیل ہے. لیکن مجھے یہ سمجھہ نہیں آتا کھ بڑے آخر بچوں کو اتنی بلند آواز میں ڈانٹتے کیوں ہیں؟ جب کوئی بڑا مجھے زور زور سے ڈانٹنے لگتا ہے تو مجھے ایسے لگتا ہے کہ جیسے میری جسم سے زبردستی روح نکالی جا رہی ہو. خصوصاً جب ابّا جان مجھے ڈانٹتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کھ جیسے کسی نے میرے پیٹ میں چھرا گھونپ دیا ہو. ایسے وقت ابّا جان کے پیروں میں گڑگڑاکر درخواست کرنے کا دل چاہتا ہے کھ چاہیں تو مرغا بنوالیں، سو مرتبہ اٹھک بیٹھک کروالیں مگر پلیز پلیز اتنی زور سے ڈانٹیں نہیں. اتنی گرجدار ڈانٹ ڈپٹ سے تو میرا دل ہی بیٹھہ جاتا ہے اور جسم کا انگ انگ کانپنے لگتا ہے مگر ڈانٹنے والا ڈانٹتا ہی چلا جاتا ہے. اسے سامنے والے کی اندرونی کیفیات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا. یہی وجھ ہے کھ جب میں گھر میں کسی کی بات نہیں مانتا تو بالآخر مجھے روکنے کے لئے ابّا جان سے ڈانٹ پلوانے کی دھمکی دی جاتی ہے. میں تو ابّا جان کی ڈانٹ کے تصور سے ہی رو پڑتا ہوں تو پھر آپ خود ہی سوچیے میرا حقیقیت میں کیا حال ہوتا ہوگا. کاش ابّا جان اتنا ہی سوچ لیتے.
سکول میں دی جانے والی سزا کا بنیادی مقصد توہین ہوتا ہے. کسی کی توہین کرکے اسکی اصلاح کرنا بھی کیا خوب اصول ہے. لیکن یہاں ایسا ہی ہوتا ہے. بھری کلاسس میں سب کے سامنے اٹھک بیٹھک کروانا، دونو ں کان پکڑوا کے ڈیسک پر کھڑا کردینا، ہاتھوں پہ ڈنڈے برسانا، مرغا بنانا وغیرہ وغیرہ سب اسی توہینی مہم کی کڑی ہیں. ایک گندے بچے کی حیثیت سے مجھے ان سب میں ہمیشہ ڈیسک پہ کھڑا کردینے والی سزا اچھی لگی کیونکہ اسمیں آپ اتنے سارے بچوں میں سب سے نمایاں اور سب سے اونچے ہوجاتے ہیں اور بیٹھے ھوے بچے آپکو محکوم نظر آتے ہیں. اس سزا میں بڑائی کا پر مسسرت احساس چھپا ہوتا ہے. میری ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کھ ایسی شرارت کروں کہ جسکے جواب میں بطور سزا مجھے ڈیسک پہ کھڑا کر دیا جاتے تاکہ کسی بہانے خودنمائی تو حاصل کی جاتے. یہی وہ واحد طریقہ ہے جسکو آزما کر گندے بچے کچھھ وقت کے لئے بڑوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالیتے ہیں. ڈانٹ ہی سہی، مار ہی سہی بڑے ہماری طرف دیکھیں گے تو سہی، سوچیں گے بات تو کریں گے. میں بھی اکثر و بیشتر یہی کرتا ہوں.جب بھی مجھے محسوس ہوتا ہے کھ کوئی نہ مجھے جی بھر کے دیکھہ رہا ہے اور نہ صحیح سے بات کر رہا ہے تو میں گھر کا گملہ توڑ کر ابّا جان کی توجہ حاصل کرتا ہوں، سیاہی کی بوتل گراکر مصروف بھائی کو اچانک اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہوں، آپا کی کاپیوں پر الٹی سیدھی لکیریں کھینچ کر کچھہ دیر کے لئے انکا چہرہ اپنی طرف پھر والیتا ہوں اور کبھی چھوٹے چچا کے کرکٹ بیٹ کا سٹیکر اکھاڑ کر انھیں اپنے بھتیجے سے دو چار منٹ بات چیت کا موقع فراهم کرتا ہوں. کتنا اچھا لگتا ہے جب سارے لوگ اپنی ساری مصروفیات چھوڑ کر تیوریاں چڑھائے خون آلود نگاہوں سے مجھے گھورنا شروع ہوجاتے ہیں اور یوںتوجہہ پانے کا میرا پلان کامیاب ہوجاتا ہے.
میری ہمیشہ سے بڑی خواہش رہی ہے کھ کھانے کے وقت ڈائننگ ٹیبل پر میری بات بھی اسی طرح سنی جاتے جسطرح دیگر افراد کی سنی جاتی ہے مگر سارے بڑے میری ٹوٹی پھوٹی گفتگو کو کبھی آگے بڑھنے ہی نہیں دیتے اور خاموشی سے کھانا کھانے کا حکم صادر فرما دیتے ہیں. جبکہ دوسری طرف بڑے کھانے کے دوران اپنے اپنے کارنامے و دیگر احوال بڑے زور سے چپڑ چپڑ کرکے سنا رہے ہوتے ہیں. یوں بولنے کی کوشش میں میری کمزور سی آواز ان بھری بھرکم آوازوں تلے دب کے رہ جاتی ہے.
کہتے ہیں بیمایوں سے آدمی کے گناہ دھل جاتے ہیں. بیماری بھی ایک طرح کی رحمت ہوتی ہے مگر گندے بچوں کے لئے بیماریاں ہر طرح سے نعمت ثابت ہوتی ہیں. جو ہاتھہ گندے بچے کے منھ پر زوردار تھپڑ رسید کرنے کے لئے اٹھا کرتے تھے انہی ہاتھوں کو ماتھے پہ رکھھ کر بخار کا اندازہ لگایا جاتا ہے، انہی ہاتھوں سے اسے دوا پلائی جاتی ہے، انہی ہاتھوں سے اسکا سر دبایا جاتا ہے اور وہی ہاتھہ دودھ گرم کرکے لاتے ہیں. وہ جنکے پاس بات کرنے کا ٹائم نہیں ہوتا تھا وہ بھی پاس آکے شفقت کا اظہار کرتے ہیں، وہ جو زور زور سے ڈانٹا اور مارا کرتے تھے اب وہ بھی ہاتھہ آگے نہیں بڑاھتے. ایسا معلوم ہوتا ہے کھ بیمایوں سے ہمارے گناہ ہی نہیں بلکہ ساری گندگی بھی دھل جاتی ہے جبھی تو سارے آس پاس آ کے کھڑے ہوجاتے ہیں. مگر صحتیابی کے بعد لوگ دوبارہ اپنی اصل صورتوں میں واپس آجاتے ہیں یعنی ڈانٹ، ڈپٹ اور مار اور کچھہ نہیں. میں تو اللہ میاں سے یہی دعا کرتا ہوں کھ وہ مجھے ہر چار پانچ مہینے بعد بیمار ضرور کیا کرے. تاکہ میرے اپنے لوگ میری بھی مزاج پرسی کریں، سر پر شفقت بھرے ہاتھہ رکھیں اور دودھ گرم کرکے لائیں.
گندے بچوں کے کھیل بھی اکثر گندے ہوتے ہیں. گندے بچے گولیاں کھیلتے ہیں، گلی ڈنڈا کھیلتے ہیں، پتنگ اڑاتے ہیں اور جنکے پاس پتنگ خرید لانے کے پیسے نہیں ہوتے وہ بڑی سے کانٹے دار شاخ لئے کٹی پتنگوں کے پیچھے دوڑتے نظر آتے ہیں. گندے بچے اگر یہ کھیل نا کھیلیں تو نجانے کتنے لوگ بیروزگار ہو جائیں. چلو کسی کے لئے تو گندے بچوں کا وجود رحمت کا باعث ٹھیرا.
میں نے کئی مرتبھ کوشش کی کھ اچھا بچہ بن جاؤں. ایک مرتبہ صاف ستھرے کپڑے پہن کر بالوں میں سلیقے سے کنگھی کرکے بڑے بھائی کے سامنے آیا تو یک دم اچھل کے رہ گنے. کچھہ دیر معائینہ کرنے کے بعد کہنے لگے کھ "او ہو! آج تو گندے بچے بھی بڑے صاف ستھرے کپڑے پہنے ھوے ہیں”. مجھے "گندا بچہ” کا لفظ سن کر بڑا دکھہ ہوا. میری ساری محنت رائیگاں ہوتی ہوئی محسوس ہوئی. اگر قسمت میں گندے بچے کا نام ہی سننے کو ملنا ہے تو پھر اتنی صفائی و ستھرائی کا فائدہ کیا. بھائی سے ملنے کے بعد پھر میں کسی کے پاس ان صاف کپڑوں میں نہیں گیا بلکہ جان بوجھہ کر وہی صاف کپڑے میلے کر ڈالے تاکہ گندے بچہ کا کل وقتی اعزاز پانے کے بعد اسکے تمام تقاضے بھی پورے کیے جائیں. ظاہر سی بات ہے. جب گندہ بچہ ہی کہلانا ہو تو پھر کھل کر گندہ بچہ بن کے دکھانا چاہیے.
میری کہانی بہت طویل ہے. اگر سارے واقعات کا احاطہ کرنے بیٹھہ گیا تو آپ بور ہو جائیں گے. یہ کہانی ہے ہی بہت بور. نھ کوئی سر ہے نھ پیر. نا کوئی شہزادہ ہے اور نا کوئی شہزادی. بس ایک گندےبچے کی رام کہانی ہے بلکل عام سی. ایسی بھی بھلا کوئی کہانی ہوتی ہے. اسی لئے کہانی یہیں ختم کررہا ہوں اس سے پہلے کھ آپ لوگ بالآخر کہہ اٹھئیں کھ گندے بچے نے اتنے سارے صفحات اپنی لکھائی سے گندے کر ڈالے. آخر کو گندا بچہ جو ٹھیرا.