یوٹیلیٹی سٹورز کے باھر سستے آٹے کے لئے قطار بناے برقع پوش بیبیوں سے لیکر مہنگے شاپنگ سینٹرز میں خریداری میں مشغول ماڈرن ایجڈ خواتین تک، ان تمام خواتین میں اس کے لئے ایک چیز مشترک تھی اور وہ تھی اس کی ماں.
اپنے سے انتہائی بڑی عمر کی عورتوں کا باقاعدہ تعاقب کرنا اسکا خاصہ تھا. یہ اپنے ان تمام دوستوں اور رشتےداروں کے گھروں کا بھی باقاعدہ چکر لگاتا جہاں اسکا مطلوبہ ہدف موجود ہوتا. بہانے بہانے سے ہر دوسرے روز اسکی یہ آمد ایک معمول کی بات تھی مگر اسکی اس آمد و رفت کے پیچھے دراصل کیا مقاصد کارفرما تھے ابھی تلک ایک معمہ تھا. ہر دن اسکے پاس آنے کا اک نیا بہانہ ہوتا تھا. کبھی شیرینی بانٹنے کے لئے، کبھی شام کا اخبار اور موبائل چارجر مانگنے کے لئے، کبھی گھر کا سودا سلف لانے یا بجلی، گیس و ٹیلیفون کا بل بھرنے کی بلا معاوضہ پیشکش لیکر اور کبھی کچھھ نہیں تو گھر کے چھوٹوں بڑوں کی خیریت پوچھنے کے بہانے ہی سہی.
محلے کے تقریبا ہر ہی گھر میں اسکی خوامخواہ کی امیاں، خالہ پھوپھیاں، چاچیاں، ممانیاں، دادیاں، نانیاں، آنٹیاں اور ہزار اقسام و ناموں کی رشتہ داریاں موجود تھیں اور وہ ان سب خدمت کے لئے انکے سگوں سے زیادہ پیش پیش تھا. رات کے تین بجے کسی بڑھیا کی کھانسی کی آواز آے یا بیچ سڑک پہ ٹریفک کے اژدہام میں پھنسی کوئی ضعیف خاتون اپنے اطراف کے بے حس افراد کی بے حسی پہ نوحہ کناں ہوں، اک صرف وہ ہی تو تھا جو ان سب کی مدد کے لئے دوڑیں لگارا رہا ہوتا تھا. اسپتالوں اور ہوٹلوں کے باھر حالات کی ماری بھیک مانگتی معمرخواتین کے ساتھہ خود بھی جھولی پھیلا کر کھڑا ہوجاتا اور پوش علاقوں میں کھاتے پیتے گھرانوں کی فرفرانگریزی بولتی عمر رسیدہ فیشن ایبل خواتین کی گاڑیوں کو دھکا بھی لگا رہا ہوتا.
وہ بھلا کسی کی کہاں سننے والا تھا؟ اسکو ہر بوڑھی عورت میں اپنی ماں کا عکس دکھنے لگا تھا. وہ عورت چاہے کسی لبادے میں ہو، اسکو اپنی ماں کا گمان ہوتا تھا. اسے لگتا کہ جیسے اسکی اپنی ماں اسے حقیقیت میں پکار رہی ہو اور وہ واقعی ان کی مدد کے لئے دوڑیں لگا دیتا. اپنی مرحوم ماں کی خدمت کا یہ انوکھا اندازاور وہ بھی اتنے تسلسل کے ساتھہ ایک عقدہ لا ینحل تھا ان تمام لوگوں کے لئے کھ جنکی عقیدت و احترام والدین کے مرنے کے بعد انکی قبروں کا ہی ایک کتبہ بن کے رہ جاتی ہے اسی لئے اطراف کے تمام لوگ اسکی اس دیوانہ وار خدمت خلق کو ریاکاری و فرزانگی سے تشبیہ دیتے تھے.
بات بھی بہت آسان سی تھی. ھم مرنے والوں کو زندہ نہیں کر سکتے اور نھ ہی مرنے والوں کے ساتھہ دفن ہوسکتے ہیں مگران کے ایصال ثواب کے لئے معصوم بچوں کو کھانا کھلا سکتے ہیں، مولوی صاحب کو بلا کرنیاز کروا سکتے ہیں، قرآن خوانی کروا سکتے ہیں، اگر بتیاں جلا سکتے ہیں، لنگر کرسکتے ہیں، حلیم کی دیگیں پکواسکتے ہیں، مرحومین کے نام پر صدقہ و خیرات بھی کرسکتے ہیں مگر مرتی ھوئی بوڑھی عورتوں کے چرنوں میں بیٹھہ کر اپنی مری ھوئی ماؤں کی گم شدہ روحوں کو زمین پر کس طرح واپس بلا سکتے ہیں؟
مگر وہ ان تمام منطق و عقلی توجیہات سے بےنیاز تھا. اسکے نزدیک اسکی ماں ان تمام چہروں میں جا چھپی تھی کھ جنکی خدمت کو اس نے اب اپنا نصب العین بنا لیا تھا.یہ خالہ پھوپھیاں، دادیاں، نانیاں، چاچیاں، ممانیاں اور ماسیاں اسکی اپنی والدہ مرحومہ کے ہی مختلف روپ ہیں. ماں جسمانی موت تو مر گئی مگر دیکھنے والی اولاد کے لئے وہ اب بھی ان تمام چہروں میں بذات خود موجود ہے اور حسرت بھری نگاہوں سے اس بےپروا اولاد کو دیکھہ رہی ہے جو قبروں پہ دو چار اگربتی جلا کر اور عید بقرعید پہ حاضری دیکر یہ سوچ بیٹھی کھ مرے وے لوگوں کے لئے اس سے بڑھ کر بھلا اور کیا کیا جاسکتا ہے؟
اسکے لئے اسکی ماں کا چہرہ جتنا کمیاب تھا اتنا ہی دستیاب بھی تھا. ہر اگلا چہرہ اسکا ہی چہرہ دیکھائی دیتا تھا. بازاروں میں، بس سٹاپ پہ، گلیوں محلوںمیں، فٹ پاتھہ پہ چلتے ہوے، گھروں کی باریک جالیوں کے عقب سے جھانکتے ہوے، وہ چہرہ ہر جگہ تو موجود تھا مگر رسائی پھر بھی کوسوں دور تھی. مسلہء تھا ہی کچھھ پیچیدہ. کس کس چہرے کا پیچھا کیا جاے اور کس کس چہرے کے پاس جا کے گڑگڑایا جاے؟ جب ہر چہرہ اپنی ہی کوئی کھوئی ہوئی قیمتی متاع معلوم ہو اور جب ہر نقاب کے پیچھے اپنا ہی کوئی گمشدہ پیارا نظریں چراتے ہوے نظر آے تو بےچینی اور بھی بڑھ جاتی ہے.
یہ عجب تلاش کا نا مکمل سفر نہ جانے کب سے جاری تھا. اتنی آسان ترین رسائی کے باوجود متلاشی اپنا ہاتھہ بڑھانے سے قاصر تھا لیکن تلاش تھی کہ پھر بھی سدا سے اپنے عروج پر تھی. صبح سے شام تک اور شام سے لے کر اس وقت تک جب تلک لوگ اپنی کھڑکیاں دروازے بند نہیں کر لیتے وہ اپنے گھر میں داخل نہیں ہوتا. داخل ہوتا بھی تو کسکے لئے؟ اسکا بھلا گھر میں کون انتظار کر رہا ہوتا تھا؟ اور پھر اگلی صبح وہ بدستور ہر دوسری تیسری عورت کا پیچھا کرتا نظر آتا. بس یہی اسکا معمول تھا.
اسکو لوگوں نے نجانے کہاں کہاں عورتوں کا پیچھا کرتے دیکھا تھا مثلا ہوٹلوں میں، مارکیٹوں میں، اسپتالوں میں، شاہراہوں پہ، تفریحی مقامات پر، سینما ہا ل کے باہر.بعض اوقات تو صرف ایک آدھ ہی نہیں بلکہ بیک وقت کئی خواتین کا پیچھا کرتے دیکھا گیا تھا. وہ دیکھنے میں تو اچھا خاصا معقول پڑھا لکھا شخص دکھائی دیتا تھا مگر اسکی یہ عجیب حرکتیں عام فہم سے بالاتر تھیں. آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے ہر گزرتی عورت کو ٹکٹکی باندھ کے حسرت سے تکنا اسکا یقیننا محبوب مشغلہ تھا لیکن بات اگر یہیں ختم ہوجاتی تو غنیمت ہوتی.
وہ ایک عام آوارہ گرد نہیں تھا بلکہ شاید کچھ خاص ہی مقاصد لئے گلیوں گلیوں کی خاک چھانتا پھرتا تھا. وہ آوارگی کے ساتھہ ساتھہ بیچارگی کی بھی ایک تصویر دکھائی دیتا تھا. اسکی آنکھوں میں بےشرمی نہیں لحاظ تھا، بےحیائی نہیں ایک احترام تھا. وہ تھا بھی بہت طور طریقے کا آدمی. نہ تو کبھی کسی عورت پہ آوازیں کسیں اور نہ ہی کبھی سیٹیاں بجائیں. ایک خاموش تعاقب کے علاوہ کچھھ بھی تو ایسا نہیں تھا جس پر انگلیاں اٹھائی جاتیں. ان تمام حرکات کے ساتھہ ساتھہ اسکے اندر بسی گہری خاموشی نے اسے مزید پرسرار بنادیا تھا.تہذیب کے لبادے میں لپٹی یہ کوچہ گردی یا تو پیغمبری پانے کی سزا ہو سکتی تھی یا پھر کسی غریب الوطن کی بیکسی کا خاموش احتجاج. اپنے آس پاس سے بے نیاز ہوکر جس شتابی سے اسکے قدم بڑھتے کہ گمان ہوتا کھ اس بار شاید یہی عورت اسکی منزل مقصود ہو مگر اپنی منزل کے منظر سے غایب ہوتے ہی وہ حسرت و یاس کی تصویر بنا کسی اور نسوانی پیکر کا منتظر نظر آتا. اسکی یہ تڑپ، یہ جستجو جتنی عیاں تھی اتنی ہی پر فریب بھی.
بوڑھے نسوانی چہروں پہ موجود ان گنت جھریاں اسکےلئے زاد راہ ہی نہیں بلکہ جاے نزول بھی تھیں، اسباب زیست ہی نہیں مقصود حیات بھی تھیں اور راہ عمل ہی نہیں راہ نجات بھی تھیں. بوڑھی روحوں کے ڈگمگاتے قدم اسکی اپنی روح کو بےچین کر دیتے اور ناتواں جسموں میں رینگتا غربت و افلاس کا درد اسے بھی کسی پل چین سے کروٹ نہ لینے دیتا. گزرے دور کی گزرتی ھوئی بوڑھی بیبیوں کے بوسیدہ پاندان کے سروتے اور اپنی ٹوٹی ھوئی موٹی عینک کے بل پر سر کی جویں مارتی ھوئی دم توڑتی نگاہیں، یہ تمام فکرات اس ایک شخص کی سوچ کا کل محور تھیں. اس نے اپنے آپ کو زندگی بھر کے لئے تیز کاٹ دار چونے کی سفیدی اور پان کے کتھے کے انمٹ رنگ میں رنگ لیا تھا.عصا تھامے اور وہیل چیر کے پہیے گھماتے ھوے کپکپاتے ہاتھہ اسکے اپنے وجود کے لئے قوت محرکہ تھے اور ڈھلتے جسموں پر باریک ابھری ہوئی سبز رگوں کے عیاں جالے اسکے لئے پر فریب بھول بھلیاں نہیں بلکے پر معنی زندگی کے حسین تر نقوش تھے کے جن کا تعاقب کسی بھی ذی شخص کو اسکی مطلوبہ منزل تک باسانی لیجا سکتا ہے. مگر یہ سب کچھھ اسکے لئے کسی منزل کو پانے کی ہوس نہیں بلکہ ایک انداز سفر تھا اور جب سفر ہی منزل بن کے رہ جاے تو منزل کا تعیین تو خود بخود ہی ہوجاتا ہے.
کبھی نہ واپس آنے والے اپنوں کی راہیں تکنے والی گھروں کی ڈ یوڑھیوں پہ بلغم تھوکتی صاحب فراش معمر ہستیاں اور بیوگی کے لباس میں ملبوس کھوپرے کے تیل میں چیکٹ چاندی بالوں کی چٹیانیں چھپاتی ھوئی دم توڑتی دادیاں، یہ تمام کی تمام اس کے لئے گزرے دور کی باقیات نہیں بلکہ دور رفتہ کے وہ بلند و بالا شاندار فوارے ہیں کے جنکے دم سے اب تلک زندگی کے سوتے پھوٹ رہے ہیں. دلہنوں کا عروسی جوڑا کاڑھتی، آدھی رات کو گلگلے پکاتی، ڈھولکی کی تھاپ پہ سکھیوں کے گیت گنگناتی، ابٹن و مہندی کے رنگ دوسروں کے ہاتھوں پہ ملتی اور بوقت رخصتی بیٹیوں، پوتیوں اور نواسیوں کے دامنوں میں کبھی نہ ختم ہونے والی دعاؤں کے پھول بکھیرتی یہ کل کی بوڑھی مائیں آج بھی خوشبختی اور حیات نوکی علامت ہیں ان تمام لوگوں کے لئے جو ان خوشیوں کو سمیٹنا چاہتے ہیں.
اپنی بوسیدہ ساڑھیوں کے پلو میں ننھے منوں کے لئے کھانے پینے کی چیزیں چھپاے بچوں کی ہردل عزیزنانیاں و دادیاں اور پیتل کا اگالدان تھامے محلے کے ہر گھر کی خیریت پوچھتی خالہ امیاں اس ایک شخص کا متاع کل تھیں کھ جو ان تمام ہستیوں میں وہ ایک چہرہ پرنور کی تلاش میں تھا جو اب اسکی دسترس سے زندگی بھر کے لئے باھر تھا. کبھی نہ سامنے آنے والی پردہ پوش ماسیوں کی لڑکھڑاتی منحنی آواز کا ہر اک شبد اور شٹل کاک میں ڈھکی چھپی پردہ دار ماؤں کے منھ سے نکلے دعاعیہ الفاظ اسکو اس دور میں واپس پوہنچا دیتے جہاں وہ کھبی ہوا کرتا تھا ان اعزازی لقب کردہ ماؤں کے ساتھہ نہیں بلکہ اپنی اصلی والی ماں کے ساتھہ جواگلے جہاں کو سدھار چکی تھی.
مائیں مر جایں تو بھلا لوٹ کے واپس کہاں آتی ہیں مگر اپنی ماں سے جدائی کا خیال ہی اسکے لئے بےمعنی تھا. وہ شاید حقیقیت کا سامنا کرنے سے گریزاں تھا یا خود فریبی کی عارضے میں مبتلا تھا. وہ یہی بات ناقدین کو سمجھاتا رہتا کھ اسکی ماں نظروں سے اوجھل ھوئی ہے مری نہیں ہے. من مٹی کے نیچے ضرور دفنایا ہے مگرمن سے تو کھرچ کے نہیں پھینکا ہے. در حقیقیت وہ ایک چہرہ اب ہزار چہروں میں خود کو تحلیل کرچکا ہے. آپ جس چہرے میں چاہے اسکے پا سکتے ہیں. ہر دوسرا چہرہ اسی کا تو ہو بہوعکس ہے.
بدبخت وہ ہی نہیں ہوتے جو اپنی ماؤں کی زندگی بھر قدر نہیں کرپاتے بلکہ بدبخت تو وہ بھی ہیں جو اپنی ماؤں کو مردہ سمجھہ کے دفنانے آتے ہیں اور کبھی سر اٹھا کے اپنے اطراف دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کھ ہوسکتا ہے انکی ماں اب شاید کسی اور لبادے میں کسی اور مقام پر کسی اور لوگوں کے ساتھہ کسی اور روپ میں جلوہ گر ہو.
وہ بھی کیسا عجب انوکھا لاڈلا تھا جو شعوری و لاشعوری دونوں سطح پہ اب تک ماں کی گود سے چمٹا ہوا تھا. جب اپنی شادی کے لئے دلھن کی تلاش میں نکلا تو دلھن سے کہیں زیادہ اپنی ساس کے غم میں گھلتا رہا جو اگر ماں نہیں تو ماں کا نعم البدل تو ثابت ہوسکتی تھی، جو اپنے پیر نہیں دبواسکتی مگر اپنے قدموں میں جگہ تو دیسکتی تھی، جسکی موتیا زدہ آنکھوں میں دوائی نہیں ڈالی جا سکتی تھی مگر اسکی آنکھوں کا تارہ تو بنا جسکتا تھا، محض نام کی ہی سہی امی کہہ کر تو پکارا جا سکتا تھا اور جسکے سر میں وہ خود سے سرسوں کا تیل نہیں ڈال سکتا لیکن روحانی قربت تو پا سکتا تھا. ہزار بہانے تراش رکھے تھے جو لمحہ بھر میں ایک اجنبی عورت کو ماں کا رتبہ دینے کے لئے آزمودہ و مجرب تھے اور ہزار دہلیزوں پہ اپنا ماتھا رگڑنے کے بعد بالآخر اسکو کوئی نہ کوئی بیٹوں کی ماری ایسی عورت مل ہی جاتی جہاں ایک بنی بنائی ماں ایک تیارشدہ ریڈی میڈ (ready mad) بیٹے کو اپنی مادی اغراض کی لئے جزوقتی توڑ پر گود لینےکے لئے تیار ہوجاتی یوں وہ آج ڈھیر ساری ماؤں کا اکلوتا چراغ تھا جو رگڑنے پہ دونوں ہاتھہ باندھے انکی چوکھٹ پہ پیش خدمت ہوتا. کچھھ ماؤں کے لیے تو وہ واقعی انکے سگے بیٹے سا تھا مگر کچھہ اسے محض مفت کا ملازم ہی سمجھتی تھیں مگر و یہ سب جانتے ہوے بھی اپنے دھن میں مگن تھا. ایسا گھا ٹے کا سودا تو اسنے بھی نہیں کیا تھا. آخر کو کم از کم کسی عورت کے منھ سے بیٹا کا لفظ تو سننے کو مل ہی جاتا تھا اور اس سے بڑھ کر اسکے لئے اور کیا معاوضہ ہوسکتا تھا. غرض و فرض کا یہ عجیب مرکب اپنی تمام نقائص کے باوجود اسکے لئے پوری کائنات تھا اور وہ اپنے محور کے گرد مسلسل چکّر کاٹے جا رہا تھا.
اکثر لوگ زندگی میں ہی اپنی ماؤں کے لئے مر چکتے ہیں مگر کچھھ ایسے بھی دلارے ہوتے ہیں جو اپنی ماں کو انکے مرنے کے بعد بھی زندہ کیے رکھتے ہیں. وہ بھی یقینناً ان میں سے ہی ایک ایسا دلارا تھا.